Inquilab Logo

’یارسولؐ اللہ! میں نے گھر والوں کیلئے اللہ اور اس کے رسولؐ کو چھوڑا ہے‘

Updated: October 27, 2023, 1:30 PM IST | Molana Nadimul Wajidi | Mumbai

سیرتِ رسول پاکؐ کی اس خصوصی سیریز میں غزوۂ تبوک کے متعلق کچھ معلومات گزشتہ ہفتے شائع ہوئی تھیں۔ اس ہفتے اس غزوے کے پس منظر کے علاوہ اس کی اہمیت ایک واقعے سے بیان کی گئی ہے۔ وہ منظربھی ملاحظہ کیجئے جب آپؐ کے حکم پر صحابہ ؓ نے اپنے صدقات جمع کرائے، حضرت عمرؓ اپنا آدھا مال لائے اور یہ سمجھا کہ وہ حضرت ابوبکرؓ سے بازی لے گئے تاہم حضرت ابوبکرؓ پورا ہی مال لے کر آگئے۔

After defeating the Iranians, Heracles sent an army to attack Medina. Photo: INN
ایرانیوں پر غلبہ پانے کے بعد ہرقل نے مدینہ منورہ پر چڑھائی کے ارادے سے فوج روانہ کی تھی۔ تصویر:آئی این این

غزوۂ تبوک کا پس منظر
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو متواتر یہ خبریں مل رہی تھیں کہ قیصر روم؛ ہرقل کا ایک بڑا لشکر شام کی سرحد پر واقع عینِ تبوک پر جمع ہورہا ہے، ہرقل کا ارادہ مدینے پر حملہ کرنے کا ہے، اس نے اس حملے کی زبردست تیاری کی ہے، یہاں تک کہ اس نے اپنے فوجیوں کو ایک سال کی تنخواہ بھی دے دی ہے، یہ خبریں ان نبطیوں کے ذریعے ملیں جو شام سے تیل فروخت کرنے کیلئے مدینے آیا کرتے تھے۔ ایک صحابی حضرت عمران بن حصینؓ بیان کرتے ہیں کہ مدینے کے آس پاس رہنے والے عیسائیوں نے ہرقل کو لکھ کر بھیجا تھا کہ مسلمانوں کے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم وفات پاچکے ہیں ، یہاں کے لوگ قحط کی وجہ سے بھوکوں مر رہے ہیں ، ان پر حملہ کرنے کا اس سے بہتر وقت دوسرا نہیں ہوسکتا۔ چنانچہ ہرقل نے چالیس ہزار کا لشکر مدینہ منورہ پر حملہ کرنے کے لئے روانہ کیا۔ اس کا مقدمۃ الجیش مقام بلقاء تک پہنچ گیا، اسی اثناء میں تیل فروشوں کے ذریعے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی خبر ملی، آپؐ نے فیصلہ فرمایا کہ اس سے پہلے کہ وہ لوگ یہاں پہنچیں ہمیں خود پیش قدمی کرنی چاہئے اور اُن کا مقابلہ اُن کے گھر میں داخل ہوکر کرنا چاہئے۔ 
رومیوں کے ساتھ جنگ کیلئے جانے کا وقتی سبب تو یہ تھا جو بیان کیا، مگر حقیقی اور اصل سبب یہ تھا کہ عرب کے قبائل سے فارغ ہونے کے بعد یہ ضروری تھا کہ دوسری اقوام کو بھی اسلام کی دعوت دی جائے، اگر وہ انکار کریں تو ان سے جہاد کیا جائے، اس سے پہلے بھی اسلامی فوج نے ارض شام کی طرف کوچ کیا تھا، اس کی تفصیل غزوۂ موتہ کے بیان میں گزر چکی ہے۔ غزوۂ موتہ میں مسلمانوں کا حریف؛ امیرِ شام شرحبیل غسانی تھا، یہ جنگ بغیر کسی نتیجے کے ختم ہوگئی تھی اس لئے ہر وقت یہ دھڑکا لگا رہتا تھا کہ غسّان کے لوگ کسی بھی وقت مدینے پر حملہ کردینگے۔ یوں بھی رومیوں کی سلطنت کا دائرہ دن بہ دن وسیع ہوتا جارہا تھا، اس کا دیرینہ حریف ایران پے درپے شکست کھا رہا تھا۔ سن سات ہجری میں رومیوں نے ہرقل کی قیادت میں ایرانیوں کو زبردست شکست دی تھی، وہ لوگ ایرانیوں کی زمین میں دور تک داخل ہوگئے تھے اور ان سے اپنا وہ صلیب واپس لینے میں کامیاب ہوگئے تھے جس پر ماضی میں کسی وقت ایرانیوں نے قبضہ کرلیا تھا۔ ایرانیوں پر غلبہ پانے کے بعد اب ان کی نظر مسلمانوں کی طرف اٹھ رہی تھی، اس لئے مسلمانوں کو ہر وقت یہ دھڑکا لگا رہتا تھا کہ غسانی کسی بھی وقت مدینہ پر حملہ آور ہو سکتے ہیں۔ 
حضرت عمر بن الخطابؓ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے ایک انصاری دوست سے یہ طے کررکھا تھا کہ ایک دن میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں حاضر رہوں گا، اور ایک دن تم موجود رہنا، دونوں اپنی اپنی باری پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی باتیں سنیں گے اور رات میں ایک دوسرے کو بتلائیں گے۔ ان دنوں ہم لوگ آپس میں کہتے رہتے تھے کہ غسان کسی بھی وقت ہم پر حملہ کرسکتے ہیں ۔ ایک دن میرا ساتھی رسولؐ اللہ کی خدمت میں حاضر تھا، فارغ ہوکر رات میں وہ میرے گھر آیا، اس نے زور سے دروازہ کھٹکھٹایا، اور پوچھا کہ کیا آپ سورہے ہیں ۔ میں گھبرا کر اٹھا، باہر نکلا، میرے ساتھی نے کہا کہ ایک بہت بڑا واقعہ پیش آگیا ہے، میں نے پوچھا: کیا ہوا، کیا غسانی آگئے؟ اس نے کہا: نہیں ! بلکہ واقعہ اس سے بھی زیادہ خطرناک ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیویوں کو طلاق دے دی ہے۔ یہ سن کر میں نے کہا: حفصہ تو نا کام ہوئی اور خسارے میں پڑ گئی، (دوسرے دن) میں صبح کی نماز پڑھ کر فارغ ہوا ، اور حفصہؓ کے پاس گیا، وہ رو رہی تھی۔ میں نے پوچھا کیا رسول اللہ ﷺ نے تم سب کو طلاق دے دی ہے؟ اس نے کہا: میں نہیں جانتی، البتہ آپ ﷺ سب سے الگ تھلگ اس اوپر کے کمرے میں ہیں ۔ میں رسولؐ اللہ کے غلام کے پاس آیا، اور اس سے کہا کہ آپؐ سے میرے لئے اجازت مانگو، وہ گیا، اس نے واپس آکر مجھ سے کہا کہ میں نے آپ ؐ سے تمہارے لئے اجازت مانگی تھی مگر آپؐ خاموش رہے، یہ سن کر میں مسجد میں منبر کے پاس آکر بیٹھ گیا، وہاں کچھ اور لوگ بھی بیٹھے ہوئے تھے، ان میں سے بعض رو بھی رہے تھے، میں پھر غلام کے پاس آیا اور اس سے کہا کہ عمر کے لئے اجازت مانگو، وہ اندر گیا، پھر میرے پاس آیا اور کہنے لگا کہ میں نے آپؐ کیلئے اجازت مانگی تھی مگر آپ یہ سن کر خاموش رہے، میں واپس جانے لگا، اچانک اس نے مجھے آواز دی اور کہا کہ اے عمرؓ! اندر چلے جاؤ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہیں اجازت دے دی ہے، میں اندر داخل ہوا اور سلام کے بعد عرض کیا: یارسولؐ اللہ! کیا آپؐ نے اپنی بیویوں کو طلاق دے دی ہے، آپؐ نے فرمایا، نہیں ! (صحیح البخاری: ۷/۲۸، رقم الحدیث: ۵۱۹۱، صحیح مسلم: ۲/۱۱۰۵، رقم الحدیث: ۱۴۷۹) 
