Inquilab Logo

حجۃ الوداع کے مزید نام حجۃ الاسلام ، حجۃ التمام اور حجۃ البلاغ ہیں

Updated: March 15, 2024, 12:19 PM IST | Molana Nadimul Wajidi | Mumbai

سیرت النبی ؐ کی خصوصی سیریز میں آج آپ ؐ کے حجۃ الوداع کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ حج کی فرضیت کے بعد یہ پہلا اور آخری حج تھا جو آپ ؐ نے ادا کیا ۔ حج کے اعلان کے بعد مدینہ کے اطراف سے بھی لوگ اس مبارک سفر کیلئے تیار ہوگئے۔

In Masjid al-Haram, at a short distance from Bait Allah, there is Maqam Ibrahim towards the east, which is also mentioned in Surah Baqarah. Photo: INN
مسجد الحرام میں بیت اللہ سے کچھ ہی دوری پر مشرق کی جانب مقام ابراہیم ہے جس کا ذکر سورہ بقرہ میں بھی آیا ہے۔ تصویر : آئی این این

 نبی کریم ﷺ کا حجۃ الوداع
حج؛ اسلام کے پانچ ارکان میں سے ایک رکن ہے جونو یا دس ہجری میں فرض ہوا، قرآن کریم کی آیت کر یمہ (ترجمہ) ’’اور اللہ کے لئے حج کرنا لوگوں پر فرض ہے جو بھی وہاں تک جانے کی استطاعت رکھتا ہو‘‘ (آل عمران: ۹۷) فرضیت حج کی دلیل ہے۔ یہ آیت کریمہ نو ہجری میں نازل ہوئی۔ (زاد المعاد: ۳/۵۹۵) 
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دس ہجری میں حج کیا۔ فرضیت کے بعد یہ آپﷺ کا پہلا اور آخری حج تھا، ہجرت سے قبل آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے متعدد حج کئے۔ حضرت جابر بن عبد اللہؓ روایت کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت سے قبل دو حج کئے ہیں، (سنن ابن ماجہ: ۲/۱۰۲۷، رقم الحدیث: ۳۰۷۶) بعض سیرت نگاروں نے لکھا ہے کہ ہجرت سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہر سال حج کیا کرتے تھے۔ فرضیت حج کے پہلے سال آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر صدیقؓ کو امیر الحج بناکر روانہ کیا، سن دس ہجری میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم بہ ذات خود حج کے لئے تشریف لے گئے، کتابوں میں اس حج کے چار نام ملتے ہیں، (۱) حجۃ الوداع (۲) حجۃ الاسلام (۳) حجۃ التمام (۴) حجۃ البلاغ۔ شارحین حدیث نے ان چاروں ناموں کی وجوہات بھی لکھی ہیں، عمدۃ القاری میں ملا علی قاریؒ لکھتے ہیں کہ اس حج کو حجۃ الوداع اس لئے کہا جاتا ہے کہ اس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو الوداع کہا تھا اور فرمایا تھا: لعلی لا القاکم بعد عامی ہذا، ’’شاید اس سال کے بعد میں تم لوگوں سے ملاقات نہ کرپاؤں ‘‘۔ حجۃ الاسلام اس لئے کہتے ہیں کہ یہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا پہلا حج تھا جو حج کے بہ حیثیت رکن اسلامی فرض ہونے کے بعد آپؐ نے ادا فرمایا۔ اس کو حجۃ التمام بھی کہا جاتا ہے اور وہ اس لئےکہ اس حج کے موقع پر قرآن کریم کی یہ آیت نازل ہوئی ’’آج میں نے تمہارے لئے تمہارا دین مکمل کردیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کردی اور تمہارے لئے اسلام کو دین کے اعتبار سے پسند کرلیا۔ ‘‘ (المائدہ:۳) حجۃ البلاغ اس لئے کہتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع پر متعدد خطبے ارشاد فرمائے تھے۔ آپؐ ہر خطبے کے آخر میں لوگوں سے دریافت فرماتے تھے: أَلَا ہَلْ بَلَّغْتُ أَلَا ہَلْ بَلَّغْتُ ’’کیا میں نے اللہ کا پیغام پہنچا دیا ہے۔ ‘‘
 (عمدۃ القاری شرح الصحیح البخاری: ۱۸/۳۶) 
حج کا اعلان
روایات میں ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج کا ارادہ فرمایا تو شہر مدینہ میں اور اس سے ملحق بستیوں میں یہ اعلان کرایا گیا کہ اس سال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حج کے لئے تشریف لے جائینگے۔ اس اعلان کے بعد مدینے کے باشندوں کی ایک بڑی تعداد نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج کرنے کا ارادہ کیا۔ مدینہ کے آس پاس سے بھی مسلمانوں کا ایک جم غفیر مدینہ پہنچ گیا۔ جس وقت آپؐ کی روانگی عمل میں آئی تا حدنگاہ آدمی ہی آدمی تھے، ہر شخص کی خواہش تھی کہ وہ آپؐ کو حج کرتا ہوا دیکھ لے اور اسی کے مطابق حج کے افعال ادا کرے۔ اس ہجوم میں ایسے لوگ بھی تھے جنہوں نے پہلی مرتبہ آپؐ کی زیارت کا شرف حاصل کیا تھا۔ اس مقدس سفر پر نکلنے والوں کی صحیح تعداد کیا تھی اس سلسلے میں کوئی حتمی قول نہیں ہے۔ امام ابوزرعہؒ نے چالیس ہزار کی تعداد بتلائی ہے، حافظ ابن قیمؒ فرماتے ہیں کہ اتنی بڑی تعداد میں لوگ شریک سفر تھے کہ ان کا شمار نہیں کیا جاسکتا تھا، بعض حضرات نے ایک لاکھ چوبیس ہزار تعداد بتلائی ہے، مگر یہ بھی محض اندازہ ہے، کوئی حتمی تعداد نہیں ہے، بات وہی صحیح ہے جو حافظ ابن قیمـ نے کہی ہے کہ بے شمار لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج کے لئے نکلے تھے۔ (زاد المعاد:۴/۱۴۷، التعلیق الصبیح: ۳/۱۹۲) 

یہ بھی پڑھئے:’’تمہارے پاس قبیلہ ٔعبد القیس کا وفد آرہا ہے، یہ اہل مشرق کے بہترین لوگ ہیں‘‘

مدینے سے روانگی
روانگی سے قبل آپ ﷺ نے حضرت ابودجانہ انصاریؓ کو مدینہ منورہ کا حاکم مقرر فرمایا، پچیس ذی قعدہ سن دس ہجری بروز ہفتہ ہزاروں صحابۂ کرامؓ کا عظیم الشان اور مبارک قافلہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قیادت وسیادت میں ظہر کی نماز مدینے میں پڑھ کر روانہ ہوا۔ آپؐ کے ساتھ تمام ازواج مطہراتؓ تھیں، آپؐ کی اکلوتی باحیات صاحبزادی حضرت فاطمہؓ بھی اس قافلے میں شامل تھیں، حضرت علی کرم اللہ وجہہ صدقات کی وصولیابی کے لئے یمن گئے ہوئے تھے ان کو بھی واپس بلا لیا گیاتھا، وہ واپس آکر سیدھے مکہ پہنچے اور آپؐ کے ساتھ حج کا فریضہ ادا کیا۔ عصر کی نماز آپؐ نے ذوالحلیفہ میں ادا فرمائی، کیوں کہ آپؐ مسافر تھے اس لئے آپ ؐنے عصر کی نماز میں دو رکعتیں پڑھیں، اسی مقام پر آپؐ نے رات گزاری، مغرب، عشاء، فجر اور دوسرے دن کی ظہر بھی آپؐ نے یہیں ادا کی، احرام کی نیت سے آپ نے ذوالحلیفہ میں ہی غسل فرمایا، اس کے بعد ام المؤمنین حضرت عائشہ الصدیقہؓ نے ایک مخلوط خوشبو جس میں مشک بھی شامل تھا آپ کے جسم اطہر پر ملی اور سر مبارک پر لگائی، اس کا اثر آپ کے سر اور داڑھی کے بالوں پر نمایاں ہورہا تھا، احرام پہننے سے پہلے نہ آپ نے بال دھوئے اور نہ کسی کپڑے وغیرہ سے اس کا اثر زائل کیا، اس کے بعد آپؐ نے احرام کی دو چادریں لیں، ایک کو پہن لیا اور دوسری کو اوڑھ لیا۔ احرام زیب تن کرنے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر کی دو رکعتیں پڑھیں، پھر مصلیٰ ہی پر بیٹھے بیٹھے حج وعمرہ کی نیت کی، اس سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے احرام کی نیت سے دو رکعتیں بھی پڑھیں۔ نافعؒ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عبد اللہ ابن عمرؓ جب مکہ مکرمہ کی طرف جانے کا ارادہ کرتے تو مسجد ذوالحلیفہ میں آکر دو رکعت نماز ادا کرتے پھر اونٹنی پر سوار ہوجاتے جب وہ سیدھی کھڑی ہوجاتی تو تلبیہ کہتے اور فرماتے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسے ہی کرتے دیکھا ہے۔ احرام زیب تن کرنے کے بعد آپ نے تلبیہ پڑھا: لَبَّیْکَ اَللّٰہُمَّ … الخ ’’حاضر ہوں، اے اللہ! میں حاضر ہوں، آپ کا کوئی شریک نہیں، میں حاضر ہوں اور تمام تعریفیں آپ کے لئے ہیں اور تمام نعمتیں آپ ہی کی عطا کی ہوئی ہیں اور اقتدار بھی آپ ہی کا ہے اس میں کوئی آپ کا شریک نہیں ہے۔ ‘‘صحابۂ کرامؓ نے بھی تلبیہ پڑھا، جب تک آپؐ نے احرام نہیں کھولا آپ تلبیہ پڑھتے رہے، صحابہ کی زبانوں پر بھی تلبیہ کے الفاظ جاری رہے، کبھی کوئی اس میں زیادتی یا کمی بھی کردیتا، آپ اس پر کوئی نکیر نہ فرماتے۔ (صحیح البخاری: ۲/۱۳۸، رقم الحدیث: ۱۵۴۹، سنن ابوداؤد: ۲/۱۸۲، رقم الحدیث: ۱۹۰۵، زاد المعاد: ۲/۱۴۷) 
عمرہ کی ادائیگی
ذوالحلیفہ سے چل کر حج کا یہ مقدس کارواں روحاء پہنچا جو مدینے سے دو منزل کے فاصلے پر ہے۔ کچھ دیر قیام کے بعد یہاں سے کوچ ہوا اور قدید پہنچا، وہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک ایسی عورت کے پاس سے گزرے جو اپنے ہودج میں شیر خوار بچے کو گود میں لئے بیٹھی تھی، اس نے عرض کیا: یارسول اللہ! کیا یہ بھی حج کرے گا؟ آپ نے فرمایا: ہاں ! اور اس کا اجر تمہیں ملے گا۔ (صحیح مسلم: ۲/۹۷۴، رقم الحدیث: ۱۳۳۶) عسفان پہنچ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا: اے ابوبکرؓ! یہ کون سی وادی ہے، انہوں نے عرض کیا: یارسول اللہ! یہ وادیٔ عسفان ہے۔ فرمایا: یہاں سے ہود اور صالح علیہما السلام حج کا تلبیہ پڑھتے ہوئے گزرے تھے۔ (مسند احمد: ۳/۴۹۵، رقم الحدیث: ۲۰۶۷) یہاں سے چل کر آپ ؐ قبیلہ ٔ خثعم میں پہنچے، وہاں بھی ایک عورت نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! میرے باپ پر حج فرض ہے، مگر وہ بوڑھے اور کمزور ہیں، سواری پر بیٹھ نہیں سکتے، کیا میں ان کی طرف سے حج کرسکتی ہوں ؟ آپؐ نے فرمایا: ہاں ! مقام سرف میں پہنچ کر حضرت عائشہؓ کے ایام شروع ہوگئے، وہ اس خیال سے رونے لگیں کہ اب حج کیسے ہوگا۔ آپؐ نے انہیں روتا ہوا دیکھا تو فرمایا کہ اے عائشہ! اللہ نے بنی آدم کی بیٹیوں کے لیے یہ چیز لکھ دی ہے، تم حاجیوں کی طرح تمام کام کرو، بس طواف مت کرنا، مطلب یہ ہے کہ طواف پاک ہوکر کرلینا۔ (صحیح البخاری: ۱/۶۸، رقم الحدیث: ۳۰۵، صحیح مسلم: ۲/۸۷۳، رقم الحدیث: ۱۲۱۱) 
غروب آفتاب کے بعد آپؐ نے سرف سے مقام طوی کا رخ فرمایا، وہاں آپؐ نے رات گزاری، آپ پچیس ذی قعدہ کو مدینہ سے چلے تھے، طوی تک یہ فاصلہ نو دنوں میں طے ہوا۔ آج ذی الحجہ کی چار تاریخ تھی، فجر کی نماز کے بعد آپؐ نے غسل فرمایا، اور آگے چل پڑے، دن چڑھے آپ جحون کی طرف سے مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے، جحون مکے کا بالائی حصہ ہے۔ (زاد المعاد: ۲/۲۳۵)
مکہ مکرمہ پہنچنے کے بعد آپؐ نے سیدھے مسجد حرام کا رخ کیا، سب سے پہلے آپؐ رکن یمانی پر پہنچے، وہاں آپ نے استلام کیا، یعنی اسے بوسہ دیا، پھر اپنی اونٹنی پر بیٹھ کر خانۂ کعبہ کا سات مرتبہ طواف کیا، آپؐ جب بھی حجر اسود کے سامنے تشریف لاتے اپنی چھڑی سے اس کا استلام کرتے یعنی چھڑی سے حجر اسود کو چھوتے، پھر اسے چوم لیتے، ساتوں چکروں میں آپ نے ایسا ہی کیا، تین ابتدائی چکروں میں آپؐ نے رمل کیا، یعنی اونٹنی کو قدرے تیز رفتاری سے چلایا اور آپؐ اس پر تھوڑا تن کر بیٹھے، طواف کے دوران آپ کی چادر بغل کے نیچے سے نکل کر دائیں کاندھے پر پڑی ہوئی تھی، دوران طواف آپ نے کوئی مخصوص ذکر نہیں کیا، البتہ دونوں رکنوں کے درمیان آپ یہ دُعا پڑھ رہے تھے: رَبَّنَا اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّفِی الْآخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّقِنَا عَذَابَ النَّارِ۔ ’’اے پروردگار! ہم کو دنیا میں بھی بھلائی دے اور آخرت میں بھی بھلائی عطا فرما اور دوزخ کے عذاب سے ہم کو بچا۔ ‘‘
طواف سے فارغ ہوکر آپ مقام ابراہیم پر تشریف لے گئے اور یہ آیت پڑھی (ترجمہ):
 ’’اور وہ وقت یاد کرو جب ہم نے بیت اللہ کو لوگوں کے لئے ایسی جگہ بنایا جس کی طرف وہ لوٹ لوٹ کر جائیں اور جو سراپا امن ہو، اور تم مقام ابراہیم کو نماز پڑھنے کی جگہ بنالو۔ ‘‘(البقرۃ: ۲۵) اس کے بعدآپ نے اونٹنی کو اپنے اور بیت اللہ کے درمیان بٹھایا اور دو رکعت نماز ادا فرمائی، پہلی رکعت میں آپ نے قل یایہا الکافرون اور دوسری میں قل ہو اللّٰہ پڑھی، نماز سے فارغ ہوکر آپ نے حجر اسود کو بوسہ دیا اور صفاکی طرف چل پڑے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK