اس طرح کے گیمز بچوں اور نوجوانوں کی ذہنی و جذباتی تربیت پر منفی طور سے اثر انداز ہوتے ہیں۔ان کی وجہ سے بچوں اور نوجوانوں کے اندر سرکشی اور باغیانہ میلان میں اضافہ ہوتا ہے ۔یہی سبب ہے کہ نئی نسل کے اندر زندگی کی ان اخلاقی قدروں کی پاسداری کا رجحان قدرے کمزور پڑتا جا رہا ہے جن کی بنا پر ایک پرامن اور خوشحال معاشرہ کی تشکیل ہوتی ہے،اسلئے اس جانب سما ج کو ذمہ داری کے ساتھ توجہ دینے کی ضرورت ہے
vکووڈ ۱۹؍ کی وجہ سے زندگی کے بہت سارے اُمور اب آن لائن انجام دئیے جا رہے ہیں۔ انسان کی عوامی زندگی سے وابستہ ان امور کی انجام دہی میں وہ ذرائع بہت کار آمد ثابت ہورہے ہیں جو سوشل میڈیا کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ اس دور میں تعلیم، طب و صحت، تجارت اور دیگر اہم شعبوں سے وابستہ امور آن لائن انجام دئیے جا رہے ہیں۔ ان امورکے علاوہ تفریح و تفنن طبع کیلئے بھی انسانی معاشرہ نے آن لائن گیمز سے اپنی دلچسپی کے رجحان کا برملا اظہار کیا ہے۔انسانوں کا باہمی سماجی رابطہ محدود ہو جانے کے سبب جہاں زندگی کے دیگر معاملات کی نوعیت تبدیل ہوئی وہیں انسانوں نے وقت گزاری اور تفریح طبع کیلئے آن لائن گیمز کے ذریعہ اپنا دل بہلانے کا سامان بہم پہنچایا لیکن آن لائن گیمز سے انسانوں کی دلچسپی کا یہ معاملہ اب صرف وقت گزاری اور دل بہلانے تک محدود نہیں رہ گیا بلکہ اس کے سبب کئی ایسے مسائل پیدا ہوگئے ہیں جو انسانی معاشرہ کو بہ یک وقت کئی سطحوں پر متاثر کر رہے ہیں۔
ان مسائل میں سب سےپہلا مسئلہ انسان کی ذہنی اور جذباتی تربیت سے وابستہ ہے۔ان گیمز میں جس طرح کا مواد اور ماحول پیش کیا جاتا ہے وہ انسانوں کے ذہن پر منفی اثرات مرتسم کرتے ہیں۔ آن لائن گیمز بیشتر اس نوعیت کے ہوتے ہیں جن میں تشدد پر مبنی عمل کی تشہیر کی جاتی ہے ۔اس طرح کے گیمز کھیلنے والے تشدد کو زندگی کی عام قدر تصور کرنے لگتے ہیں اور رفتہ رفتہ ان کے اندر خود بھی اس طرح کے جذبات پیدا ہوجاتے ہیں جن کے سبب وہ اپنی زندگی میں بھی تشدد کے مظاہرے کو ایک عام سی بات سمجھنے لگتے ہیں۔عہد حاضر کے انسانی معاشرہ پرنظر ڈالی جائے تو یہ تلخ حقیقت سامنے آتی ہے کہ ہر عمر اور طبقے کے افراد کے اندر غصہ اور تشدد کے رجحان میں تشویش ناک حد تک اضافہ ہو گیا ہے۔اس رجحان کو بڑھاوا دینے میں معاصر سماجی و معاشی حالات کے علاوہ ان گیمزکے اثرات سے انکار نہیں کیا جا سکتا جن میں تشدد پر مبنی مواد شامل ہوتا ہے۔ یہ گیمز بچوں اور نوجوانوں کی ذہنی و جذباتی تربیت پر منفی طور سے اثر انداز ہوتے ہیں۔ان کی وجہ سے بچوں اور نوجوانوں کے اندر سرکشی اور باغیانہ میلان میں اضافہ ہوتا ہے ۔یہی سبب ہے کہ نئی نسل کے اندر زندگی کی ان اخلاقی قدروں کی پاسداری کا رجحان قدرے کمزور پڑتا جا رہا ہے جن کی بنا پر ایک پرامن اور خوشحال معاشرہ کی تشکیل ہوتی ہے۔
نئی نسل اب والدین کی فرماںبرداری،بڑے بزرگوں کی عزت اور اپنے آس پاس کے لوگوں سے محبت و ہمدردی سے پیش آنے کو بہت زیادہ اہمیت نہیں دیتی ۔ اس نسل کا معاملہ یہ ہے کہ یہ اپنی خواہش اور مرضی کی تکمیل بہر طور چاہتی ہے خواہ اس کیلئے کوئی بھی اقدام کرنا پڑے۔نئی نسل کے اندر اس رجحان کے پیدا ہونے کا ایک سبب ایسے آن لائن گیمز ہیں جن میں کامیابی اور شکست کا ایک ایسا ماحول تیار کیا جاتا ہے جو کھیلنے والے کے اندر کسی بھی قیمت پر اپنی کامیابی کو یقینی بنانے کا رجحان پیداکرتا ہے۔اس رجحان کے سبب زندگی میں اس فکری اعتدال کا فقدان ہو جاتا ہے جو معاملات زندگی کا مقابلہ کرنے میں ان ہر دو ممکنہ صورتوں کوپیش نظر رکھتا ہے جس میں فتح اور شکست ایک ہی سکے کے دو پہلو کے طور پر ہوتے ہیں۔ہر صورت میں اپنی کامیابی کو یقینی بنانے کا یہ رجحان ہٹ دھرمی اور ضدکے طور پر بھی ظاہر ہوتا ہے۔ اس وقت عالمی انسانی معاشرہ کو جن مسائل کا سامنا ہے ان میں ایک مسئلہ بچوں اورنوجوانوں کے اندر ہٹ دھرمی اور ضد کے رجحان میں ہونے والا اضافہ بھی ہے ۔اس رجحان کے سبب خانگی اور سماجی زندگی میں کئی طرح کے مسائل پیداہو رہے ہیں ۔ انسانی رشتوں کی پاسداری اور سماجی قدروں میںیقین کا معاملہ بھی کمزور پڑتا جارہا ہے ۔اگر ان کے اسباب تلاش کئے جائیں تو دیگر وجوہ کے علاوہ آن لائن گیمز کے وہ منفی اثرات بھی ایک سبب کے طور پر سامنے آئیں گے جو زندگی میں تشدد اور ہٹ دھرمی کے رجحان کو بڑھاوا دیتے ہیں۔
آن لائن گیمز کے منفی اثرات میں ایک بڑا نقصان ان کے سبب ہونے والا وقت کا زیاں ہے۔ یہ گیمز پہلے تو تفریح و تفنن طبع کے طور پر کھیلے جاتے ہیں لیکن رفتہ رفتہ یہ ایک لت میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔اس مقام پر پہنچنے کے بعد تفریح ایک نقصان دہ عمل میں تبدیل ہوجاتی ہے ۔بچوں اور نوجوان نسل کے اندر ان گیمز کی لت پروان چڑھنے کے بعد انھیں مثبت اور مفید کاموں کیلئے وقت نکالنے میں بھی دقت ہوتی ہے۔ اس کی وجہ سے ان کی پڑھائی یا اس کے طرح کے دیگر امور جو زندگی میں انھیںکسی بہتر اور مفید راہ پر ڈال سکتے ہیں،پس پشت رہ جاتے ہیں۔ان گیمز کی لت میں مبتلا ہونے کے بعد انسانی رشتوں میں بھی انتشار کی کیفیت پیداہوجاتی ہے اور ربط باہمی کی کڑی کمزور پڑنے لگتی ہے۔ اس لت کی وجہ سے یہ کیفیت ہر اس رشتے پر طاری ہو سکتی ہے جن پر سماجی نظام کا ڈھانچہ ترتیب پاتا ہے۔اس وقت یوں بھی انسانی زندگی کئی طرح کے بحران کا شکار ہے جن میں ایک مسئلہ انسانی رشتوں میں پیدا ہونے والی بیگانگی کی کیفیت بھی ہے ۔آج کا انسان اپنی ذات کے اندر اس قدر محصور ہو کر رہ گیا ہے کہ اسے دوسروں کے سکھ دکھ، رنج و راحت سے کوئی غرض ہی نہیں رہ گئی ۔سماج میں اس رجحان کو بڑھاوا دینے میں ان تکنیکی وسائل کا بڑا رول ہے جو انسانوں کو دوسروں سے بیگانہ کر دیتے ہیں اور آن لائن گیمز کی لت بھی دراصل اسی نوعیت کی ہے جو انسانوں کے درمیان دوری پیداکرتی ہے ۔
آن لائن گیمز ایک بڑا نقصان یہ ہے کہ اب ان کے ذریعہ دولت کمانے کا خواب دکھا کر ان گیمز کو کھیلنے والوں کے اندر زیادہ سے زیادہ دولت کمانے کی ہوس پیداکی جاتی ہے۔اس کی وجہ سے جوابازی کے رجحان میں اضافہ ہوا ہے۔اب لوگ ان گیمز کے ذریعہ کم وقت میں زیادہ سے زیادہ دولت کمانے کی کوشش کرنے لگے ہیں۔ایسی کوشش کبھی کبھی ہی کامیاب ہوتی ہے ورنہ ہوتا یہ ہے کہ اس طرح کے گیمز کھیلنے والابیشتر خسارے میں رہتا ہے ۔مالی اعتبار سے ہونے والا یہ نقصان اسے نفسیاتی طور پر کئی طرح کی الجھنوں اور مسائل میں مبتلا کر دیتاہے ۔آن لائن گیمز کے ذریعہ دولت کمانے کا یہ رجحان کم عمر کے بچوں کو اس راہ پر ڈال رہاہے جہاں ان کے ذہن میں زیادہ سے زیادہ دولت حاصل کرنے کی فکر راسخ ہو جاتی ہے اور پھر وہ اس مقصد میں کامیاب ہونے کیلئے جا و بیجا کے فرق کو بھی بھول جاتے ہیں۔آن لائن گیمز کے ذریعہ دولت کمانے کا یہ رجحان انسانی رشتوں میں بگاڑ پیداکر رہا ہے اور اب شدت سے یہ بات محسوس کی جارہی ہے ایسے گیمز کیلئے حکومت کی طرف سے کوئی ایسی گائیڈ لائن جاری کی جائے جو معاشرہ کو ان کے منفی اثرات سے محفوظ رکھنے میں معاون ہو۔ آن لائن گیمز کھلانے والی بعض کمپنیاں ٹی وی پر باقاعدہ اس کی تشہیر کر رہی ہیں اور عوام کو دعوت دیتی ہیں کہ وہ ان گیمز میں اپنا پیسہ لگائیں۔اس طرز کی تشہیر کے دام میں الجھ کر بہت سے لوگ ان گیمز میں پیسہ لگاتے ہیں جن میں سے فائدہ محض چند ہی کوہوتا ہے اور باقی افراد مالی نقصان سے دوچار ہوتے ہیں۔گزشتہ دنوں مدراس ہائی کورٹ میںوراٹ کوہلی اور تمل فلموں کی ہیروئن تمنابھاٹیا کے خلاف ایک عرضداشت داخل کی گئی تھی جس میں کہا گیا کہ ایسی مشہور شخصیات کے ذریعہ ان گیمز کی تشہیر سے سماج میں ان کی مقبولیت میں اضافہ ہورہا ہے اور یہ مقبولیت کئی صورتوں میں منفی طور پر ظاہر ہورہی ہے ۔اس عرضداشت میں یہ بھی کہا گیا تھاکہ حکومت کو اس مسئلے کی طرف سنجیدگی سے غور کرنا چاہئے اور ان گیمز کے سماج پر جو منفی اثرات پڑ رہے ہیں ان کی روک تھام کیلئے کوئی موثر اور کارگر حکمت عملی اختیار کرنا چاہئے۔
ایسے دور میں جبکہ انسان کا سماجی رابطہ محدود ہوگیا ہے اور وہ بیشتر وقت گھر کے اندر رہنے کو مجبور ہے ، آن لائن گیمز اس کیلئے تفریح کا سامان مہیا کر سکتے ہیں لیکن ان گیمز کو کھیلتے وقت اس اعتدال کو برتنے کی ضرورت ہے جو انسانی رشتوں میں بگاڑ پیدا نہ ہونے دے اور ساتھ ہی وقت اور توانائی کا بہتر اور موزوں استعمال کرنے میں معاون ثابت ہو ۔کم عمر بچوں اور نوجوانوں کے اندر اگر ان گیمز کا شوق لت میں تبدیل ہوتا نظر آئے تو اس کے سد باب کیلئے موثر اقدام کرنے کی ضرورت ہے ۔ان سب سے بڑھ کر یہ کہ اس طرح کے آن لائن کھیلوں کے ذریعہ دولت کمانے کی ہوس میں مبتلا ہو کر اپنا مالی نقصان کرنے سے گریز کرنا چاہئے۔ ان گیمزکو کھیلنے کے شوق میں زندگی کے دیگر اہم کاموں کوفراموش نہیں کرنا چاہئے۔ عالمی انسانی معاشرہ میں نفرت اور غصہ کے رجحان میں جو اضافہ ہوا ہے اس کے پیش نظر ایسے گیمز سے پرہیز کرنا چاہئے جو انسانوں کے اندر ایسے منفی جذبات پیدا کرتے ہوں جن سے سماج میں انتشار پیدا ہونے کا خدشہ ہو۔