یہ ایک طویل روایت ہے، ہم نے جس مقصد کے لئے اس روایت کا انتخاب کیا ہے وہ حضرت عمرؓ کا یہ ارشاد ہے کہ کیا غسانی آگئے، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ مدینے میں عام طور پر یہ بات شہرت رکھتی تھی کہ غسان یعنی رومی کسی بھی وقت مدینہ پر حملہ کرسکتے ہیں ، طلاق کی حقیقت صرف اتنی ہی ہے کہ آپؐاپنی بعض بیویوں سے ناراض ضرور ہوئے، لیکن آپؐ نے کسی کو طلاق نہیں دی، البتہ صحابہؓ یہی سمجھتے رہے تھے کہ آپ نے طلاق دے دی ہے۔ ہم نے یہ طویل روایت اختصار کے ساتھ نقل کی ہے، اس کا یہ حصہ بہ طور خاص نقل کیا ہے جس میں حضرت عمرؓ کا یہ سوال ’’یارسولؐ اللہ! کیا آپ نے اپنی بیویوں کو طلاق دے دی ہے‘‘، اور آپؐ کا یہ ارشاد ’’نہیں ! ‘‘موجود ہے، تاکہ یہ بات واضح ہوجائے کہ آپؐ نے اپنی بیویوں میں سے کسی کو طلاق نہیں دی تھی، البتہ شہد کھانے کے معاملے میں آپؐ ان سے ناراض ضرور ہوئے تھے۔شہد کا واقعہ قرآن کریم کی سورۂ تحریم میں موجود ہے۔ 
بہر حال مسلمانوں کے دلوں سے رومیوں کے حملے کا خوف نکالنے کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فیصلہ فرمایا کہ ان کی طرف پیش قدمی کرکے خود ہی حملہ کردیا جائے۔
صحابہ کو امداد ومعاونت کی ترغیب
سفر دور دراز کا تھا، اور جہاد اس زمانے کی سب سے زیادہ فوجی طاقت اور مکانی وسعت رکھنے والی مملکت روما سے تھا، قحط سالی کا زمانہ تھا، کھجور کی فصل پکنے کی قریب تھی، اکثر صحابہؓ خالی ہاتھ تھے، موسم بھی سخت تھا، ان حالات میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام قبائل عرب سے فوجی اور مالی معاونت طلب فرمائی، اور مدینے کے تمام مسلمانوں کو حکم دیا کہ وہ اس جہاد میں نکلیں ، نہ صرف نکلیں بلکہ مالی امداد بھی کریں ۔ یہ حقیقت ہے کہ صحابۂ کرامؓ نے اللہ کے راستے میں خرچ کرنے سے کبھی دریغ نہیں کیا، جب بھی رسول اللہ نے کسی معاملے میں ان سے مالی یا جسمانی مدد چاہی بے سروسامانی کے باوجود انہوں نے مدد کرنے میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا، اس موقع پر بھی ایسا ہی ہوا، جس کے پاس جو کچھ دینے کے لئے تھا وہ لے کر حاضر خدمت ہوگیا۔
روایات میں ہے کہ حضرت ابوبکر الصدیقؓ اپنا تمام مال لے کر حاضر ہوئے، اس کی قیمت چار ہزار دینار تھی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن سے دریافت فرمایا کہ اے ابوبکرؓ! کیا تم گھر کا تمام سامان لے آئے یا گھر والوں کے لئے بھی کچھ چھوڑ کر آئے ہو، حضرت ابوبکرؓ نے عرض کیا: یارسول اللہ! میں نے گھر والوں کے لئے اللہ اور اس کے رسولؐ کو چھوڑا ہے۔ حضرت عمر فاروقؓ آدھا مال لے کر آئے۔ انہیں خیال ہوا کہ آج میں ابوبکرؓ سے سبقت لے جاؤں گا، خود فرماتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ ﷺ نے ہمیں صدقہ کرنے کا حکم دیا، میں نے اپنا آدھا مال لاکر پیش کردیا اور دل میں سوچنے لگا کہ آج میں ابوبکرؓ سے آگے بڑھ جاؤں گے، ویسے تو وہ ہمیشہ ہی مجھ سے آگے رہتے ہیں ۔ رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے دریافت فرمایا: اے عمرؓ! تم نے اپنے گھر والوں کے لئے کتنا مال چھوڑا ہے، میں نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! اتنا ہی مال گھر والوں کے لئے چھوڑا ہے جتنا مال آپ کی خدمت میں پیش کیا ہے۔ اتنے میں ابوبکرؓ اپنا سارا مال لے کر آگئے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے بھی یہی پوچھا کہ گھر والوں کے لئے کتنا چھوڑا، انہوں نے کہا: یارسولؐ اللہ! میں نے گھر والوں کے لئے اللہ اور اس کے رسول کو چھوڑا ہے، یہ سن کر میں نے ابوبکرؓ سے کہا کہ میں آپ سے کبھی آگے نہیں بڑھ سکتا۔ (سنن ابی داؤد: ۲/۱۲۹، رقم الحدیث: ۱۶۷۸) 
تمام صحابہؓ نے اپنی اپنی حیثیت اور گنجائش کے مطابق اس کار خیر میں حصہ لیا، جس کے پاس جو کچھ دینے کے لئے تھا وہ اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کردیا، کسی نے کھجوریں ، کسی نے ستو، کسی نے سواری، کسی نے زرہ، کسی نے تلوار۔ حضرت عثمان بن عفانؓ اس معاملے میں بھی بازی لے گئے۔ عبد الرحمٰن بن خُباب روایت کرتے ہیں کہ میں اس مجلس میں حاضر تھا جس میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم غزوۂ عسرت کے لئے لوگوں کو صدقہ کرنے کی ترغیب دے رہے تھے۔ حضرت عثمانؓ نے کھڑے ہوکر اعلان کیا: یارسولؐ اللہ! میں سو اونٹ ان کے سازوسامان کے ساتھ پیش کروں گا۔ آپ نے لوگوں کو پھر ترغیب دی، حضرت عثمانؓ دوبارہ کھڑے ہوئے اور عرض کیا: یارسولؐ اللہ! میں دو سو اونٹ سازوسامان کے ساتھ پیش کروں گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ترغیب دینے کا سلسلہ جاری رکھا، حضرت عثمانؓ تیسری مرتبہ کھڑے ہوئے اور عرض کیا: یارسول اللہ! میرے ذمے تین سو اونٹ ہیں ، اور ان کا سازوسامان بھی۔
 یہ سن کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم منبر سے نیچے تشریف لائے اور فرمایا: ’’آج کے بعد عثمانؓ کو کوئی عمل نقصان نہیں پہنچائے گا۔‘‘ یہ بات آپ نے دو مرتبہ ارشاد فرمائی۔ (سنن الترمذی: ۵/۶۲۵،رقم الحدیث: ۳۷۰۰) ایک اور صحابی حضرت عبد الرحمٰن بن سمرہؓ اس مجلس کا حال بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ حضرت عثمان بن عفانؓ ایک ہزار دینار لے کر رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے، آپؐ انہیں اپنے دست مبارک سے الٹ پلٹ کرتے رہے، پھر فرمایا: آج کے بعد عثمانؓ کو کوئی عمل نقصان نہیں پہنچائے گا، اے اللہ! میں عثمانؓ سے راضی ہوا تو بھی راضی ہوجا۔ یہ بات آپؐ نے کئی مرتبہ ارشاد فرمائی۔ (مسند احمد بن حنبل: ۳۴/۲۳۱، رقم الحدیث: ۲۰۶۳۰)

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK