Inquilab Logo Happiest Places to Work

ثقیف کیلئےبددعا کی گزارش پرآپؐ نے فرمایا: بد دعا نہیں، میں ان کیلئے دعا کروں گا

Updated: October 03, 2023, 3:32 PM IST | Molana Nadimul Wajidi | Mumbai

سیرتِ رسول پاکؐ کی اس خصوصی سیریز میں غزوۂ طائف کا تذکرہ جاری ہے۔ حُنین میں شکست کھا نے کے بعد قبیلۂ ہوازن اور ثقیف کے لوگ طائف کی طرف بھاگ کر ایک قلعے میں محصور ہوگئے تھے۔ آج کی قسط میں پڑھئے کہ قلعہ کا محاصرہ جاری تھا، اسی دوران آپؐ نے ایک خواب دیکھا اور پھر واپسی کا ارادہ فرمایا۔ اس موقع پر صحابہؓ نے بنوثقیف کے لئے بددعا کی درخواست کی تھی جس پر آپؐ نے انکار فرماتے ہوئے ان کے قبولِ اسلام کی دعا فرمائی۔

Located about 26 kilometers away from Makkah is Jarana Masjid, which is also a Miqat and pilgrims wear Umrah from here.. Photo. INN
مکہ مکرمہ سے تقریباً ۲۶؍کلو میٹر دوری پر واقع مسجد جعرانہ مسجد ہے جو میقات بھی ہے اور زائرین یہاں سے عمرہ کا احرام باندھتے ہیں۔ تصویر:آئی این این

رسول اللہ ﷺکا خواب
قلعے کا محاصرہ بہ دستور جاری تھا، بعض مؤرخین نے محاصرے کی مدت اٹھارہ دن اور بعض نے سترہ دن لکھی ہے۔ ایک رات رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خواب میں دیکھا کہ آپؐ کی خدمت میں دودھ سے لبریز ایک پیالہ پیش کیا گیا، ایک مرغ نے آکر اس میں چونچ ماری جس سے دودھ گر گیا۔ صبح کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا یہ خواب حضرت ابوبکرؓ کو سنایا، حضرت ابوبکرؓ نے عرض کیا: میرا گمان ہے کہ ابھی یہ قلعہ فتح نہ ہوگا، آپؐ نے فرمایا: میرا بھی یہی خیال ہے۔ اس سلسلے میں آپؐ نے حضرت نوفل بن معاویہ دیلمیؓ سے بھی مشورہ کیا، انہوں نے بھی یہی عرض کیا کہ شاید ابھی یہ قلعہ فتح نہ ہو پائے۔ اس مشورے کے بعد آپؐ نے واپسی کا ارادہ فرمالیا۔ حضرت عمرؓ کو اس کی خبر ہوئی تو وہ حاضر خدمت ہوئے اور عرض کیا: یارسولؐ اللہ! کیا آپ قلعہ کامحاصرہ ختم کرکے واپسی کا ارادہ فرمارہے ہیں؟ آپؐ نے فرمایا: ہاں! حضرت عمرؓ نے عرض کیا: کیا میں یہ اعلان کردوں کہ لوگ کوچ کریں؟ آپؐ نے فرمایا: ہاں کردو۔
واپسی کا اعلان
بہت سے صحابہؓ واپسی کے اعلان سے مایوس نظر آئے۔ ان کی دلی خواہش تھی کہ قلعہ فتح کرکے واپسی ہو، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہؓ کا یہ جذبہ دیکھا تو فرمایا، ٹھیک ہے، کل جنگ کرو۔ چنانچہ اگلے دن پھر جنگ ہوئی، صحابہؓ نے جنگ لڑی، جی جان سے لڑی، لیکن نتیجہ کچھ بھی نہ نکلا بلکہ الٹا نقصان ہی ہوا، شام کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان فرمایا: ان شاء اللہ! کل یہاں سے واپس چلیں گے۔ اس واضح اعلان کے بعد کوئی کچھ نہ بولا، بلکہ سب خوشی کے ساتھ واپسی پر آمادہ ہوگئے۔ اگلے دن صبح سویرے قافلوں کی روانگی کا عمل شروع ہوا، صحابہؓ نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! ثقیف کے لئے بد دعا فرمادیں، آپؐ نے فرمایا:بد دعا نہیں، میں ان کے لئے دعا کروں گا۔ آپ نے یہ دُعا فرمائی: اے اللہ! ثقیف کو ہدایت دیجئے اور ان کو مسلمان کرکے میرے پاس بھیجئے۔ اس کے بعد آپؐ  جعرانہ تشریف لے گئے۔
معافی کا اعلان
قلعے کے محاصرے کے دوران آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ اعلان بھی کرایا کہ کوئی غلام قلعے سے نکل کر میرے پاس آیا تو وہ آزاد ہے۔ یہ اعلان سن کر قلعے سے بیس غلام نکل کر باہر آگئے، آپؐ نے ان سب کو آزاد کردیا۔ آزاد کرنے کے بعد ان کو مختلف صحابہ کے حوالے فرمایا اور انہیں حکم دیا کہ وہ ان کا خیال رکھیں، ان کی خبر گیری کریں اور ان کو دین سکھلائیں۔ سب سے پہلے ایک غلام قلعے سے نکلے، اس وقت صبح نمودار ہورہی تھی، صحابہ نے ان کا نام ابوبکرہؓ رکھ دیا، بکرہ دن کے اول وقت کو کہتے ہیں۔ ابوبکرہ حارث بن کلدہ کے غلام کے تھے، قلعے سے غلاموں کا نکلنا اور مسلمانوں میں شامل ہوجانا دشمنوں پر بڑا شاق گزرا، وہ لوگ ان کی واپسی چاہتے تھے۔ بنو ثقیف نے اسلام قبول کرنے کے بعد بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی کہ وہ ہمارے غلام ہمیں واپس فرمادیں۔ آپؐ نے ارشاد فرمایا: اب وہ غلام نہیں ہیں بلکہ اللہ رب العزت کے آزاد بندے ہیں، ان کو دوبارہ غلام نہیں بنایا جاسکتا۔ (الطبقات الکبری: ۲/۱۵۸، تاریخ الطبری: ۲/۱۷۲، مسند احمد بن حنبل: ۲۹/۷۱، رقم الحدیث: ۱۷۵۳، الکامل فی التاریخ: ۲/۲۶۶) 
جعرانہ میں تقسیم غنائم
طائف کا غزوہ شوال پانچ ہجری میں ہوا، کئی دن کے محاصرے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے واپسی کا فیصلہ فرمایا، حنین کی جنگ میں جو اموال غنیمت حاصل ہوئے تھے وہ سب جعرانہ میں محفوظ کردیئے گئے ۔ کچھ صحابہؓ اموال غنیمت کی نگرانی پر بھی مامور تھے۔ طائف سے چل کر آپ ﷺ پانچ ذی قعدہ کو جعرانہ تشریف لائے، دس دن سے زیادہ مدت تک آپؐ نے قبیلۂ ہوازن کے لوگوں کا انتظار کیا کہ شاید وہ عورتوں اور بچوں کو چھڑانے کیلئے آئیں، لیکن جب وہ لوگ نہیں آئے تو آپؐ نے خمس  (پانچواں حصہ) رکھ کر باقی تمام مال غنیمت مجاہدین میں تقسیم فرما دیا۔ 
تقسیم سے پہلے آپؐ نے صحابہؓ سے فرمایا کہ خمس کے علاوہ تمہارے مال غنیمت میں میرا کچھ نہیں ہے، اور وہ خمس بھی تمہارے ہی کام آنے والا ہے، میں اس مال غنیمت میں سے ایک سوئی بھی نہیں لے سکتا، اگر تم نے اس میں سے کچھ لیا ہو خواہ وہ ایک سوئی یا اس کا معمولی دھاگہ ہی کیوں نہ ہو، اسے چاہئے کہ وہ واپس لے آئے۔ مال غنیمت میں خیانت کرنا بہت بڑا گناہ ہے اور اس کی سزا جہنم کی آگ ہے، قیامت کے روز یہ خیانت بڑی مصیبت کی صورت میں سامنے آئے گی۔ بعض حضرات صحابہؓ نے معمولی ضرورتوں کے لئے کوئی چیز اٹھالی تھی وہ لے کر آئے اور کہنے لگے یارسولؐ اللہ! یہ تو بہت معمولی سی چیز ہے، ہم نے ضرورت کے لئے بلا اجازت لے لی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس مال میں میرا جو حق ہے وہ میں معاف کرتا ہوں۔ کسی نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! کیا ہر شخص سے اس کا حق معاف کرانا ہوگا؟ آپؐ نے فرمایا: بالکل یہی کرنا ہوگا۔ یہ سن کر صحابہؓ ڈر گئے اور ایک دوسرے سے کہنے لگے کہ اس سے تو نہ لینا ہی بہتر ہے۔ چنانچہ جس نے بھی جو چیز بلا اجازت اٹھائی تھی وہ واپس رکھ دی۔ حالاں کہ بادئ النظر میں وہ چیزیں بہت معمولی تھیں۔ حضرت عقیلؓ بن ابی طالب ایک سوئی اور کچھ دھاگہ لے گئے تھے اور یہ چیزیں انہوں نے کسی کو دے دی تھیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ باتیں سن کر وہ دوڑے دوڑے گئے اور اس شخص سے سوئی دھاگا واپس لے کر آئے، اور اسے مال غنیمت کے نگرانوں کے حوالے کیا۔ 
مال غنیمت کی تقسیم شریعت کے مقرر کردہ ضابطے کے مطابق اس طرح ہوئی کہ ہر پیدل فوجی کو چار اونٹ اور چالیس بکریاں دی گئیں اور ہر سوار کو بارہ اونٹ اور ایک سو بیس بکریاں دی گئیں۔(زاد المعاد: ۳/۳۴۲) 
مؤلفۃ القلوب کو خوب نوازا گیا
اس موقع پر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مؤلفۃ القلوب کو مال غنیمت میں سے کافی کچھ عطا فرمایا۔ شریعت کی اصطلاح میں مؤلفۃ القلوب ان لوگوں کو کہتے ہیں جو نئے نئے اسلام میں داخل ہوئے ہوں اور ابھی ان کا اسلام پورے طور پر مضبوط ومستحکم نہ ہوا ہو۔ وہ لوگ بھی مؤلفۃ القلوب میں شامل ہیں جن کو دینے سے دوسرے لوگوں کے اسلام کی توقع کی جاسکتی ہو۔ مؤلفۃ القلوب ایک شرعی اصطلاح ہے جس کے معنی ہیں وہ لوگ جن کے دلوں میں کسی چیز کے لئے انسیت اور الفت پیدا کی جائے۔ اس حکم کا مقصد عام طور پر یہ بیان کیا جاتا ہے کہ جو لوگ اسلام کی مخالفت میں سرگرم ہوں مال دے کر ان کے دلوں کو اسلام اور مسلمانوں کی طرف مائل کیا جائے تاکہ ان کا مخالفت کا جذبہ سرد پڑ جائے اور وہ مسلمانوں کے مددگار بن جائیں۔ (فقہ الزکوٰۃ: ۲/۵۹۵)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حیات طیبہ میں بہت سے لوگوں کو بہ طور تالیف قلب مال عطا فرمایا۔ جعرانہ میں ایسے بہت سے لوگوں کو آپؐ نے مال دیا، چنانچہ سفیان بن حربؓ کو جو حالت کفر میں مسلمانوں کے سخت ترین دشمن تھے اور اسلام کے بدترین مخالفوں میں شمار ہوتے تھے اور ابھی تازہ تازہ مسلمان ہوئے تھے، چالیس اوقیہ چاندی اور سو اونٹ دئے گئے۔ انہوں نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! میرا بیٹا معاویہؓ بھی ہے، آپ نے ان کو بھی چالیس اوقیہ چاندی اور سو اونٹ عطا فرمائے۔ حکیم بن حزامؓ کو بھی سو اونٹ ملے، انہوں نے سو اونٹ اور مانگے، ان کی یہ درخواست بھی قبول فرمائی۔ حارث بن ہشام، سہیل بن عمرو، حویطب بن عبد العزی، علاء بن حاربہ الثقفی، عیینہ بن حصن فزاری، اقرع بن حابس تمیمی ، مالک بن عوف نصری اور صفوان بن امیہ وغیرہ تمام حضرات کو سو سو اونٹ دئے گئے۔مخرمہ بن نوفل زہری، عمیر بن وہب جحمی، ہشام بن عمرو اور اس کے بھائی کو سو سے کم اونٹ دیئے گئے، عدی بن قیس کو چالیس اونٹ ملے، عباس بن مرداس کو بھی ابتداء میں چالیس اونٹ دئے گئے تھے، وہ سخت طیش میں آیا، ناراضگی کا اظہار کرنے کے لیے اس نے کچھ اشعار بھی کہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اس کی زبان روکو، یعنی اسے کچھ اور دے کر چپ کردو، چنانچہ مزید کچھ اونٹ دے کر اس کو راضی کیا گیا، صفوان تو اس وقت تک مسلمان بھی نہیں ہوئے تھے، اس داد ودہش کو دیکھ کر ہی انہوں نے اسلام قبول کرنے کا فیصلہ کیا۔ 
حافظ ابن اسحاقؒ نے اور بھی نام لکھے ہیں جن کو بہت سا مال دیا گیا، اس داد ودہش سے کچھ دلوں میں یہ وہم بھی پیدا ہوا کہ ہمیں کم دیا گیا ہے اور دوسرے لوگوں کو زیادہ دیا گیا ہے، اس وہم کے ازالے کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: خدا کی قسم! میں کسی کو دیتا ہوں اور کسی کو نہیں دیتا، حالاں کہ جس کو نہیں دیتا وہ میرے نزدیک زیادہ محبوب ہوتا ہے، میں بعض لوگوں کو اس لئے (زیادہ) دیتا ہوں کہ ان کے دل مال غنیمت دیکھ کر حرص وطمع سے بھر جاتے ہیں، کچھ دوسرے لوگوں کے دلوں میں استغناء زیادہ ہوتا ہے اس لئے میں انہیں نہیں دیتا۔ (صحیح البخاری:۴/۹۳، رقم الحدیث:  ۳۱۴۵) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ میں ایک شخص کو دیتا ہوں حالاں کہ دوسرا شخص مجھے اس سے زیادہ محبوب ہوتا ہے میں اسے اس خوف سے نہیں دیتا کہ کہیں وہ اوندھے منہ آگ میں نہ ڈال دیا جائے۔ (صحیح البخاری: ۱/۱۴،رقم الحدیث: ۲۷، صحیح مسلم: ۱/۱۳۲، رقم الحدیث: ۱۵۰) 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK