Inquilab Logo

ادبی تفہیم کے پرانے زاویے جدید ذہن کی تشفی کیلئے ناکافی ہیں

Updated: May 24, 2020, 11:27 AM IST | Salman Siddiqui

اردو ادب کو روبہ زوال سمجھنا ایک نعرے کی شکل اختیار کر گیا ہے۔ اس نعرے کے جواز اور بوسیدگی سے قطع نظر اس کی افادیت کا یہ پہلو توجہ طلب ہے کہ اس سے معاشرے میں ادب کو غیر اہم سمجھنے کے رویے کی حوصلہ شکنی کے ساتھ ساتھ اس کی سماجی اہمیت کو اجاگر کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ ادب کو زوال آمادہ سمجھنا ایک ایسا نتیجہ ہے جسے بغیر چھانے پھٹکے اخذ کیا گیا ہے۔ ادب زندگی کا عکس ہے۔ اگر یہ مان لیا جائے کہ ادب روبہ زوال ہے تو یہ بھی ماننا پڑے گا کہ زندگی روبہ زوال ہے۔ مگر ظاہر ہے کہ بحیثیت فرد اور زندہ قوم ایسا سمجھنا نہ صرف زندگی سے ہماری خوش گمانی کو مجروح کرے گا بلکہ اردو ادب کے ڈھانچے کو، جو ابھی اپنے سنِ بلوغت سے گزر رہا ہے، ناقابل تلافی نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔ زبانوں، ان کے ادب اور تہذیبوں کے استحکام اور حقیقی ارتقاء کیلئے بعض اوقات صدیاں بھی ناکافی ہوتی ہیں۔ لگتا تو ہے کہ جیسے ادب روبہ زوال ہے مگر ’’ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ‘‘ کے مصداق بہ غور جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ ادب روبہ زوال نہیں ہے بلکہ ہمارے ادبی معاشرے کا وہ ڈھانچہ روبہ زوال ہے جو ایک منجمد اور فرسودہ فکری ساخت کی حد درجہ پاسداری کی وجہ سے اپنی کشش کھو چکا ہے۔ ہم ادب کی ظاہری دلچسپی سے حظ اٹھانے کو اپنے ذوق کی تسکین کے لئے کافی سمجھتے ہیں مگر اس کی فکری ساخت، اس کی ہیئت کی تبدیلی، بدلتے عہد کے تناظر میں اس کی ساخت کی نو تعمیریت کے مباحث میں الجھنا اور اپنی تخلیقی قوت سے ادب کیلئے نئے فکری زوایے تلاش کرنا وقت کا زیاں سمجھتے ہیں اور نتیجتاً ایسی صورت حال پیدا ہو جاتی ہے کہ ہم اپنے ادب کو زوال پزیر سمجھنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ واضح رہے کہ ادبی تفہیم کے پرانے زاویے جدید ذہن کی تشفی کیلئے ناکافی ہیں۔ نئے ذہنوں سے ہم آہنگی کیلئے نئے تخلیقی زاویے پید ا ہونا ضروری ہیں۔ ایک تبدیل شدہ فکری، جذباتی اور زیادہ عملی تخلیقی تحریر نئے عہد کے مستقبل پرست ذہنوں کیلئے زیادہ قابل قبول ادبی ماحول پیدا کر سکتی ہے۔ اب یہ مان لیا جانا چاہئے کہ تبدیلی کا عمل جاری ہوکر تیز تر ہو گیا ہے۔ زندگی کی سطح پر بھی اور اس کا عکس پیش کرنے والے ادب کی سطح پر بھی۔ الفاظ کے ذریعہ جذبہ و خیال کی ترسیل میں بھی زمانوں کی تبدیلی کے ساتھ ردوبدل جاری ہے۔ چند سال پہلے تک لفظ موبائل مجرموں کا تعاقب کرنے والی پولیس کی گاڑی کے لئے مخصوص تھا مگر اب یہ لفظ سن کر پہلے دستی ٹیلی فون کا خیال ذہن میں آتا ہے۔ غور کرنے سے بہت سے ایسے الفاظ اور بھی مل سکتے ہیں جن کی معنویت حال ہی میں تبدیل ہوئی ہے۔ ثابت ہوا کہ ہمیں ادبی اظہاریوں میں تبدیلی کی بنیاد بننے والی سماجی اور مادی تبدیلیوں پر بھی گہری نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ اردو ادب کا فکری ڈھانچہ فنی پرکاری، تخلیقی تشکیلات اور نفسیاتی رجحانات ابھی سو سال قبل کے سانچے سے پوری طرح باہر نکل کر نئے چیلنجوں سے نبرد آزما نہیں ہوسکے ہیں۔ ہماری نثر اور ہماری تنقید ابھی تک نئے رجحانات کو قبول کرنے میں شش و پنچ کا شکار ہے۔ اس کے اسباب کا تعین کرنے کیلئے بہت سے عوامل پر بحث کی گنجائش نکل آئے گی مگر اس میں بنیادی عامل تعلیم کی کمی، مطالعے کا فقدان اور ادب کی بطور مضمون اہمیت سے لاتعلقی ہے۔ سائنس اور ٹیکنالوجی سے متعلق علوم یقینی طور پر بہت اہم ہیں، یہ ہمیں سکھاتے ہیں کہ بنی نوع انسان کیلئے زندگی کس طرح آسان بنائی جاسکتی ہے مگر ادب ہمیں یہ بتاتا ہے کہ بنی نوع انسان کیلئے زندگی کیوں آسان بنانی چاہئے۔ اس انتہائی اہم جانکاری کیلئے ادب کے مضمون کا انتہائی اعلیٰ درجے کے تعلیمی کورس میں لازمی مضمون کے طور پر شامل کیا جانا اس خلاء کو پُر کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔ جس طرح ہمارے بہت سے مذہبی عالم جدید دور کے علمی فلسفہ سے پوری طرح آگاہ نہیں ہیں اسی طرح ہمارے اکثر ادیب و شاعر بھی ادبی سطح پر فکری تغیرات، تازہ حسی ّتجربات اور نووارد رویوں کے بنیادی اسباب سے اسی طرح لاعلم ہیں۔ ہم ادب کے پلیٹ فارم سے اپنی تخلیقی اپروچ کو سماجی، معاشرتی اور بدلتے انسانی رویوں سے ہم آہنگ کرکے اس طرح سے دیکھنے، سمجھنے اور ادبی اظہاریوں میں منعکس کرنے میں کامیاب نہیں رہے جس کا یہ بدلتا ہوا عہد متقاضی ہے۔ اردو ادب اور اس سے منسلک تہذیب روبہ زوال نہیں بلکہ عہد بدل رہا ہے، اظہار اور تفہیم کی اقدار بدل رہی ہیں، تبدیلی کی اس رفتار کو محسوس کرنے اور اردو کی ادبی سماجیات کو اس سے ہم آہنگ کرنے کی ضرورت ہے۔ ادب کی موت کا اعلان کرنے والے آج ہم میں نہیں ہیں۔ ہم بھی ایک دن زندگی سے منہا ہو جائیں گے مگر یہ بات یقینی ہے کہ ادب پھر بھی زندہ رہے گا۔ کسی بھی شکل میں، کسی نئے جمالیاتی اور حسِی فلسفے کے ساتھ اور یہ بات بھی یقینی ہے کہ اردو ادب کی سماجیات میں تبدیلی اس کی تہذیب کی مثبت تبدیلی کے تناظر میں ہوگی اور طاقتور قلم اس تبدیلی کو قابلِ رشک رُخ دینے میں اپنا کردار ادا کریں گے۔ آنے والے جدید تر عہد میں ناگزیر تبدیلی صرف محسوس کرنے کی چیز نہیں ہوگی بلکہ اپنی زندگی کو اس کے مطابق یا اسے اپنی زندگی کے مطابق ڈھالنا مجبوری ہوگی اور یہی اس شروع ہو چکے عہد کی تہذیبی اور فکری جنگ کا سب سے شدید پہلو ہے اور ادب کا پلیٹ فارم اس جنگ کا ہراول دستہ ہے۔ زبان و ادب کو تہذیب اور ثقافت کے فروغ میں معاون سمجھنے والے تازہ ذہنوں اور نسل نو کے منتخب ادیبوں اور دانشوروں پر، اس صورت حال سے آگاہ رہنے اور اپنی زبان و تہذیب کی پاسداری کیلئے طاقتور حفاظتی اقدامات کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔

Books - Pic : INN
کتابیں ۔ تصویر : آئی این این

اردو ادب کو روبہ زوال سمجھنا ایک نعرے کی شکل اختیار کر گیا ہے۔ اس نعرے کے جواز اور بوسیدگی سے قطع نظر اس کی افادیت کا یہ پہلو توجہ طلب ہے کہ اس سے معاشرے میں ادب کو غیر اہم سمجھنے کے رویے کی حوصلہ شکنی کے ساتھ ساتھ اس کی سماجی اہمیت کو اجاگر کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ ادب کو زوال آمادہ سمجھنا ایک ایسا نتیجہ ہے جسے بغیر چھانے پھٹکے اخذ کیا گیا ہے۔ ادب زندگی کا عکس ہے۔ اگر یہ مان لیا جائے کہ ادب روبہ زوال ہے تو یہ بھی ماننا پڑے گا کہ زندگی روبہ زوال ہے۔ مگر ظاہر ہے کہ بحیثیت فرد اور زندہ قوم ایسا سمجھنا نہ صرف زندگی سے ہماری خوش گمانی کو مجروح کرے گا بلکہ اردو ادب کے ڈھانچے کو، جو ابھی اپنے سنِ بلوغت سے گزر رہا ہے، ناقابل تلافی نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔ زبانوں، ان کے ادب اور تہذیبوں کے استحکام اور حقیقی ارتقاء کیلئے بعض اوقات صدیاں بھی ناکافی ہوتی ہیں۔ لگتا تو ہے کہ جیسے ادب روبہ زوال ہے مگر ’’ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ‘‘  کے مصداق بہ غور جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ ادب روبہ زوال نہیں ہے بلکہ ہمارے ادبی معاشرے کا وہ ڈھانچہ روبہ زوال ہے جو ایک منجمد اور فرسودہ فکری ساخت کی حد درجہ پاسداری کی وجہ سے اپنی کشش کھو چکا ہے۔ ہم ادب کی ظاہری دلچسپی سے حظ اٹھانے کو اپنے ذوق کی تسکین کے لئے کافی سمجھتے ہیں مگر اس کی فکری ساخت، اس کی ہیئت کی تبدیلی، بدلتے عہد کے تناظر میں اس کی ساخت کی نو تعمیریت کے مباحث میں الجھنا اور اپنی تخلیقی قوت سے ادب کیلئے نئے فکری زوایے تلاش کرنا وقت کا زیاں سمجھتے ہیں اور نتیجتاً ایسی صورت حال پیدا ہو جاتی ہے کہ ہم اپنے ادب کو زوال پزیر سمجھنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ واضح رہے کہ ادبی تفہیم کے پرانے زاویے جدید ذہن کی تشفی کیلئے ناکافی ہیں۔ نئے ذہنوں سے ہم آہنگی کیلئے نئے تخلیقی زاویے پید ا ہونا ضروری ہیں۔ ایک تبدیل شدہ فکری، جذباتی اور زیادہ عملی تخلیقی تحریر نئے عہد کے مستقبل پرست ذہنوں کیلئے زیادہ قابل قبول ادبی ماحول پیدا کر سکتی ہے۔ اب یہ مان لیا جانا چاہئے کہ تبدیلی کا عمل جاری ہوکر تیز تر ہو گیا ہے۔ زندگی کی سطح پر بھی اور اس کا عکس پیش کرنے والے ادب کی سطح پر بھی۔ الفاظ کے ذریعہ جذبہ و خیال کی ترسیل میں بھی زمانوں کی تبدیلی  کے ساتھ ردوبدل جاری ہے۔
چند سال پہلے تک لفظ موبائل مجرموں کا تعاقب کرنے والی پولیس کی گاڑی کے لئے مخصوص تھا مگر اب یہ لفظ سن کر پہلے دستی ٹیلی فون کا خیال ذہن میں آتا ہے۔ غور کرنے سے بہت سے ایسے الفاظ اور بھی مل سکتے ہیں جن کی معنویت حال ہی میں تبدیل ہوئی ہے۔ ثابت ہوا کہ ہمیں ادبی اظہاریوں میں تبدیلی کی بنیاد بننے والی سماجی اور مادی تبدیلیوں پر بھی گہری نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔
اردو ادب کا فکری ڈھانچہ فنی پرکاری، تخلیقی تشکیلات اور نفسیاتی رجحانات ابھی سو سال قبل کے سانچے سے پوری طرح باہر نکل کر نئے چیلنجوں سے نبرد آزما نہیں ہوسکے ہیں۔ ہماری نثر اور  ہماری تنقید ابھی تک نئے رجحانات کو قبول کرنے میں شش و پنچ کا شکار ہے۔ اس کے اسباب کا تعین کرنے کیلئے بہت سے عوامل پر بحث کی گنجائش نکل آئے گی مگر اس میں بنیادی عامل تعلیم کی کمی، مطالعے کا فقدان اور ادب کی بطور مضمون اہمیت سے لاتعلقی ہے۔ سائنس اور ٹیکنالوجی سے متعلق علوم یقینی طور پر بہت اہم ہیں، یہ ہمیں سکھاتے ہیں کہ بنی نوع انسان کیلئے زندگی کس طرح آسان بنائی جاسکتی ہے مگر ادب ہمیں یہ بتاتا ہے کہ بنی نوع انسان کیلئے زندگی کیوں آسان بنانی چاہئے۔ اس انتہائی اہم جانکاری کیلئے ادب کے مضمون کا انتہائی اعلیٰ درجے کے تعلیمی کورس میں لازمی مضمون کے طور پر شامل کیا جانا اس خلاء کو پُر کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔ جس طرح ہمارے بہت سے مذہبی عالم جدید دور کے علمی فلسفہ سے پوری طرح آگاہ نہیں ہیں اسی طرح ہمارے اکثر ادیب و شاعر بھی ادبی سطح پر فکری تغیرات، تازہ حسی ّتجربات اور نووارد رویوں کے بنیادی اسباب سے اسی طرح لاعلم ہیں۔ ہم ادب کے پلیٹ فارم سے اپنی تخلیقی اپروچ کو سماجی، معاشرتی اور بدلتے انسانی رویوں سے ہم آہنگ کرکے اس طرح سے دیکھنے، سمجھنے اور ادبی اظہاریوں میں منعکس کرنے میں کامیاب نہیں رہے جس کا یہ بدلتا ہوا عہد متقاضی ہے۔ اردو ادب اور اس سے منسلک تہذیب روبہ زوال نہیں بلکہ عہد بدل رہا ہے، اظہار اور تفہیم کی اقدار بدل رہی ہیں، تبدیلی کی اس رفتار کو محسوس کرنے اور اردو کی ادبی سماجیات کو اس سے ہم آہنگ کرنے کی ضرورت ہے۔ ادب کی موت کا اعلان کرنے والے آج ہم میں نہیں ہیں۔ ہم بھی ایک دن زندگی سے منہا ہو جائیں گے مگر یہ بات یقینی ہے کہ ادب پھر بھی زندہ رہے گا۔ کسی بھی شکل میں، کسی نئے جمالیاتی اور حسِی فلسفے کے ساتھ اور یہ بات بھی یقینی ہے کہ اردو ادب کی سماجیات میں تبدیلی اس کی تہذیب کی مثبت تبدیلی کے تناظر میں ہوگی اور طاقتور قلم اس تبدیلی کو قابلِ رشک رُخ دینے میں اپنا کردار ادا کریں گے۔
آنے والے جدید تر عہد میں ناگزیر تبدیلی صرف محسوس کرنے کی چیز نہیں ہوگی بلکہ اپنی زندگی کو اس کے مطابق یا اسے اپنی زندگی کے مطابق ڈھالنا مجبوری ہوگی اور یہی اس شروع ہو چکے عہد کی تہذیبی اور فکری جنگ کا سب سے شدید پہلو  ہے اور ادب کا پلیٹ فارم اس جنگ کا ہراول دستہ ہے۔   زبان و ادب کو تہذیب اور ثقافت کے فروغ میں معاون سمجھنے والے تازہ ذہنوں اور نسل نو کے منتخب ادیبوں اور دانشوروں پر، اس صورت حال سے آگاہ رہنے اور اپنی زبان و تہذیب کی پاسداری کیلئے طاقتور حفاظتی اقدامات کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔

(بشکریہ جسارت)

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK