ہمارے بزرگوں نے یہ قربانی اپنے لئے نہیں بلکہ ملک اور اپنی آنے والی نسلوں کیلئے دی تھی،اسلئے ہم پر لازم ہے کہ ہم اس پیغام کو اپنی آنے والی نسلوںتک پہنچائیں
EPAPER
Updated: August 15, 2024, 9:12 AM IST | Doctor Riyaz Ahmed | Mumbai
ہمارے بزرگوں نے یہ قربانی اپنے لئے نہیں بلکہ ملک اور اپنی آنے والی نسلوں کیلئے دی تھی،اسلئے ہم پر لازم ہے کہ ہم اس پیغام کو اپنی آنے والی نسلوںتک پہنچائیں
ہر سال۱۵؍ اگست کو ہم ہندوستانی یوم آزادی مناتے ہیں۔ یہ صرف ایک قومی تعطیل نہیں ہے بلکہ اس کی اہمیت اس سے کہیں زیادہ ہے۔یہ دن ہندوستان کیلئے آزادی اور خودمختاری کے نئے دور کا آغاز تھا۔اس دن نے برطانوی نوآبادیاتی حکومت کا خاتمہ کیا تھا۔ یہ دن ان مجاہدین آزادی کی قربانیوں کی علامت ہے جنہوں نے ملک کی آزادی کیلئے اپنی جانیں نچھاور کیں۔ ہر ہندوستانی یوم آزادی کو ایک ذمہ داری اور اپنے آباءو اجداد کیلئے شکریے کے اظہار کے طور پر مناتا ہے جنہوں نے بہادری سے لڑائی لڑی اور ملک کو آزاد کرایا۔
تاریخی سیاق و سباق
ہندوستان کی تحریک آزادی کا شمار دنیا کی تاریخ میں ایک شاندار اور طویل ترین انقلابات میں سے ایک انقلاب میں شمار ہوتا ہے۔ برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی نے ۱۷؍ویں صدی کے اوائل میں ہندوستان کے ساحلوں پر تجارتی مراکز قائم کئے تھے۔ اسی کمپنی کی عیاریوں کی وجہ سے ہندوستان میں برطانوی حکومت کا آغاز ہوا تھا۔۱۸۵۷ء کی بغاوت، جسے عام طور پر پہلی جنگ آزادی کہا جاتا ہے، میں وطن عزیز کی شکست کے ساتھ ہی کمپنی کی طاقت میں وقت کے ساتھ اضافہ ہوتا گیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ۱۸۵۸ء میں برطانوی تاج کو ہندوستان پر مکمل نوآبادیاتی تسلط حاصل کیا۔
انیسویں صدی کے اواخر اور بیسویں صدی کے اوائل میں آزادی کی جدوجہد مزید شدت اختیار کر گئی۔ مہا تما گاندھی، مولانا آزاد، پنڈت نہرو، سردار ولبھ بھائی پٹیل اور سبھاش چندر بوس جیسے لیڈر برطانوی سامراج کے خلاف جنگ میں کلیدی کردار ادا کر رہے تھے۔۱۸۸۵ء میں قائم ہونے والی انڈین نیشنل کانگریس نے آزادی کی تحریک کیلئے ایک اہم تنظیمی قوت کے طور پر کام کیا، جو پہلے مکمل آزادی اور پھر خود حکمرانی کیلئے زور دے رہی تھی۔مہاتما گاندھی کی عدم تشدد کی تحریک، جسے ستیہ گرہ کے نام سے جانا جاتا ہے، آزادی کی تحریک کی بنیاد تھی۔ ان کی قیادت میں لاکھوں ہندوستانیوں نے استعماری حکومت کیخلاف بغاوت کی، خاص طور پر اہم مہمات کے دوران جیسے کہ۱۹۴۲ء میں بھارت چھوڑو تحریک، ۱۹۳۰ء سے۱۹۳۴ء کے دوران سول نافرمانی تحریک اور اس سے قبل ۱۹۲۰ء سے ۱۹۲۲ء کے دوران عدم تعاون تحریک۔ ان لیڈروں اور کئی نامعلوم شہیدوں کی قربانیوں کی وجہ سے بالآخر انگریزی حکومت کو ہندوستان پر اپنا کنٹرول چھوڑنے پر مجبور ہونا پڑا۔
اس طرح ہندوستان نے۱۵؍ اگست۱۹۴۷ء کو آزادی حاصل کی جو ایک تاریخی واقعہ ہے۔اس نے برطانوی حکومت کے۲۰۰؍سال سے زیادہ عرصے کے اقتدار کے خاتمے کی نشاندہی کی۔ آزادی ملنے کے ساتھ ہی ملک کے ہندوستان اور پاکستان کے نام پر دو حصوں میں تقسیم ہونے کے بعد بڑے پیمانے پر فساد بھی برپا ہوا اور لوگوں کی نقل مکانی بھی ہوئی۔ ان مشکلات کے باوجود، آزادہندوستان کا قیام مجاہدین کی بہادری، ان کی ثابت قدمی اور قومی اتحاد کی فتح تھی۔
یوم آزادی کا اہتمام کیو ں ضروری
یوم آزادی منانے کا فرض صرف ایک تاریخی واقعہ کو یاد کرنے کیلئے نہیں بلکہ ان اصولوں اور اقدار کی تصدیق کیلئے ہے جن کیلئے ہندوستان کے آزادی کے متوالوں نے جدوجہد کی تھی۔ ہر ہندوستانی پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ اس دن کو منائےکیونکہ یہ اُن لوگوں کو خراج عقیدت پیش کرتا ہے جنہوں نے اپنے ملک کی آزادی کو یقینی بنانے کیلئے اپنی جانیں قربان کیں۔ یہ ہمارے ان آباء و اجداد کا شکر ادا کرنے کا ایک ذریعہ ہے جنہوں نے بہادری سے ایک بڑی طاقت کے ساتھ جنگ لڑی تاکہ آنے والی نسلیں آزادی کے ساتھ جی سکیں۔
مجاہدین کو خراج عقیدت
آزادی کی جدوجہد بڑی قربانیوں سے عبارت تھی، خواہ وہ غیر متشدد احتجاج ہو یا میدان جنگ میں دشمن کے ساتھ لڑائی۔ آزادی کے جنگجو بڑی تعداد میں قید و بند کی اذیتیں برداشت کیں اور ایک بڑی تعداد نے جام شہادت بھی نوش کی۔ یوم آزادی کی تقریب منا کر ہم ان کی بہادری اور لگن کو سراہنے کا کام کرتے ہیں۔ ہمارا فرض ہے کہ اس بات کو پوری طرح سے یقینی بنایا جائے کہ نئی نسل آزادی کی اُس قیمت کو پہچانے جسے ہمارے بزرگوں نے ادا کی اور جسے آج کی نسل معمولی سمجھتی ہے۔
قومی یکجہتی کو برقرار رکھنے کی کوشش
۱۵؍ اگست ہماری مشترکہ قومی شناخت اور اتحاد کی ایک طاقتور علامت بھی ہے۔ یہ یاد دلاتا ہے کہ ہماری ثقافتوں، زبانوں اور مذاہب میں بھلے ہی اختلافات ہیں،لیکن ملک کیلئے ہم ایک ہیں۔ یہ ہماری مشترکہ تاریخ ہے جو ہمیں متحد رکھتی ہے۔ اس جشن سے لوگوں کو اپنے علاقائی اور نسلی تقسیم کو ترک کرنے اور قومی اتحاد کو اپنانے کی ترغیب ملتی ہے۔
قوم کی تعمیر کے عزم کی تجدید
یوم آزادی نہ صرف ۱۹۴۷ء کے بعد کی کامیابیوں کو منانے کا موقع فراہم کرتا ہے بلکہ قوم کی تعمیر کے مسلسل کام کیلئے ہمارے عزم کی تجدید کا موقع بھی فراہم کرتا ہے۔ یہ آزادی ایک طویل جدوجہد کے بعد حاصل ہوئی تھی، اسلئے اسے ملک کی ترقی کیلئے محنت اور عزم کے ساتھ برقرار رکھنے کی ضرورت ہے۔ یوم آزادی منانے کا مطلب جمہوریت، سیکولرزم اور سماجی انصاف کے اصولوں کا احترام ہے جو ہندوستانی جمہوریہ کی بنیاد ہیں۔
آنے والی نسلوں کیلئے تحریک
یوم آزادی کی تقریبات کا اہتمام دراصل آزادی کی قدر اور اس کے ساتھ وابستہ ذمہ داریوں کو اگلی نسل تک پہنچانے کیلئے ایک ضروری قدم ہے۔ یہ ملک کے نوجوانوں کو اپنے آباء و اجداد پر فخر کرنے اور ملک کی ترقی میں حصہ لینے کی ترغیب دیتا ہے۔ یوم آزادی کی تقریبات میں حصہ لے کر ہم اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ آزادی کی روح زندہ رہے اور حب الوطنی کامشعل اگلی نسلوں تک منتقل ہوتا رہے۔
آزادی کا قرض
ہر ہندوستانی شہری پر یہ فرض ہے کہ وہ اس بات کو تسلیم کرے کہ آج ہم جس آزادی کا لطف اٹھارہے ہیں وہ ہمیں آسانی سے نہیں ملی ہے۔ ہم پر تحریک آزادی کے مجاہدین کے ساتھ ساتھ آنے والی نسلوں کا بھی قرض ہے۔ ہمارا فرض ہے کہ اس میراث کو محفوظ رکھیں اور اسے آگے بڑھائیں جسے ہمارے اجداد نے ایک آزاد اور منصفانہ معاشرے کے قیام کیلئے بہت مشکلوں سے حاصل کیا ہے
جمہوری اقدار کا تحفظ
جمہوری بنیاد جو ہندوستان کے معماروں نے رکھی تھی، وہ ملک کے بڑے قرضوں میں سے ایک ہے جو ہم پر ایک طرح سے واجب ہے۔۱۹۵۰ء کے ہندوستانی آئین میں تمام شہریوں کیلئے انصاف، برابری اور آزادی کے اصول شامل ہیں۔ اسلئے ضروری ہے کہ ہر ہندوستانی ان اصولوں کا دفاع کرے اور ناانصافی، بدعنوانی اور آمریت سے ملک کو بچانے کی کوشش کرے۔
سماجی اور اقتصادی انصاف کا فروغ
آزادی کی تحریک کا مقصد صرف سیاسی آزادی حاصل کرنا نہیں تھا بلکہ ایک ایسے معاشرے کا قیام بھی تھا جس میں ہر فرد کو مواقع اور حقوق تک یکساں رسائی حاصل ہو۔ یہ مسئلہ اب بھی موجود ہے کیونکہ ہندوستان ابھی تک سماجی تعصبات، غربت اور عدم مساوات جیسے مسائل سے نمٹ رہا ہے۔ یوم آزادی منا کر گویا ہم ان لوگوں کا قرض تسلیم کرتے ہیں جنہوں نے ایک ایسے ہندوستان کا خواب دیکھا تھا جہاں تمام شہری وقار اور انصاف کے ساتھ زندگی گزار سکیں۔
قومی فخر کا فروغ
ان تقریبات کے اہتمام کی ایک اور بڑی وجہ ہے۔ وہ قومی فخر کو فروغ دینا ہے۔ یہ ہمارے ملک کی کامیابیوں اور اقدار کیلئے ایک تعظیم ہے نہ کہ بے مقصد قوم پرستی۔ اس یوم آزادی پر ہمیں اپنے ثقافتی ورثے کو اپنانا چاہئے، ملک کے تنوع اور لچک کا جشن منانا چاہئے اور ملک کے مستقبل کیلئے اپنی حمایت کا عہد اور اس کا اعلان بھی کرنا چا ہئے۔
عالمی امن اور ترقی کی حمایت
آخر میں ایک آزاد ملک کے شہری ہونے کے ناطے ہم پر بین الاقوامی برادری کا بھی قرض ہے۔ ملک کی آزادی، دراصل اس کی خود مختاری اور انسانی حقوق کی پاسداری کے ضمن میں ایک اہم کامیابی تھی۔ اسلئے ہمارا فرض ہے کہ ہم عالمی امن، ترقی اور ہر قسم کی ناانصافی کے خلاف جنگ کی حمایت کریں۔ یوم آزادی کو منانا اس بات کی یاد دہانی ہے کہ آزادی کی جدوجہد ایک عالمی کوشش ہے اور ہمیں ان لوگوں کی حمایت کرنی چاہئے جو کہیں بھی اپنے حقوق کا دفاع کر رہے ہیں اور غاصب قوتوں سے لڑ رہے ہیں۔
یہ صرف ایک تعطیل نہیں...
یوم آزادی صرف ایک تعطیل نہیں بلکہ یہ ایک اہم فرض ہے۔ اسی کے ساتھ یہ ہم پر قرض بھی ہے جو ہم پراپنے ملک، اپنے آباء و اجداد اور آنے والی نسلوں کیلئے واجب الادا ہے۔ آئیے اس موقع پر ہم عہد کریں کہ ہم اس قرض کو ادا کرنے کی پوری پوری کوشش کریں گے۔n