Inquilab Logo

آن لائن ایجوکیشن، مسائل اور حل

Updated: June 28, 2020, 6:18 PM IST | Editorial | Mumbai

محکمہ ٔ تعلیم نے آن لائن ایجوکیشن کو یقینی بنانے کیلئے بعض اسکولوں بالخصوص بی ایم سی کے اسکولوں کو ذمہ داری دی ہے کہ وہ روزانہ دو گھنٹے آن لائن تدریس کا فریضہ انجام دیں مگر اساتذہ کی جانب سے جو تاثرات سامنے آرہے ہیں اُن سے محسوس ہوتا ہے کہ یہ اتنا آسان نہیں ہے۔

online-education file photo
آن لائن تعلیم کی تیاری ۔ فائل فوٹو

  محکمہ ٔ تعلیم نے آن لائن ایجوکیشن کو یقینی بنانے کیلئے بعض اسکولوں بالخصوص بی ایم سی کے اسکولوں کو ذمہ داری دی ہے کہ وہ روزانہ دو گھنٹے آن لائن تدریس کا فریضہ انجام دیں مگر اساتذہ کی جانب سے جو تاثرات سامنے آرہے ہیں اُن  سے محسوس ہوتا ہے کہ یہ اتنا آسان نہیں ہے۔ طلبہ میں ہر ایک کے پاس اسمارٹ فون نہیں ہے۔ فون ہے تو آن لائن جڑنے کیلئے انٹرنیٹ کی سہولت نہیں ہے۔ اگر یہ سہولت ہے تو اتنی مستحکم نہیں ہے۔ نیٹ ورک آتا جاتا رہتا ہے۔ اگر نیٹ ورک مستحکم ہے تو اس بات کی کوئی ضمانت نہیں کہ جس علاقے میں طالب علم ہے وہاں بجلی بھی ہے۔ آج بھی ہمارے شہر اور ریاست کے کئی علاقوں میں بجلی کی آنکھ مچولی جاری رہتی ہے۔ ان سب سے ہٹ کر ایک مسئلہ عادت اور مزاج کا بھی ہے۔ اب تک چونکہ آن لائن تدریس نافذ العمل نہیں ہوئی تھی اس لئے اس کی مشق نہیں کی گئی۔ مشق ہوگئی ہوتی تو اسے عمل میں لانا اتنا مشکل نہ ہوتا۔ بلاشبہ آن لائن تدریس ایک اچھا سلسلہ ہے جس کے ذریعہ طلبہ کی آئندہ زندگی میں بڑی سہولتیں پیدا ہوں گی اور وہ اچھی یونیورسٹیز سے وابستہ ہوسکیں گے مگر جو بنیادی انفراسٹرکچر ہے اُس کا مضبوط نہ ہونا ہمارے لئے بہرحال مسئلہ ہے۔ اس لئے، حالت یہ ہے کہ طلبہ اور اُن کے والدین بھی پریشان ہیں اور اساتذہ بھی۔ ہمارے خیال میں، مسائل سے واقفیت کے باوجود محکمہ ٔ تعلیم آن لائن تعلیم پر اس لئے زوردے رہا ہے کہ تعلیم کا تعطل زیادہ عرصے تک قائم نہیں رہ سکتا۔ مارچ کے اواخر سے جون کے اواخر تک تین ماہ پورے ہوچکے ہیں اور اب تک تعلیم و تدریس کا سلسلہ شروع نہیں ہوا ہے۔ظاہر ہے کہ یہ تشویش کی بات ہے مگر جو مسائل درپیش ہیں اُن کا حل محکمہ ٔ تعلیم کے پاس بھی نہیں ہے۔
 ایسے میں ہمارے خیال میں دو کام آسانی سے کئے جاسکتے ہیں۔ پہلا یہ کہ جتنے بھی طلبہ، جتنی بھی دیر اپنے اساتذہ سے آن لائن جڑ سکتے ہیں، جڑیں۔ اس سے اُن میں تعلیم سے وابستہ رہنے کا احساس پیدا ہوگا اور وہ روزانہ کچھ نہ کچھ وقت تعلیم کیلئے مختص کریں گے۔محکمہ ٔ تعلیم، طلبہ کیلئے وائی فائی کی سہولت مفت مہیا کردے اور بجلی فراہم کرنے والے اداروں کو تاکید کی جائے کہ کسی بھی علاقے کی بجلی صبح کے اوقات میں منقطع نہ ہو۔ اس سے طلبہ کی تعداد بڑھے گی اور وہ آن لائن جڑنے میں کوئی دقت محسوس نہیں کریں گے۔ رہ گئی موبائل ہینڈ سیٹ کی بات تو اس کی ذمہ داری والدین پر ڈالی جاسکتی ہے۔ اس پورے منصوبے کو کامیاب بنانے کیلئے اسکولوں کے ذریعہ طلبہ تک باقاعدہ اطلاعات پہنچنی چاہئیں۔ اس منصوبے پر عمل فوری طور پر شروع نہ ہو تب بھی آئندہ ماہ کی کوئی ایک تاریخ مقرر کرکے والدین، طلبہ اور اساتذہ کو مطلع کردیا جائے تاکہ وہ اس کیلئے تیار رہیں۔ 
 دوسرا کام یہ ہوسکتا ہے کہ طلبہ کو اس سال کیلئے ایک مختصر نصاب دیا جائے تاکہ اگر طلبہ آن لائن جڑنے میں دشواری محسوس کریں تو اس مختصر نصاب پر ازخود محنت کرکے سال کے اخیر میں امتحان دینے کے قابل ہوجائیں۔آئندہ ماہ یا پھر اگست میں اسکول کھل جائیں تب بھی اسی مختصر نصاب کی تدریس ہو تاکہ خدانخواستہ وباء دوبارہ سر اُٹھائے تو ایک بار پھر سب کچھ تہ و بالا نہ ہوجائے۔ مارچ میں جب وباء پھیلنی شروع ہوئی تب تعلیمی سال ختم ہورہا تھا اس لئے طلبہ کی پڑھائی زیادہ نقصان نہیں ہوا مگر اب اُن کے سامنے پورے سال کی تعلیم ہے۔ اسلئے تیاری بھی اسی نوعیت کی ہونی چاہئے کہ ابتدائی ایک ماہ کچھ مصرف میں نہیں آسکا تو کم از کم تعلیمی سال کے باقیماندہ مہینے ضائع نہ ہوں۔محکمہ ٔ تعلیم آن لائن تعلیم کی کوشش تو کرے مگر اس پر اصرار نہ کرے اور اگر ایسا ہی کرنا ہے تو طلبہ کو وہ سہولتیں بہم پہنچائے جن کا تذکرہ بالائی سطور میں کیا گیا۔  

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK