Inquilab Logo

اے لوگو! اپنی جانوں پر رحم کھاؤ، تم کسی بہرے یا غائب کو نہیں پکار رہے ہو

Updated: January 28, 2023, 11:27 AM IST | Maulana Nadimulwajidi | MUMBAI

سیرتِ نبی ٔ کریم ؐ کی اس خصوصی سیریز میں غزوۂ خیبر کا تفصیلی ذکر جاری ہے۔ آج کی قسط میں خیبر کیلئے روانگی اور صحابہؓ کا جوش و خروش پڑھئے ۔ آپ ﷺ کا وہ ارشاد مبارک بھی ملاحظہ کیجئے جو آپؐ نے زور و شور سے نعرہ لگانے پر فرمایا تھا

After coming back from Peace of Hudaybiyah, he stayed in Madinah during Dhu al-Hijjah and early Muharram; Photo: INN
صلح حدیبیہ سے واپس تشریف لانے کے بعد ذی الحجہ اور اوائلِ محرم میں آپؐ کا قیام مدینہ منورہ میں رہا ; تصویر:آئی این این

:خیبر کے لئے روانگی
صلح حدیبیہ سے واپس تشریف لانے کے بعد ذی الحجہ اور اوائلِ محرم میں آپؐ کا قیام مدینہ منورہ میں رہا، اچانک حکم ہوا کہ خیبر پر حملہ کردیا جائے، دوسرا حکم یہ ہوا کہ اس مہم میں آپؐ کے ساتھ صرف وہی لوگ جائیں گے جو حدیبیہ میں آپ کے ہمراہ تھے، اس طرح منافقین کے جانے پر پابندی عائد کردی گئی، یہ لوگ حدیبیہ کے موقع پر آپ کے ساتھ نہیں گئے تھے، اس سلسلے میں قرآن کریم کی یہ آیت نازل ہوئی
 ’’مسلمانو! جب تم غنیمت کے مال لینے کے لئے چلوگے تو یہ (حدیبیہ کے سفر سے) پیچھے رہ جانے والے تم سے کہیں گے کہ ہمیں بھی اپنے ساتھ چلنے دو، وہ چاہیں گے کہ اللہ کی بات کو بدل دیں، تم کہہ دینا: کہ تم ہرگز ہمارے ساتھ نہیں چلوگے، اللہ نے پہلے سے یوں ہی فرما رکھا ہے، اس پر وہ کہیں گے کہ در اصل آپ لوگ ہم سے حسد رکھتے ہیں۔‘‘(الفتح: ۱۵) 
 مدینے میں یہ اعلان پہلے ہی کردیا گیا تھا کہ خیبر کی طرف جانے والے لشکر میں صرف وہ ہی لوگ شامل ہوں گے جو گزشتہ سفر میں شریک رہے ہیں۔ حدیبیہ میں جانے والے صحابۂ کرام کی تعداد ۱۴؍ سو تھی۔ یہی حضرات اس وقت بھی روانہ ہوئے۔ ان میں ۲۰۰؍ سوار تھے اور ۱۲۰۰؍ پیدل چل رہے تھے۔ وحی کے مطابق منافقین یہ درخواست لے کر حاضر خدمت ہوئے کہ انہیں بھی ساتھ لے لیا جائے مگر آپؐ نے ان کی درخواست قبول نہیں فرمائی۔ دراصل یہ لوگ مال غنیمت کے لالچ میں جانا چاہتے تھے۔ یہ خبر عام ہوچکی تھی کہ اس جنگ میں مسلمانوں کو فتح حاصل ہوگی، اور بہت سا مال غنیمت بھی ہاتھ آئے گا۔ ام المؤمنین حضرت ام سلمہؓ اس سفر میں حق رفاقت ادا کررہی تھیں، حدیبیہ میں بھی وہی شریک سفر تھیں، کچھ خواتین بھی میدان جنگ میں ضروری خدمات انجام دینے کے لئے ساتھ تھیں، آپ ﷺ نے حضرت  سِباع بن عَرفطہؓ کو مدینے میں اپنا قائم مقام مقرر فرمایا۔ (طبقات ابن سعد: ۲/۶۲)
خیبر کی تاریخ میں قدرے اختلاف ہے، حافظ ابن اسحاقـؒ کہتے ہیں کہ یہ غزوہ محرم ۷؍ہجری میں ہوا، واقدی کہتے ہیں، صفر یا ربیع الاول ۷؍ہجری میں ہوا، حافظ ابن سعد نے جمادی الاولی کہا ہے، حضرت امام زہریؒ اور امام مالکؒ فرماتے ہیں کہ محرم ۶؍ ہجری میں یہ غزوہ واقع ہوا۔ حافظ ابن حجر عسقلانیؒ نے حافظ ابن اسحاق کے قول کو ترجیح دی ہے۔ (سیرۃ ابن ہشام: کتاب المغازی: ۲/۶۳۴، طبقات ابن سعد: ۲/۶۲، تاریخ دمشق: ۱/۳۳، فتح الباری: ۱۲/۱۴)
بہر حال مسلمانوں کا یہ لشکر جو اگرچہ تعدادِ افراد  کے اعتبار سے مختصر تھا مگر جوشِ ایمانی اور جذبۂ روحانی کے لحاظ سے بڑے بڑے لشکروں کے مقابلے میں کہیں بڑھا ہوا تھا، خیبر کی طرف روانہ ہوا۔ انہیں معلوم تھا کہ خیبر میں بڑے بڑے قلعے ہیں جو انتہائی مضبوط اور مستحکم بھی ہیں اور ہرطرح محفوظ بھی، ان قلعوں میں ان کی فوج سے کئی گنا بڑی فوج رہتی ہے، ان سے مقابلہ کرنا آسان نہیں ہے، لیکن خدا اور اس کے رسولؐ  کا حکم تھا، جسے ہر حال میں بجا لانا تھا، اس لئے راستوں کی دوری اور منزلوں کی مشکلات ان کے سامنے سب کچھ ہیچ تھیں، صحابہ کے جوش وخروش کا یہ عالم تھا کہ وہ زور زور سے نعرۂ تکبیر بلند کررہے تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ وہ اپنے ساتھ نرمی کا معاملہ کریں اور اتنی زور سے نعرے نہ لگائیں۔  آپؐ نے فرمایا: اے لوگو! اپنی جانوں پر رحم کھاؤ، تم کسی بہرے یا غائب کو نہیں پکار رہے ہو، تم سننے والے کو اور قریب رہنے والی ذات کو آواز دے رہے ہو، وہ تمہارے ساتھ ہے، اور میں اس کے پیچھے ہوں۔ (صحیح البخاری: ۱۳/۱۰۵، رقم الحدیث: ۳۸۸۳، صحیح مسلم: ۱۳/۲۲، رقم الحدیث: ۴۸۷۳)
خیال رہے یہ سفر رات میں ہورہا تھا، جس میں سکون ہوتا ہے، اطمینان ہوتا ہے، ایسے میں ایک صحابی حضرت سلمہ ابن الاکوع رضی اللہ عنہ نے کچھ رجزیہ اشعار پڑھنے شروع کردیئے
اللہم لَوْ لا انت ما اہتدینا
ولا تصدقنا ولا صلینا
 فاغفر فداء لک ما ابقینا
وثبت الاقدام ان لا قینا
والقین سکینۃ علینا
إنا اذا صیح بنا ابینا
وبالصباح عولوا علینا
(صحیح البخاری: ۱۳/۹۷، رقم الحدیث: ۳۸۷۶) 
(ترجمہ) اے اللہ! اگرتیری رحمت نہ ہوتی تو ہمیں ہدایت نہ ملتی، نہ ہم صدقہ وزکوٰۃ دیتے اور نہ نماز پڑھتے، اے خدا! ہم تجھ پر فدا اور قربان جب تک ہم زندہ ہیں، جب ہم لڑائی کے محاذ پر ہوں تو ہمیں ثابت قدم رکھ، اور ہم پر سکینت اور اطمینان نازل فرما، جب وہ ناحق چیختے ہیں تو ہم ان کی بات سنتے نہیں ہیں، وہ چیخ چیخ کر ہم سے نجات حاصل کرتے ہیں۔
حضرت عامر بن الاکوعؓ کا قصہ
حضرت سلمہ بن الاکوع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ یہ اشعار سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا: یہ کون گارہا ہے، عرض کیا گیا: عامر ابن الاکوع، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ اس پر رحم کرے، ایک شخص (حضرت عمرؓ) یہ سن کر کہنے لگے، اب تو عامر کے لئے جنت واجب ہوگئی یارسولؐ اللہ! آپؐ ہمیں عامر سے اور فائدہ اٹھانے دیتے۔ اصل میں جہاد وغیرہ کے موقع پر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کسی کے متعلق اس طرح کے الفاظ استعمال فرماتے تو اس کا یہ مطلب ہوتا کہ یہ شخص اس جنگ میں شہید ہوجائے گا، حضرت عمرؓ کو یہ بات معلوم تھی اس لئے انہوں نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! آپؐ نے ان کو رحمت ومغفرت کی دعا دی، کاش یہ ابھی اور بقید حیات  رہتے اور ہمیں ان کی بہادری سے اور فائدہ اٹھانے کا موقع ملتا۔
راوی کہتے ہیں کہ جب قوم نے صف بندی کی تو حضرت عامر بن الاکوع رضی اللہ عنہ نے ایک یہودی کی پنڈلی پر تلوار مارنے کے لئے اٹھائی، تلوار چھوٹی تھی، پلٹ کر حضرت عامرؓ کے گھٹنے پر لگی جس کی وجہ سے ان کا انتقال ہوگیا۔ حضرت سلمہ بن الاکوع رضی اللہ عنہ ان کے بھائی ہیں، کہتے ہیں کہ جب ہم لوگ خیبر سے واپس آئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے افسردہ اور غم زدہ دیکھ کر دریافت فرمایا: کیا بات ہے؟ میں نے عرض کیا: میرے ماں باپ آپؐ پر قربان ہوں، لوگ کہہ رہے ہیں کہ عامر کی قربانی رائیگاںچلی گئی، وہ شہید نہیں ہوئے بلکہ انہوں نے خودکشی کی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے یہ بات کہی ہے غلط کہی ہے، عامر کو دُہرا اجر ملے گا، آپؐ نے دونوں انگلیوں کو جمع کرکے یہ بات فرمائی، پھر فرمایا: وہ تو کفار کے مقابلے میں مشقت اٹھانے والا ایک مجاہد آدمی تھا، کوئی عرب مدینے میں عامر جیسا پیدا نہیں ہوا۔ (صحیح البخاری: /۱۳/۹۷، رقم الحدیث: ۳۸۷۵)
مقام رجیع میں پڑاؤ
جیسا کہ عرض کیا گیا ، ۱۴۰۰؍ صحابہؓ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قیادت میں روانہ ہوئے، اس سفر کے لئے تین علَم تیار کئے گئے تھے، خاص علَم حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے ہاتھ میں تھا، دوسرا حضرت خُباب بن المنذرؓ کو، اور تیسرا سعد بن عبادہؓ کو دیا گیا تھا، خیبر اور غطفان کے درمیان میں ایک مقام آتا ہے رَجِیْع، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہاں پڑاؤ ڈالا۔ اس جگہ قیام کی وجہ یہ تھی کہ قبیلۂ غطفان کے متعلق یہ خبریں مل رہی تھیں کہ وہ خیبر والوں کی مدد کے لئے لشکر جمع کررہے ہیں، یہ قبیلہ یہودِ خیبر کاحلیف تھا، اگر مسلمان براہ راست خیبر پر حملہ کردیتے تو پیچھے سے غطفان کا لشکر آتا، اور مسلمانوں کو دو طرفہ محاذوں پر لڑنا پڑتا، غطفان کے لوگ اپنی آبادیوں سے نکل بھی آئے لیکن رات میں انہیں کچھ شور غل سنائی دیا، اس سے وہ لوگ یہ سمجھے کہ مسلمانوں نے ان کے قبیلے پر حملہ کردیا ہے، اہل غطفان وہیں سے اپنی آبادیوں کی طرف واپس چلے گئے اور وہیں رہ گئے، انہیں خیال ہوا کہ اگر ہم خیبر گئے تو مسلمان ہمارے قبیلے پر حملہ کردیں گے، یہ سوچ کر انہوں نے خیبر کے یہودیوں کی مدد کا ارادہ ترک کردیا۔ یہودیوں نے قبیلۂ غطفان کے بہادروں کی خدمات خیبر کی نصف پیداوار کے بدلے حاصل کی تھیں۔ (الکامل لابن الاثیر: ۲/۱۴۷) 
خیبر کے قریب
مسلمانوں کی فوج رجیع سے نکل کر خیبر کے قریب واقع وادئ صہباء میں پہنچی، وہاں عصر پڑھی، آپؐ نے نمازِ عصر کے بعد زاد راہ طلب فرمایا، صرف ستو موجود تھا وہ پیش کردیا گیا۔ آپؐ نے اور تمام صحابہؓ نے ستوپیا، مغرب کا وقت آگیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کلی کرکے نماز پڑھائی، وضو نہیں کیا، جب یہ قافلہ خیبر کے انتہائی نزدیک پہنچ گیا تو آپ نے صحابہ سے فرمایا: ٹھہرو، پھر آپ نے یہ دعا فرمائی
 اللّٰہم رب السموات وما اظللن، ورب الارضین وما اقللن، ورب الشیاطین وما اضللن، ورب الریاح وماذرین، فانا نسألک خیر ہذہ القریۃ وخیر اہلہا وخیر ما فیہا، ونعوذ بک من شرہا وشر أہلہا وشر ما فیہا۔ 
(ترجمہ) ’’اے اللہ! آسمانوں کے اور جن چیزوں پر وہ سایہ فگن ہیں ان کے رب، زمینوں کے اور جن کو وہ اٹھائے ہوئے ہیں ان کے رب، شیاطین اور جن کو وہ گمراہ کرتے ہیں ان کے رب، ہواؤں کے اور جن کو وہ بکھیر دیتی ہیں ان کے رب، ہم تجھ سے اس بستی کی بھلائی، اس کے رہنے والوں کی خیر خواہی اور جو کچھ اس بستی کے اندر ہے اس کی بہتری کے خواست گار ہیں، اور تجھ سے اس بستی کے شر سے اور اس کے رہنے والوں کے شر سے اور جو کچھ اس میں ہے اس کے شر سے تیری پناہ چاہتے ہیں۔‘‘اس دُعا کے بعد فرمایا اللہ کا نام لے کر آگے بڑھو۔ (دلائل النبوۃ للبیہقی: ۴/۲۸۰، رقم الحدیث: ۱۵۴۵)
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت شریفہ یہ تھی کہ جب آپ کسی بستی میں داخل ہوتے تو یہ مخصوص دُعا پڑھا کرتے تھے پھر اگر رات میں پہنچنا ہوتا تو حملے کے لئے صبح کا انتظار فرماتے، رات میں حملہ نہیں کرتے تھے، اسی طرح اگر کسی بستی سے فجر کی اذان سنائی دیتی تب بھی حملہ نہ فرماتے۔خیبر پہنچنے کے بعد آپؐ نے صبح کا انتظار فرمایا۔ ادھر خیبر کے لوگ جب صبح اپنے کام پر نکلے تو انہیں مسلمانوں کا لشکر دکھلائی دیا، وہ لوگ الٹے پاؤں اپنے قلعوں کی طرف یہ کہتے ہوئے بھاگے ’’محمد والخمیس‘‘  محمد اپنے لاؤلشکر سمیت آگئے۔ یہ عربی زبان کا ایک محاورہ ہے۔ عربی میں الخمیس لشکر کو کہتے ہیں، کیوں کہ لشکر پانچ حصوں میں تقسیم ہوتا ہے، (۱) مقدمہ (۲) میمنہ (۳)میسرہ (۴) قلب (۵) ساقہ، یہودی حالاں کہ تعداد میں مسلمانوں سے کہیں زیادہ تھے، جیسا کہ لکھا گیا ہے کہ ان کے پاس بیس ہزار افراد پر مشتمل زبردست فوج تھی، ظاہر ہے اس اعتبار سے اسلحہ بھی بہت رہا ہوگا، پھر ان کے مضبوط اور کشادہ قلعے بھی تھے، اس کے باوجود مسلمانوں کو دیکھ کر وہ لوگ اس قدر خوف زدہ ہوئے کہ اپنے قلعوں میں گھس گئے اور ان کے آہنی دروازے اندر سے بند کرلئے، اس موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللّٰہ اکبر، خربت خیبر، إنا اذا نزلنا بساحۃ قوم فساء صباح المنذرین۔ ’’اللہ بہت بڑا ہے، خیبر تو برباد ہوگیا، ہم جب کسی صحن میں اتریں گے تو جن لوگوں کو خبردار کیا جاچکا ہے ان کی وہ صبح بہت بری صبح ہوگی۔ (البدایہ والنہایہ: ۴/۳۰۹)

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK