ہندوستان کے مسلم تعلیمی اداروں نےاین آئی آر ایف ۲۰۲۵ء کی درجہ بندی میں شاندار کامیابی حاصل کی ہے۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ٹاپ۱۰؍ میں جگہ بنانے کے ساتھ جامعہ ہمدرد ملک کا نمبر ون فارمیسی ادارہ قرار پایا۔
EPAPER
Updated: September 06, 2025, 3:25 PM IST | New Delhi
ہندوستان کے مسلم تعلیمی اداروں نےاین آئی آر ایف ۲۰۲۵ء کی درجہ بندی میں شاندار کامیابی حاصل کی ہے۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ٹاپ۱۰؍ میں جگہ بنانے کے ساتھ جامعہ ہمدرد ملک کا نمبر ون فارمیسی ادارہ قرار پایا۔
قومی ادارہ جاتی درجہ بندی فریم ورک (NIRF) کی تازہ ترین فہرست نے ہندوستان کی مسلم برادری کیلئے بے مثال فخر کا لمحہ پیدا کیا ہے۔ جمعرات کو مرکزی وزیر تعلیم دھرمیندر پردھان کی جانب سے جاری کردہ۲۰۲۵ء کی درجہ بندی میں جامعہ ملیہ اسلامیہ (JMI) اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (AMU) کو ہندوستان کی سرفہرست دس یونیورسٹیز میں شامل کیا گیا ہے، جبکہ جامعہ ہمدرد کو ملک کا نمبر ایک فارمیسی ادارہ قرار دیا گیا۔ اقلیتی تعلیمی اداروں کیلئے یہ اعزاز ظاہر کرتا ہے کہ طویل عرصے سے جاری امتیاز، حاشیہ برداری اور سیاسی مخالفت کے باوجود وہ اپنی صلاحیت منوا رہے ہیں۔
جامعہ ملیہ اسلامیہ کی کامیابی خاص طور پر قابل ذکر ہے کیونکہ اسے یونیورسٹی کے زمرے میں چوتھا مقام حاصل ہوا ہے۔ ایک ایسا ادارہ جو اکثر شک و شبہات، سیاسی حملوں اور حتیٰ کہ پولیس کارروائی کا نشانہ بنتا رہا ہے، اس کی یہ پوزیشن عشروں کی علمی محنت و لگن کا اعتراف ہے۔ جامعہ کے ایک سینئر پروفیسر، پروفیسر نفیس احمد نے کہا:’’ہمارے لئے یہ محض درجہ بندی نہیں ہے۔ یہ پیغام ہے کہ جامعہ مشکوک ادارہ نہیں بلکہ ہندوستانی تعلیم کا ایک ستون ہے۔ ‘‘
اسی کے ساتھ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی نے بھی سرفہرست دس میں جگہ بنائی اور دسویں مقام پر رہی۔ اے ایم یو، جو ملک کے قدیم اور تاریخی اداروں میں سے ایک ہے، نے صدیوں سے مسلم نوجوانوں کو تعلیم دے کر اسکالرز، منتظمین، وکلا اور رہنما پیدا کئے ہیں جنہوں نے ملک کے مستقبل کو سنوارا ہے۔ تنازعات اور اسے ’’علاحدہ‘‘ یا’’غیر قوم پرست‘‘ کہنے کی کوششوں کے باوجوداین آئی آر ایف کی فہرست میں اے ایم یو کی شمولیت اس کی قائم دائم علمی طاقت کو ثابت کرتی ہے۔ اے ایم یو کے سیاسیات کے پروفیسر ڈاکٹر خالد محمود نے کہا:’’ہماری یونیورسٹی ہمیشہ غلط وجوہات کی بنا پر خبروں میں رہتی ہے۔ لیکن یہ درجہ بندی ہمارے طلبہ کی صلاحیت، اساتذہ کی محنت اور ہماری موجودہ اہمیت کو ظاہر کرتی ہے۔ ‘‘
دوسری جانب جامعہ ہمدرد نے صحت اور فارماسیوٹیکل اسٹڈیز میں اپنی امتیازی ساکھ قائم رکھی ہے۔ اسے فارمیسی کے شعبے میں ملک میں پہلا مقام حاصل ہوا، اس نےبیٹس پِلانی اور پنجاب یونیورسٹی جیسے معتبر اداروں کو پیچھے چھوڑ دیا۔ جامعہ ہمدرد، جو ہمدرد ٹرسٹ کی وراثت پر قائم ہوا، کیلئے یہ اعزاز اس بات کی توثیق ہے کہ وہ روایتی علم کو جدید تحقیق کے ساتھ جوڑنے والا قائد ہے۔ جامعہ ہمدرد کے پروفیسر ڈاکٹر ارشد نے کہا: ’’ہم روایتی علم کو جدید سائنس کے ساتھ جوڑنے پر توجہ دیتے ہیں۔ فارمیسی میں نمبر ایک قرار پانا یہ ظاہر کرتا ہے کہ مسلم ادارے پیچھے نہیں ہیں بلکہ ہم اہم شعبوں میں قیادت کر رہے ہیں۔ ‘‘ایک ایسے وقت میں جب فارماسیوٹیکل تحقیق قومی صحت اور عالمی مقابلے کیلئے نہایت اہم ہے، جامعہ ہمدرد کی کامیابی مسلمانوں کے اس شعبے میں نمایاں کردار کو ظاہر کرتی ہے۔
یہ بھی پڑھئے:ناگپور میں او بی سی تنظیموں کامراٹھا ریزرویشن کے خلاف احتجاج
بتا دیں کہ این آئی آر ایف کی درجہ بندی کئی واضح پیمانوں پر مبنی ہے، جیسے تدریس اور سیکھنے کا معیار، تحقیق اور اختراع، فارغ التحصیل نتائج، وسعت اور بنیادی ڈھانچہ۔ وزارت تعلیم کی جانب سے تیار کردہ یہ فریم ورک ملک بھر کی جامعات اور کالجوں کا شفاف تجزیہ فراہم کرتا ہے۔ اگرچہ آئی آئی ٹیز اور انڈین انسٹی ٹیوٹ آف سائنس (IISc) اب بھی فہرستوں پر حاوی ہیں، لیکن جامعہ، اے ایم یو اور جامعہ ہمدرد کی کامیابی یہ ظاہر کرتی ہے کہ مسلم ادارے بہترین اداروں کے ساتھ مساوی سطح پر مقابلہ کر سکتے ہیں۔
یہ بھی پڑھئے: دہلی، کشمیر اور پنجاب میں بارش سے تباہی
۲۰۲۵ءکی کامیابیوں کو مسلمانوں کی تعلیمی جدوجہد کے بغیر نہیں سمجھا جا سکتا۔ ۱۸۵۷ءکی بغاوت کچلے جانے کے بعد مسلمانوں پر سخت دباؤ اور زوال آیا۔ ایسے ماحول میں سر سید احمد خان نے۱۸۷۵ء میں محمڈن اینگلو اورینٹل کالج کی بنیاد رکھی، جو بعد میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی بنی۔ ان کا وژن تھا کہ انگریزی تعلیم کو اسلامی شناخت کے ساتھ ملا کر کمیونٹی کو جدید بنایا جائے۔ اسی طرح جامعہ ملیہ اسلامیہ ۱۹۲۰ءمیں تحریک آزادی کے دوران وجود میں آئی، جو نوآبادیاتی مداخلت کو مسترد کرتی اور ثقافتی فخر پر مبنی تعلیم کو فروغ دیتی تھی۔ جامعہ ہمدرد، اگرچہ نسبتاً نیا ادارہ ہے، مگر ہمدرد ٹرسٹ کی روایت سے پروان چڑھا، جس نے یونانی طب کو جدید سائنس کے ساتھ ملانے کے عزم کو یونیورسٹی کی شکل دی۔ ان تمام اداروں میں ہندوستانی مسلمانوں کا عزم جھلکتا ہے کہ وہ تعلیم کے ذریعے بقا اور وقار کے ساتھ اپنی شناخت کو قائم رکھیں۔ اس کے باوجود آزادہندوستان میں مسلم ادارے اکثر شک و شبہات اور دشمنی کا شکار رہے ہیں۔ اے ایم یو اور جامعہ دونوں کو سیاسی بیانیے میں بدنام کیا گیا، علاحدگی پسندی سے جوڑا گیا اور احتجاج کے وقت نشانہ بنایا گیا۔ جامعہ میں سی اے اے مخالف مظاہروں کے دوران پولیس کارروائی آج بھی تازہ یاد ہے، جیسے کہ اے ایم یو کے کردار پر مسلسل سوال اٹھائے جاتے ہیں۔ اس سب کے باوجود ان کی علمی برتری برقرار رہی۔