Inquilab Logo Happiest Places to Work

ہائے وہ اینکر جن پر ’اِنڈیا‘ کا ’عتاب‘ نازل ہوا

Updated: September 17, 2023, 1:30 PM IST | Aakar Patel | Mumbai

ابھی یہ بحث جاری ہی ہے کہ اپوزیشن کے اتحاد نے چودہ اینکروں کے شوز میں شریک نہ ہونے کا جو فیصلہ کیا وہ کتنا صحیح اور کتنا غلط ہے مگر عوام کو یہ فیصلہ منظور ہے کیونکہ اُنہیں اِن اینکروں کی کارگزاریوں کا بخوبی علم ہے۔

Protest against fake news.Photo:INN
جھوٹی خبروں کے خلاف احتجاج۔ تصویر: آئی این این

انڈیا کہلانے والے اپوزیشن کے اتحاد نے ۱۴؍ اینکروں  کی فہرست جاری کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ اُن کے ترجمان ان اینکروں  کی شوز میں  شریک نہیں  ہوں  گے۔ فہرست جاری کرتے وقت اس کی وجہ نہیں بتائی گئی کہ ایساکیوں  کیا گیا ہے مگر کئی اپوزیشن لیڈر کہہ چکے ہیں  کہ یہ ’’بی جے پی کے میڈیا سیل کا وہاٹس ایپ گروپ ہے۔‘‘ 
 اس بائیکاٹ کے خلاف جو دلائل پیش کئے جارہے ہیں  وہ کئی ہیں ، مثلاً ذرائع ابلاغ کی آزادی اور ایمرجنسی وغیرہ مگر ہم اس کی تفصیل میں  جانے کے بجائے اپنے قارئین کو چند شواہد کی بنیاد پر یہ بتانا چاہتے ہیں  کہ کچھ اینکر ٹی وی اسٹیشنوں  پر بیٹھ کر حکومت کے توسیعی دفتر کے طور پر کام کرتے ہیں :
 ۱۹؍ جون ۲۰۲۰ء کو این ڈی ٹی وی کے صحافی اروند گناسیکر نے حکومت کی جانب سے صحافیوں  کو دی گئی ایک تحریر بطور ٹویٹ ارسال کی۔ ایسی تحریر (نوٹ) میں  یہ ’’مشورہ‘‘ ہوتا ہے کہ صحافی حضرات کن خطوط پر اپنی رپورٹیں  تیار کریں ۔ اس مشورہ کو ’’ٹاکنگ پوائنٹ‘‘ کہا جاتا ہے۔جو تحریر اروند گناسیکر نے ٹویٹ کی تھی وہ اُس میٹنگ سے متعلق تھی جس میں  وزیر اعظم مودی نے دعویٰ کیا تھا کہ چین نے ہماری سرزمین میں  دراندازی کی ہی نہیں  ہے۔ 
 صحافیوں  کو دیئے گئے مشورے (ٹاکنگ پوائنٹ) میں  درج ذیل نکات پر توجہ مرکوز کرنے کیلئے کہا گیا تھا: (۱) پورا ملک وزیر اعظم کے پیچھے کھڑا ہے، چین کے معاملے میں  اُن کے ساتھ ہے (۲) زیادہ تر لیڈران اپنا اعتماد ظاہر کریں  کہ مودی حکومت نے صورت حال کا بحسن و خوبی سامنا کیا ہے اور (۳) کانگریس کے ذریعہ عوام کو گمراہ کرنے کی جو کوشش تھی اُسے نوین پٹنائک، کے سی آر اور سکم کرانتی مورچہ نے بے اثر کردیا۔
 چینلوں  نے اس مشورے کو صدق دل سے قبول کیا چنانچہ چند ہی گھنٹوں  بعد ٹائمس ناؤ کی سرخی تھی: ’’پورا ملک متحد ہے مگر سونیا گاندھی چین کو کچھ نہیں  کہیں  گی۔‘‘ ۱۹؍ جون کو ری پبلک ٹی وی کے اہم مباحث کی سرخیاں  اس طرح تھیں ، پہلی سرخی: حقائق سے ناآشنا کانگریس فوج کی تحقیر کی مرتکب۔ دوسری سرخی: کیا کانگریس اور چین میں  کوئی خاص رشتہ ہے؟ تیسری سرخی: عوام کی چین تک رسائی میں  بڑی سہولت (یہ باقاعدہ ترجمہ نہیں  بلکہ مفہوم ہے)۔
 اپنی کتاب ’’مودی کے دور اقتدار کی قیمت‘‘ (پرائز آف دی مودی ایئرس) کیلئے، جو اسی دوبارہ منظر عام پر ہوگی، مَیں  نے دو بڑے انگریزی چینلوں  کا خاص طور پر جائزہ لیا تاکہ یہ سمجھ سکوں  کہ چین کی دراندازی کے وقت اور لاک ڈاؤن کی وجہ سے معیشت کا حجم سکڑنے کے دور میں  اِن چینلوں  نے شام کے مباحثہ کیلئے کون سے  موضوعات کا انتخاب کیا تھا۔ جائزہ کے دوران معلوم ہوا کہ مئی، جون اور جولائی میں  ٹائمس ناؤ نے ۳۳؍ بڑے مباحثوں  میں  اپوزیشن کی کارگزاریوں  پر تنقید ہوئی۔ مباحثہ میں  مودی حکومت کو ہدف نہیں  بنایا گیا۔ معاشی بدحالی پر ایک بھی مباحثہ نہیں  ہوا۔ 
 مذکورہ بالا تین مہینوں  میں  ری پبلک ٹی وی نے ۴۷؍ بڑے مباحثے کرائے۔ ان تمام میں  اپوزیشن کی کارگزاریوں  پر سخت تنقید کی گئی۔ کسی ایک مباحثے میں  بھی مودی حکومت کو چین کے معاملے میں  یا معاشی بدحالی کے معاملے میں  ہدف نہیں  بنایا گیا۔
 اس دوران ۷؍ جون سے ۲۷؍ جون تک کا وقت ایسا تھا جس میں  پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں  میں  روزانہ اضافہ کیا جارہا تھا اور اضافے کا یہ سلسلہ ۲۱؍ دن تک قائم تھا۔
 ۱۶؍ جولائی کو یہ اعلان ہوا کہ ہندوستان نے اپنے ۲۰؍ فوجیوں  کو گنوا دیا ہے جو لداخ میں  چینی دراندازی کا مقابلہ کرتے ہوئے فوت ہوگئے۔ اسی دوران کووڈ بُری طرح پھیل رہا تھا۔ یکم مئی کو متاثرین کی تعداد ۲۳۰۰؍ تھی جو ۳۱؍ جولائی کو ۵۷؍ ہزار تک پہنچ گئی تھی مگر ٹی وی کے مباحثوں  کا عنوان یا موضوع کچھ اور ہی تھا۔
 اس کے چند روز بعد ’’دی انڈین جرنلزم رویو‘‘ نے ایک اور تحریر (نوٹ، مشورہ) شائع کیا جو دفتر ِ وزارت عظمیٰ نے چینلوں  کیلئے جاری کیا تھا۔ اس میں  درج تھا: ’’مودی کا اثر واضح اور بلند آہنگ، توسیع پسند چین کو قابو میں  کرنا غیر معمولی چیلنج ہے مگر صحیح وقت پر اپنائی جانے والی صحیح حکمت عملی سے غیر معمولی نتائج برآمد کئے جاسکتے ہیں ۔ چین کی فوج پیچھے نہیں  ہٹی اُسے دھکیل کر پیچھے کیا گیا، یہ کارنامہ انجام دیا ایک ایسے متحدہ ملک نے جس کے قائد نے جرأت کا مظاہرہ کیا۔‘‘ اس میں  یہ بھی درج تھا: ’’فیصلہ کن فوجی، معاشی اور تکنیکی اقدامات کے ذریعہ وزیر اعظم مودی نے چین کو پیچھے دھکیل دیا۔‘‘ اور یہ بھی کہ ’’چین کی معاشی بالادستی کا فلسفہ دھرا کا دھرا رہ گیا جب وزیر اعظم نے آتم نربھر بھارت کا جادو جگایا۔‘‘ (یہ باقاعدہ ترجمہ نہیں  بلکہ مفہوم ہے)۔ اس تحریر کے پیش نظر آئیے دیکھیں  کہ کس چینل نے کس عنوان کے تحت مباحثے منعقد کئے: 
 ٹائمس ناؤ: (۱) پی ایم مودی نے توسیع پسند چین کو سبق سکھایا، شک کرنے والوں  کو شرمندہ کیا؟ (۲) چین کا اعتراف کہ اسے پیچھے دھکیلا گیا، کیا اب بھی فوج پر شبہ کرنے والے ہتھیار نہیں ڈالیں  گے؟ (۳) چین کا اعتراف کہ وہ پیچھے ہٹ گیا ہے مگر (ملک میں موجود) چینی لابی اب بھی جھوٹ بول رہی ہے؟ 
مذکورہ تحریر، نوٹ یا مشورہ کے پیش نظر ری پبلک ٹی وی کے مباحث کی سرخیاں  کچھ اس طرح تھیں : (۱) وزیر اعظم نے قیادت کا حق ادا کردیا (۲) پی ایم مودی کی مضبوط قیادت نے چین کو دھکیل دیا (۳) لداخ کی حقیقت: گلوان کی فتح چینی لابی کے منہ پر طمانچہ۔ 
 ان چند سرخیوں کے ذریعہ آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ کس طرح حکومت کی جانب سے چینلوں  کو باقاعدہ سجھایا جاتا ہے کہ اُنہیں  کن موضوعات پر بات چیت کرنی ہے اور کن سرخیوں یا عنوانات پر پروگرام کرنا ہے۔اس کے علاوہ بھی ایسے مطالعات ہیں  جن میں  حقائق اور دلائل کے ساتھ بتایا گیا ہے کہ کس طرح یہ ٹی وی چینل عوام کے سنگین مسائل کو نظر انداز کرتے ہوئے وہی کہہ رہے تھے جو حکومت اُن سے کہلوانا چاہتی تھی۔ چینلوں  نے اپوزیشن کو ہدف بنایا اور اُن لوگوں  کو بھی جن کا نظریہ حکومت کے نظریہ سے مختلف ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK