• Tue, 09 September, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

’’اے محمدؐ! آپ کا خطیب ہمارے خطیب سے بہتر اور آپ کا شاعر ہمارے شاعر سے زیادہ قادر الکلام ہے‘‘

Updated: January 26, 2024, 12:37 PM IST | Molana Nadimul Wajidi | Mumbai

سیرت النبیؐ کی اِس خصوصی سیریز میں گزشتہ ہفتے حضرت ابوبکرؓ کے امیر حج بننے، حضرت علی ؓ کے ذریعے آیات ِ برأت کی تلاوت اور ان آیات کا خلاصہ پیش کیا گیا تھا، آج کی قسط میں قبیلۂ بنوتمیم کے وفد کی آمد کا تفصیلی تذکرہ ملاحظہ کیجئے۔

A group of pilgrims from Madinah are sitting in the courtyard of the Prophet`s Mosque. Photo: INN
زائرین مدینہ کا ایک گروپ مسجد نبویؐ کے صحن میں بیٹھا ہوا ہے۔ تصویر : آئی این این

وفودِ عرب کی آمد
فتح مکہ کے بعد اسلام کا کارواں تیزی کے ساتھ آگے بڑھا، اب تک قبائل عرب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ قریش مکہ کی کش مکش میں کسی فیصلہ کن انجام کے منتظر تھے، فتح مکہ کے بعد قریش کے تمام سرکردہ افراد مشرف بہ اسلام ہوگئے، اس طرح پورے عرب میں یہ پیغام چلا گیا کہ اب یہ کارواں رکنے والا نہیں ہے، محمد اللہ کے رسولؐ ہیں اور وہ کفر و شرک کے ساتھ کوئی سمجھوتہ نہیں کرسکتے۔ رہی سہی کسر تبوک کی فتح سے پوری ہوگئی۔ تیس ہزار کی فوج نے رومیوں کے ایک لاکھ بہادروں کو اپنے بلوں میں گھسنے پر مجبور کردیا۔ دوسری طرف مدینہ منورہ میں ہوازن اور ثقیف کے وفود کی آمد اور ان کے قبول اسلام کے واقعے نے بھی قبائل ِعرب کو یہ سوچنے پر مجبور کردیا کہ انہیں بھی مدینہ جانا چاہئے اور اس نئے دین کو سمجھنا چاہئے، چنانچہ ان کے کچھ وفود سن نو ہجری میں اور کچھ دس ہجری میں یکے بعد دیگرے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان وفود کا اعزاز واکرام فرماتے، اسلام کی دعوت و تبلیغ کرتے اور ان کے سوالات کا خندہ پیشانی کے ساتھ جواب دیتے۔ اکثر وفود کے اراکین پہلے ہی مرحلے میں اسلام قبول کرکے سرخرو ہوتے، اس کے بعد ان کی تعلیم و تربیت کا سلسلہ شروع ہوتا، ان کو اسلامی عقائد سکھلائے جاتے، نماز وغیرہ کی تعلیم دی جاتی اور قرآن کریم پڑھایا جاتا۔ یہ لوگ اپنے اپنے قبیلوں میں واپس جاکر یہ اعلان کرتے کہ لوگو! ہم مسلمان ہوگئے ہیں ہم نے اسلام کا کلمہ پڑھ لیا ہے، تم بھی اسلام قبول کرلو، اس طرح بے شمار قبائل عرب اسلام میں داخل ہوگئے، اور قرآن کریم کی یہ پیش گوئی پوری طرح سچی ثابت ہوئی:
’’جب اللہ کی مدد اور فتح آئے اور لوگوں کو تم دیکھو کہ اللہ کے دین میں فوج درفوج داخل ہوتے ہیں اپنے رب کی ثنا کرتے ہوئے اس کی پاکی بیان کرو اور اس سے مغفرت چاہو، بے شک وہ بہت توبہ قبول فرمانے والا ہے۔ ‘‘ (سورہ النصر)
سیرت ابن ہشام میں ستر ایسے وفود کا تذکرہ ہے جو فتح مکہ سے پہلے اور بعد میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت مبارکہ میں حاضر ہوئے اور اسلام قبول کرکے واپس ہوئے، قبیلۂ بنو ثقیف کی حاضری کا واقعہ بیان کیا جاچکا ہے، اب کچھ اور قبائلی وفود کا ذکر کیا جاتا ہے۔ 
قبیلۂ بنو تمیم کا وفد
قبیلۂ بنو تمیم عرب کا ایک مشہور قبیلہ ہے، اس کی کئی شاخیں تھیں، اس قبیلے کے لوگ نجد کے علاوہ بصرہ اور یمامہ تک پھیلے ہوئے تھے، اس قبیلے کا وفد سن نو ہجری میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، اس وفد میں قبیلے کے بڑے بڑے سردار شامل تھے، ان کا رئیس اعظم اقرع بن حابس، ان کا خطیب عطارد، ان کا شاعر زبرقان بن بدر اور عیینہ بن حصین بھی آنے والوں میں شامل تھے۔ ان لوگوں نے مدینے میں داخل ہونے کے بعد سیدھے مسجد نبویؐ کا رخ کیا، آپؐ اس وقت حضرت عائشہؓ کے حجرے میں تشریف فرما تھے، انہوں نے آپؐ کے باہر تشریف لانے کا انتظار نہیں کیا، بلکہ کاشانۂ نبوت پر پہنچ کر آپؐ کو آوازیں دینے لگے کہ اے محمد! باہر آؤ، ہم اپنے خطیب اور شاعر ساتھ لے کر آئے ہیں۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی: ’’جو لوگ آپ کو حجروں کے باہر سے پکارتے ہیں، ان میں سے اکثر (آپ کے بلند مقام ومرتبے اور آداب تعظیم سے) واقف نہیں ہیں۔ ‘‘ (الحجرات: ۴) ان کی آوازیں سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کاشانۂ نبوت سے باہر تشریف لائے، اور مسجد میں اپنی مسند پر تشریف فرما ہوئے، وفد میں اسی نوے افراد تھے، وہ لوگ بھی بیٹھ گئے، صحابۂ کرامؓ بھی بڑی تعداد میں جمع ہوگئے۔ بنو تمیم کے سردار اقرع بن حابس نے کہا! اے محمد! ہمیں گفتگو شروع کرنے کی اجازت دیں، ہم لوگ وہ ہیں کہ جس کی مدح کردیں وہ مزین ہوجاتا ہے اور جس کی مذمت کردیں وہ عیب سے داغ دار ہوجاتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ تم غلط کہتے ہو، یہ صفت تو اللہ کی ہے کہ اس کی مدح زینت اور اس کی مذمت عیب بن جاتی ہے، تم اپنا مقصد بیان کرو۔ اقرع بن حابس نے کہا کہ ہم اپنے خطیب اور شاعر ساتھ لے کر آئے ہیں تاکہ ہم اپنے قابل فخر کارنامے بیان کریں، آپ بھی بتلائیں کہ آپ کے کیا کارنامے ہیں ؟ آپؐ نے ارشاد فرمایا کہ نہ میں شعر وشاعری کیلئے مبعوث کیا گیا ہوں اور نہ مجھے مفاخرت کا حکم دیا گیا ہے، اس کے باوجود میں تیار ہوں، کہو، کیا کہنا چاہتے ہو۔ 
یہ سنتے ہی اقرع بن حابس نے عطارد کی طرف اشارہ کیا، اس نے کھڑے ہوکر اپنے آباء و اجداد کے مناقب پر مشتمل ایک فصیح و بلیغ تقریر کی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ثابت بن قیس بن شماسؓ کو حکم دیا کہ وہ اس تقریر کا جواب دیں۔ انہوں نے برجستہ تقریر کی، جس میں انہوں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت پر اور آپؐ کے کارناموں پر اتنے مؤثر انداز میں روشنی ڈالی کہ وفد کے تمام اراکین دنگ رہ گئے۔ حضرت ثابتؓ کے انداز خطابت سے اقرع بن حابس بھی شرمند ہ ہوگیا۔ اس کے بعد اس نے اپنے شاعر زبرقان بن بدر سے کہا کہ وہ اٹھ کر اپنے اشعار پڑھے۔ اس نے ایک طویل قصیدہ پڑھ کر سنایا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حسان بن ثابتؓ سے فرمایا کہ وہ اس کا جواب دیں۔ انہوں نے بھی فصاحت وبلاغت سے بھرپور فی البدیہہ قصیدہ پڑھ کر سنایا، جسے سن کر نہ صرف یہ کہ شاعرِ بنو تمیم زبرقان کو پسینہ آگیا بلکہ تمام سامعین حیرت زدہ رہ گئے۔ بالآخر اقرع بن حابس کو کہنا پڑا ’’اے محمدؐ! آپ کا خطیب ہمارے خطیب سے بہترا ور آپ کا شاعر ہمارے شاعر سے زیادہ قادر الکلام ہے، اس لئے انصاف کا تقاضہ یہ ہے کہ ہم آپؐ کی سرداری کو تسلیم کریں۔ ‘‘ چنانچہ وفد کے تمام لوگ اسی وقت مسلمان ہوگئے۔ (البدایہ والنہایہ: ۵/۴۴، سیرت ابن ہشام: ۴/۴۳۵، ۴۳۸) 
حضرت ابوزرعہؓ روایت کرتے ہیں کہ صحابیٔ رسول حضرت ابوہریرہؓ فرماتے تھے کہ میں قبیلۂ بنو تمیم سے تین باتوں کی وجہ سے محبت رکھتا ہوں، اور یہ باتیں میں نے رسول اللہ ﷺسے سنی ہیں، ایک بات رسول اللہ ﷺنے قبیلۂ بنو تمیم کے متعلق یہ ارشاد فرمائی کہ وہ میری امت میں دجال پر سب سے زیادہ سخت رہیں گے۔ ایک مرتبہ ان کے صدقات آئے تو آپؐ نے فرمایا کہ یہ ہماری قوم کے صدقات ہیں، اس قبیلے کی ایک عورت حضرت عائشہؓ کے پاس تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اے عائشہؓ! تم اسے آزاد کردو، یہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اولاد میں سے ہے۔ (صحیح البخاری:۳/۱۴۸، رقم الحدیث: ۲۵۴۳، صحیح مسلم: ۴/۱۹۵۷، رقم الحدیث: ۲۵۲۵)
بنو تمیم کے وفد میں صَعْصَعہ بن ناجیہ بھی تھے، انہوں نے دین سیکھنے کے بعد عرض کیا، یارسول اللہ ﷺ ! اسلام لانے سے پہلے میں نے جو نیکیاں کی ہیں، کیا ان پر بھی مجھے اجر ملے گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم نے کیا عمل کیا ہے؟ صعصعہ نے عرض کیا: ایک مرتبہ میری دو اونٹنیاں گم ہوگئیں، وہ دونوں حمل سے تھیں، میں ایک اونٹ پر سوار ہوکر ان کی تلاش میں نکلا، صحراء میں ایک جگہ مجھے ایک مکان دکھائی دیا، اس کے باہر ایک بوڑھا شخص کھڑا ہوا تھا، میں نے اس شخص سے اپنی اونٹنیوں کے متعلق پوچھا اس نے کہا وہ ہمارے پاس ہیں اور انہوں نے بچے جَنْ دیئے ہیں، ابھی یہ گفتگو ہوہی رہی تھی کہ اندر سے کسی عورت کی آواز آئی کہ ولادت ہوگئی ہے، بوڑھے نے کہا اگر لڑکا ہے تو اسے زندہ رکھو، اور لڑکی ہے تو اسے دفن کردو، عورت نے کہا لڑکی ہوئی ہے، میں نے بڑے میاں سے پوچھا: یہ لڑکی کس کی ہے، اس نے کہا : میری ہے، میں نے اس سے کہا کہ کیا تم اسے میرے ہاتھ فروخت کرسکتے ہو، میں اپنی دونوں اونٹنیاں اور ان کے بچے اس لڑکی کے عوض تمہیں دینے کیلئے تیار ہوں، بوڑھے نے کہا: مجھے منظور ہے، مگر تمہیں ان اونٹنیوں کے ساتھ یہ اونٹ بھی دینا پڑے گا، میں نے کہا: ٹھیک ہے، میں یہ اونٹ بھی تمہیں دے دوں گا، مگر اس کیلئے تمہیں اپنا ایک آدمی میرے ساتھ بھیجنا ہوگا تاکہ وہ مجھے گھر چھوڑ کر یہ اونٹ واپس لا سکے، میں وہ بچی اپنے ساتھ لے کر گھر پہنچا، اور اپنی سواری کا اونٹ اپنے ساتھ آنے والے شخص کو دے دیا، اس دن میرے دل میں یہ خیال آیا کہ بچیوں کی جان بچانا بڑی نیکی ہے، اور یہ نیکی عربوں میں سے کسی نے آج تک نہیں کی، چنانچہ میں نے اس طرح کی نو مولود بچیوں کی جان بچانے کا عزم کرلیا، میں ہر بچی کے عوض دو حاملہ اونٹنیاں دیتا تھا، اس طرح میں نے تین سو ساٹھ بچیوں کی جان بچائی۔ یہ قصہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: یہ بھی نیکی کا ایک باب ہے، اس کا تمہیں اجر ملے گا، کیوں کہ اللہ نے تمہیں اسلام کی دولت عطا کردی ہے۔ (طبقات ابن سعد: ۷/۳۸)
قبیلہ بنو تمیم آج بھی موجود ہے، سعودی حکمراں بنی سعود، مشہور عالم عبد الوہاب نجدی، قطر کا شاہی خاندان اسی قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں۔ بنو تمیم کی بے شمار شاخیں ہیں جو سعودی عرب، اردن، عراق، متحدہ عرب امارات اور بحرین وغیرہ میں پھیلی ہوئی ہیں۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK