Inquilab Logo

رسم الخط محض کسی زبان کا لباس ہی نہیں اس کی زینت اور اس کی روح کا محافظ بھی ہے

Updated: November 19, 2023, 1:15 PM IST | Ramlal | Mumbai

بعض اوقات ایسا خیال ہونے لگتا ہے کہ اردو کی مخالفت اس کے لفظی اور معنوی ذخیرے کی وجہ سے نہیں ، جتنی رسم الخط اور ظاہری لباس کے باعث ہے ، لیکن یہ محض مغالطہ ہے۔

Photo: INN
تصویر : آئی این این

بعض اوقات ایسا خیال ہونے لگتا ہے کہ اردو کی مخالفت اس کے لفظی اور معنوی ذخیرے کی وجہ سے نہیں ، جتنی رسم الخط اور ظاہری لباس کے باعث ہے ، لیکن یہ محض مغالطہ ہے۔ دراصل اس کی مخالفت کی جڑیں بہت گہری ہیں جن کی تفصیل میں جانے کا یہ موقع نہیں ۔ بہرحال بعض لوگ جن کی معاملے کے تمام پہلوؤں پر نظر نہیں ، گھبرا کر یہ مشورہ دینے لگے ہیں کہ اگر فساد کی بنا یہ رسم الخط ہی ہے تو لاؤ ہم اسے چھوڑ ہی کیوں نہ دیں اور اس کی جگہ رومن یا دیوناگری رسم الخط اختیار کرلیں ۔ سوچنے کا یہ ڈھنگ افسوسناک ہے اور اس پر خطرناک بھی۔ رسم الخط محض کسی زبان کا لباس ہی نہیں اس کی زینت اور اس کی روح کا محافظ بھی ہے۔ اگر ہم نے موجودہ رسم الخط بدل ڈالا تو پچھلی تین چار صدیوں میں ہم نے علم و ادب کے میدان میں جو کچھ کیا تھا اسے خیرباد کہہ دیا۔ آپ جانتے ہیں کہ ترکی میں کیا ہوا؟ اتاترک مصطفیٰ کمال پاشا کے زمانے تک اردو کی طرح ترکی زبان بھی فارسی حروف میں لکھی جاتی تھی۔ ۱۹۲۴ء میں اتاترک نے اسے تَرک کرکے ترکی زبان کو رومن رسم الخط میں لکھنے کا حکم دے دیا۔ اس کے بعد کچھ اہم پرانی کتابیں نئے رسم الخط میں چھاپی گئیں ۔ لیکن آپ جانتے ہیں کہ صدیوں کے سرمائے کو منتقل کرنا آسان کام تو ہے نہیں ۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ان چند گنتی کی کتابوں کو چھوڑ کر یہ سارا ذخیرہ جوں کا توں فارسی رسم الخط میں لکھا اور چھپا ہوا کتب خانوں کے طاقوں پر رکھا کیڑوں کی خوراک بن رہا ہے۔ کبھی کوئی ریسرچ اسکالر یعنی محقق شوق جستجو میں ان کی ورق گردانی کرلے تو کرلے، ورنہ آج کوئی اُن کے نام تک نہیں جانتا۔ اگر ہم نے اردو کا رسم الخط بدل ڈالا تو باور فرمائیے کہ ہمارے علمی اور ادبی خزانے کا بھی یہی حشر ہوگا اور آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ یہ کتنا بڑا نقصان ہوگا۔
اردو رسم الخط کا یہ کتنا بڑا فائدہ ہے کہ اس کے جان لینے سے دو غیرملکی زبانیں ، فارسی اور عربی، سیکھ لینا آسان ہوجاتا ہے جو پورے وسط ایشیا، مغربی ایشیا اور شمالی افریقہ کی زبانیں ہیں ۔ یہ ممالک ہمارے ہمسائے ہیں ۔ ہمارے اُن کے صدیوں اور ہزاروں سال پرانے تہذیبی، سماجی، سیاسی، تجارتی تعلقات ہیں ۔ اور اب ہمارا ان کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ زبان کی مماثلت اور یکسانی کتنی مفید اور نتیجہ خیز ہوسکتی ہے اس کا تجربہ اُن اصحاب کو ہوگا جنہیں کبھی پردیس میں سفر کرنے کا موقع ملا ہے۔
 آخر ہم کیوں اس رسم الخط کو چھوڑیں ؟ اگر کسی کو یہ پسند نہیں تو نہ ہو۔ ہم پرائے شگون کیلئے اپنی ناک کیوں کٹوائیں ؟

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK