Inquilab Logo

’اے محمدؐ! میں آپؐ کا کلام سننا نہیں چاہتا تھا ، مگر اللہ سنانا چاہتا تھا، آپؐ کا پیغام کیا ہے؟‘

Updated: July 24, 2020, 10:44 AM IST | Maolana Nadeemul Wajidi

سیرت نبی ٔ کریم ؐ کی اس خصوصی سیریز میں گزشتہ ہفتے حضرت ابوبکرؓ کا ہجرت کا ارادہ ، ابن الدغنہ کا آپؓ کو پناہ دینا اور آپؓ کا اس کی پناہ کو واپس کرنا، ان تمام باتوں کا ذکر تھا۔ آج کی قسط میں پڑھئے کہ جب عرب کے مشہور قبیلہ دَوس کے سردار طفیل دَوسی مکہ مکرمہ آئے تو قریش مکہ نے اسلام کی مخالفت میں انہیں خوب بہکایا اور گمراہ کرنے کی کوشش کی، لیکن ان کی قسمت میں دین سے سرفراز ہونا اور پھر دین کی خدمت کرنا لکھا تھا ۔ ملاحظہ کیجئے اس کی تفصیل:

Mecca Sharif - Pic : INN
مکہ شریف ۔ تصویر : آئی این این

عربوں میں یہ رواج عام تھا کہ کوئی بھی قبیلہ، یا کسی قبیلے کا کوئی بڑا آدمی کسی مظلوم یا ستم رسیدہ شخص کو، یاکسی اجنبی مسافر کو اپنی پناہ میں لے لیتا تھا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ وہ شخص اب اس قبیلے کی یا اس شخص کی حفاظت میں آگیا ہے، کسی دوسرے شخص کو یا کسی اور قبیلے کو اس کی طرف دیکھنے کی جرأت نہیں ہوتی تھی، اور اگر کوئی ایسا کرتا تھا تو یہ براہ راست اس قبیلے پر یا اس شخص پر حملہ یا اس کے خلاف اعلان جنگ سمجھا جاتا تھا۔ 
جس طرح پناہ دی جاتی تھی اسی طرح پناہ واپس بھی لے لی جاتی تھی، یہ عربوں کے معاشرتی نظام کا ایک حصہ تھا۔
حضرت عثمان ؓبن مظعون ولید بن مغیرہ کی پناہ میں تھے، اس لئے مسلمان ہونے کے باوجود لوگ انہیں کچھ نہیں کہتے تھے۔ ایک دن انہیں خیال آیا کہ میں ولید بن مغیرہ کی امان میں ہوں اور آرام سے مکہ مکرمہ کی گلیوں میں گھومتا پھرتا ہوں، ولید کی وجہ سے مجھے کوئی کچھ نہیں کہتا، جب کہ میرے دوسرے ساتھی اور میرے دینی بھائی اللہ کی راہ میں تکلیفیں جھیل رہے ہیں، یقیناً میرے حق میں یہ بات اچھی نہیں ہے اور اس سے میرے اجر و ثواب میں کمی ہوگی۔ حضرت عثمانؓ کو اس خیال نے پریشان کردیا، وہ اسی وقت ولید بن مغیرہ کے پاس پہنچے اور اس سے کہا: اے عبد شمس! میں تمہاری پناہ واپس کرنا چاہتا ہوں۔ ولید نے پوچھا اے بھتیجے! کیوں؟ انہوں نے کہا کہ میں اللہ کی پناہ اور اس کی حفاظت میں جانا چاہتا ہوں، اس کے علاوہ کسی کی پناہ کا طلبگار نہیں ہوں، اس لئے میرے ساتھ مسجد حرام چلو اور جس طرح تم نے علی الاعلان مجھے اپنی پناہ میں لیا تھا اسی طرح علی الاعلان مجھے اپنی پناہ سے آزاد کردو۔ دونوں گھر سے نکل کر مسجد پہنچے۔ ولید نے لوگوں سے بتلایا کہ یہ عثمان میری پناہ واپس کرنا چاہتا ہے، عثمانؓ نے کہا ولید صحیح کہتے ہیں، انہوں نے مجھے پناہ دی اور یہ اچھے پناہ دینے والے ثابت ہوئے لیکن میں اب صرف اللہ کی پناہ چاہتا ہوں، یہ کہہ کر عثمانؓ وہاں سے چلے گئے۔ اس واقعے سے جہاں عربوں کی زندگی کے اس معاشرتی پہلو پر روشنی پڑتی ہے وہیں اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ حضرات صحابہ کرامؓ  کا عقیدۂ توحید کس قدر مضبوط  اور خدا پر ان کا یقین کس قدر پختہ تھا کہ وہ اس میں کسی کی گنجائش محسوس نہیں کرتے تھے، پھر ان میں یہ جذبہ بھی تھا کہ وہ اگر اپنے دینی بھائیوں کی کوئی مدد نہ کرسکیں تو کم از کم تکلیفیں اٹھا کر اور مشقتیں برداشت کرکے ان کا ساتھ دے دیں۔ (حلیۃ الاولیاء: ۷/۱۰۳، ۱۰۴،  اسد الغابہ: ۳/۵۹۸، ۵۹۹)
lحضرت طفیل بن عَمْرو دَوسیؓ کا قبول اسلام: 
شعب أبی طالب سے باہر آنے کے بعد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پھر کارِ نبوت یعنی دعوت وتبلیغ کے کام میں مشغول ہوگئے، قریش بھی اپنے کام میں لگ گئے، یعنی وہی مخالفت وہی دشمنی، وہی عداوت۔ کھلی نشانیوں اور واضح معجزات کے باوجود وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت پر اسی طرح کمر بستہ ہوگئے جس طرح پہلے دن تھے، بلکہ اس میں دن بہ دن اضافہ ہی ہوتا چلا گیا۔ ایک اور پالیسی انہوں نے یہ وضع کرلی تھی کہ مکہ مکرمہ میں آنے والے لوگوں سے فوراً رابطہ کیا جائے اور ان کو بتلایا جائے کہ یہاں محمدؐ نامی ایک شخص مدعی ٔ نبوت ہے جو  رات دن لوگوں کو ’’ گمراہ کرنے‘‘ میں لگا ہوا ہے۔ مکہ مکرمہ میں لوگ مختلف مقاصد کیلئے آتے رہتے تھے، کوئی حج  کے ارادے سے، کوئی زیارت وطواف کعبہ کے لئے، کوئی تجارت کے مقصد سے اور کوئی رشتہ داروں سے ملنے کے لئے، غرضیکہ رات دن آنا جانا لگا رہتا تھا۔ ایک روز قبیلۂ دوس کے سردار حضرت طفیل بن عَمْرو تشریف لائے۔ جیسے ہی قریش کو ان کی آمد کی خبر ملی ان کے نمائندے وہاں پہنچ گئے جہاں طفیل ٹھہرے ہوئے تھے، وہ لوگ حالات کی اس قدر بھیانک انداز میں منظر کشی کرتے تھے کہ سننے والا گھبرا جاتا تھا۔ کچھ ایسا ہی ان کے ساتھ بھی ہوا، آئیے! پورا واقعہ خود انہی کی زبان سے سنتے ہیں۔طفیل بن عمرو الدوسیؓ فرماتے ہیں :
’’جن دنوں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ میں تھے میں وہاں گیا، قریش کے کچھ لوگ میرے پاس آئے اور آکر کہنے لگے اے طفیل! آپ ہمارے شہر میں تشریف لائے ہیں اور یہ شخص (محمد صلی اللہ علیہ وسلم) جو آج ہمارے درمیان موجود ہے اس نے ہمارے لئے بڑی مشکلات پیدا کردی ہیں، ہماری جماعت کو منتشر کردیا ہے، ہمارا شیرازہ بکھیر دیا ہے، اس کی باتیں جادو جیسی ہیں، یہ شخص باپ بیٹے میں، بھائی بھائی میں، میاں بیوی میں پھوٹ ڈال دیتا ہے، ہمیں آپ کے متعلق بھی یہ ڈر ہے کہ کہیں وہ آپ پر بھی ڈورے نہ ڈالے، آپ اور آپ کی قوم اس کی وجہ سے کسی خطرے میں نہ پڑ جائے، اس لئے ہماری آپ سے درخواست ہے کہ آپ نہ اس سے کوئی بات کریں اور نہ اس کی کوئی بات سنیں۔‘‘
حضرت طفیل بن عَمرو کی بات آگے بڑھانے سے پہلے ہم یہ بتلادیں کہ وہ اپنے قبیلے کے سردار اور قوم کے معزز ترین آدمی تو تھے ہی،  ذاتی طور پر بھی بے حد عقل مند، سمجھ دار اور تعلیم یافتہ انسان تھے، بہت بڑے شاعر بھی تھے، مہمان نوازی اور شرافت ان کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی۔ اب آگے سنئے! فرماتے ہیں:
’’ قریش کے لوگوں نے مجھے اس قدر ڈرایا اور مجھ پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نہ ملنے اور آپؐ سے بات نہ کرنے پر اس قدر زور دیا کہ میں نے طے کرلیا کہ میں نہ ان کی کوئی بات سنوں گا اور نہ ان سے کوئی بات کروں گا۔ اگر کسی وقت میرا بیت اللہ کی طرف جانا بھی ہوتا تو میں اپنے دونوں کانوں میں روئی ٹھونس لیا کرتا تھا، مبادا ان کا کوئی لفظ میرے کان میں نہ پڑ جائے، اس ہیئت میں دیکھ کر لوگ مجھے ذوالقطنتین کہنے لگے تھے، (قُطْنَۃٌ روئی کے ٹکڑے کو کہتے ہیں، ذوالقطنتین کے معنی ہوئے روئی کے دو ٹکڑوں والے) ایک روز میں مسجد گیا، وہاں کعبۂ مشرفہ کے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے نماز پڑھ رہے تھے، میں آپؐ کے قریب جاکر کھڑا ہوگیا، حالاں کہ میں نہیں چاہتا تھا کہ آپؐ کی آواز میرے کانوں میں پڑے، مگر اللہ کو یہ منظور نہ تھا، وہ چاہتا تھا کہ میں آپؐ سے کچھ سن لوں، اس وقت جو کچھ میرے کان میں پڑا وہ مجھے اچھا لگا۔ میں نے دل میں سوچا، میں ایک پڑھا لکھا، سمجھ دار انسان ہوں، شاعر ہونے کے ناطے مجھے کلام کے حسن وقبح کی پر کھ بھی ہے، لاؤ کچھ سُن لیتا ہوں، اگر اچھا لگا تو قبول کروں گا، اور اچھا نہ لگا تو چھوڑ دوں گا، چنانچہ میں وہاں کھڑا ہوکر سننے لگا، میں نے دل میں کہا: یہ تو بہت اچھا کلام ہے۔
جب آپؐ نماز سے فارغ ہوکر واپس اپنے دولت کدے کی طرف چلے، میں بھی آپؐ کے پیچھے پیچھے چل دیا،آپؐ گھر کے اندر تشریف لے گئے، میں بھی اندر چلا گیا اور آپؐ سے عرض کیا: محمدؐ! آپؐ کی قوم نے تو آپؐ کے متعلق مجھ سے یہ کہا، وہ کہا، اور مجھے خوب ڈرایا، یہاں تک کہ میں نے اس خوف سے کہ کہیں کوئی بات آپؐ کی میرے کان میں نہ پڑ جائے میں نے اپنے کانوں میں روئی تک ٹھونس لی تھی، میں سننا نہیں چاہتا تھا مگر اللہ سنانا چاہتا تھا، اب جو آپؐ  کا کلام میں نے سنا تو مجھے بہت بھلا لگا، آپؐ بتلائیں آپؐ  کیا پیغام دیتے ہیں، آپؐ  کا دین کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ پر اسلام پیش کیا، اور کچھ قرآن بھی سنایا، خدا کی قسم! میں نے اس سے بہتر کلام کبھی نہیں سنا تھا اور نہ اس سے زیادہ معتدل دین کوئی دوسرا پایاتھا۔
میں نے اسی وقت کلمۂ شہادت پڑھا اور مسلمان ہوگیا، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا: یا نبی اللہ! میں اپنی قوم کا سردار ہوں اور لوگ میری اطاعت کرتے ہیں، میں واپس جاکر انہیں بھی اسلام کی دعوت دوں گا، آپ میرے لئے دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ مجھے کوئی ایسی نشانی عطا فرمادے جس سے مدد لے کر میں اپنی قوم کو اسلام کی دعوت دے سکوں، آپ نے دعا فرمائی: اللّٰہم اجعل لہ آیۃ۔ ’’اے اللہ اس کے لئے کوئی نشانی پیدا فرما۔‘‘ بہر حال میں مکہ مکرمہ سے واپس ہوا، ابھی میں ایک بلند پہاڑی پر تھا جس سے اتر کر مجھے اپنے قبیلے میں پہنچنا تھا۔ اچانک میری دونوں آنکھوں کے درمیان چراغ کی طرح ایک نور پیدا ہوگیا، میں نے دُعا کی: یا اللہ! اس نور کو یہاں سے کسی اور جگہ منتقل فرمادے، اصل میں مجھے یہ ڈر ہوا کہ کہیں لوگ اسے مُثْلَہْ نہ سمجھ بیٹھیں اور یہ نہ کہنے لگیں کے اپنا دین چھوڑ نے کی وجہ سے ایسا ہوا ہے (مثلہ چہرے وغیرہ کی اصل ہیئت میں تبدیلی کو کہتے ہیں)۔ اس دُعا کی برکت سے وہ نور میری لاٹھی کے سِرے میں منتقل ہوگیا، قبیلے کے لوگوں کو دور ہی سے میری لاٹھی میں معلق نور کی قندیل نظر آگئی، میں اس اونچی پہاڑی سے نیچے وادی میں اتر کر اپنے قبیلے میں پہنچا۔
قبیلے میں پہنچنے کے بعد سب سے پہلے میری ملاقات والد محترم سے ہوئی، وہ عمر رسیدہ انسان تھے، مجھے دیکھ کر فرط محبت سے میری طرف لپکے، میں نے ہاتھ کے اشارے سے انہیں اپنی طرف بڑھنے سے روکا اور کہا: آپ میرے قریب نہ آئیں، نہ میں آپ کا اور نہ آپ میرے، وہ تعجب سے پوچھنے لگا، کیوں بیٹا؟ میں نے کہا: میں مسلمان ہوگیا ہوں، اور میں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا دین قبول کرلیا ہے، میرے والد کہنے لگے: بیٹے! جو تیرا دین وہی اب میرا دین ہے، میں نے ان سے کہا: تب آپ جائیں غسل کرکے اور پاک صاف کپڑے پہن کر آئیں، وہ آئے، میں نے ان پر اسلام پیش کیا جسے انہوں نے قبول کرلیا اور مسلمان ہوگئے، آگے بڑھا تو سامنے سے بیوی آتی ہوئی نظر آئی۔ وہ بھی بے تاب ہوکر میری طرف بڑھ رہی تھی، میں نے اسے بھی روک دیا، اور کہا مجھ سے دور ہی رہنا، اب تو میری کچھ نہیں لگتی، وہ کہنے لگی: میرے ماں باپ تم پر قرباں ہوں، ایسا کیوں؟ میں نے کہا کہ میرے اور تیرے درمیان اسلام نے جدائی ڈال دی ہے، میں مسلمان ہوچکا ہوں اور میں نے دین محمد قبول کرلیا ہے، وہ بھی کہنے لگی: جو تمہارا دین ہے اب وہی میرا دین ہے، میں نے اس سے کہا تو پہلے حَناذِی الشرِّی (قبیلۂ دوس کے بت کا نام) کی پرستش سے توبہ کر اور پاک صاف ہوکر میرے پاس آ، وہ کہنے لگی کہ ذی الشری سے ہمارے بچوں کے لئے تو کوئی خطرہ نہیں ہے؟ میں نے کہا تو اس کی فکر نہ کر، بچوں کو کچھ نہ ہوگا، میں ہرطرح سے ذمہ دار ہوں۔
اس کے بعد میں نے اپنے قبیلے کے لوگوں پر اسلام پیش کیا، مگر انہوں نے سستی دکھلائی اور کچھ اعراض کیا، میں نے مکہ جاکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا: یا رسول اللہ! میرے قبیلے کے لوگ زنا میں زیادہ مبتلا ہیں، وہ میری بات نہیں سُن رہے ہیں، آپ ان پر بد دُعا کردیجئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھ اٹھا کر یہ دُعا فرمائی: اللّٰہم اہد دَوْسًا وائت بِہم۔ ’’اے اللہ! دوس کو ہدایت دے اور انہیں مسلمان بنا کر یہاں بھیج۔‘‘ پھر مجھ سے فرمایا: اپنی قوم کے پاس جاؤ، انہیں دعوت دو اور ان کے ساتھ نرمی کا معاملہ کرو، چنانچہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے مطابق انہیں برابر اسلام کی دعوت دیتا رہا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ تشریف لے گئے، بدر، احد اور خندق کے معرکے ہوئے، پھرمیں ستر یا اسّی گھرانوں کو لے کر مدینے آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوا، ہم نے خیبر میں آپؐ سے ملاقات کی، آپ نے مال غنیمت میں سے ہمارا حصہ بھی نکالا۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK