Inquilab Logo

سیاسی بیداری ہی نہیں بلکہ طلبہ سیاسی انقلاب لانے میں بھی کلیدی کردار ادا کرسکتے ہیں

Updated: April 28, 2024, 4:40 PM IST | Mubarak Kapdi | Mumbai

ہندوستان کے تناظر میں اگر یہ دیکھنا ہو کہ سیاست کےمیدان میں طلبہ کس طرح انقلاب برپا کرسکتے ہیں تو ۱۹۷۴ء میں جے پرکاش نارائن کی تحریک کا مطالعہ کرلیں۔

Our students can make any changes if they want. Photo: INN
ہمارے طلبہ چاہیں تو کوئی بھی تبدیلی لاسکتے ہیں۔ تصویر : آئی این این

اسکولوں کی سیاسی سائنس کی کتاب کے دیباچے میں لکھا ہے: ’’انتخابی عمل کو جمہوریت کی جڑیں مضبوط کرنے اور مساوات و مذہبی رواداری کیلئے بطور ہتھیار کیسے استعمال کیا جائے، اس ضمن میں ہم طلبہ میں بیداری پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ ‘‘آگے یہ بھی لکھا ہے کہ’’ مذہبی تصادم اور اُس سے پیدا ہونے والی انتہا پسندی ہندوستانی جمہوریت کے سامنے ایک بڑا چیلنج ہے۔ ‘‘سیاسی سائنس کے مرتّبین کے دعوے اور آج کے سیاسی منظرنامے کا تضاد ہر کسی پر عیا ں ہے۔ اِن حالات میں ہمارے اساتذہ کی ذمہ داریاں اب کئی گنا بڑھ جاتی ہیں : (الف)وہ سیاسی سائنس کے نصاب میں موجودہ حکومت کے سرکاری ماہرینِ تعلیم کی پینترے بازی اور دھاندلیوں کو سمجھیں (ب) خصوصاً اس مضمون کے ہر سبق میں بین السطور کو سمجھیں (ج) نصاب اور امتحانی پرچے سے ہٹ کروہ طلبہ کی ذہن سازی کریں (د) ملکی اور مِلّی سیاست کی تجزیہ کاری طلبہ کو بخوبی سکھائیں (و) حالاتِ حاضرہ پر طلبہ کو اپنے نوٹس (واٹس اپ یونیورسٹی کے کمنٹس نہیں ) لکھنا سکھائیں۔ 
نوجوانوں کا سیاسی استحصال
 غریبی، جہالت اور بے روزگاری کی بنا پر ساری سیاسی پارٹیوں کے لیڈران ہمیشہ ہی سے ہمارے نوجوانان کا استحصال کرتے آئے ہیں۔ بے سمتی، بے روزگاری اور اُسی بنا پر ذہنی انتشار کے شکار ہمارے طلبہ بآسانی اُن سیاستدانوں کے چنگل میں پھنستے رہے ہیں۔ اُن میں سے کئی طلبہ کو یہ بھی باور کرایا جاتا رہا ہے کہ آگے چل کر وہ بھی سیاست کو اپنا کریئر بناپائیں گے۔ سیاسی بساط پر آج ہمارے نوجوانوں کی پوزیشن ملاحظہ کریں :
 (۱) ہمارے گریجویشن /پوسٹ گریجویشن کےطلبہ کو ’ایجنٹ‘ کا لیبل لگاکر پولنگ بوتھ پر کھڑا کیا جاتا ہے (۲) الیکشن کے جلوس میں ’زندہ باد، مُردہ باد‘کے نعرے لگانے کیلئے ۲۰۰/۳۰۰؍روپے یومیہ کے کرائے پر مامور کیاجاتا ہے (۳)الیکشن کے دوران اُنہیں پارٹی کے دفتر میں روزانہ بریانی کھلائی جاتی ہے اور اُنہیں یقین دلایا جاتا ہے کہ اب اُن کے دن پھر گئے ہیں اور اب وہ دال روٹی بھول جائیں، اب اُنہیں روزانہ عمدہ کھانا کھلایا جائے گا۔ (۴)چند نوجوانوں کو نیتائوں کے گلے میں ہار پہنانے کیلئے مقررکیا جاتا ہے (۵) الیکشن بینر کے کسی کونے میں اُن کی تصویر بھی شائع کی جاتی ہے اور اُنہیں یقین دلایا جاتا ہے کہ وہ بھی اب باقاعدہ لیڈر بن گئے ہیں۔ (۶) ہمارے کسی نوجوان کوکسی لیڈر نے درسی کتاب کا کوئی درس یاد کرایا ہو یا نہ کرایا ہو البتہ اُسے چند نعرے بڑے اہتمام سے یاد کرائے جاتے ہیں، جیسے’’دیش کا نیتا کیسا ہو، ہمارے نیتا جیسا ہو‘‘.... یا پھر ’’جب تک سورج چاند رہے گا، ہمارے نیتا کا نام رہے گا‘‘(۷) اگر کسی پارٹی کے ہورڈنگ اور بینر دوسری پارٹی کے لوگ ہٹادیں تو اُس پارٹی کے لیڈران اپنی جان کی بازی لگانے کیلئے ہمارے نوجوان ہی کا استعمال کرتے ہیں (۸) اکثر دیکھا گیا ہے کہ ووٹنگ لسٹ میں دھاندلی، بوگس ووٹنگ، بوتھ پر قبضہ اور ای وی ایم میں گڑ بڑی جیسے معاملات میں جان کی بازی لگانے کیلئے بھی اِنہی نوجوانوں کو اُکسایا جاتاہے۔ 

یہ بھی پڑھئے: عزیز طلبہ! بیوروکریٹس کی مدد سے ہمارے سیاست داں تعلیمی نظام اور معیشت و معاشرت کی سمتیں طے کرتے ہیں

ہمارے طلبہ اور ہمارے نوجوانوں کے استعمال اور استحصال کے اس منظرنامے کو دیکھ کر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا طلبہ کو سیاست میں حصہ لینا چا ہئے؟ اس طرح کا سوال جب لیڈران سے کیا جاتا ہے تو وہ نوجوانوں سے کہتے ہیں کہ’’نوجوانو! یہ سیاست تو ایک گندی نالی ہے، آپ لوگوں کو اس میں نہیں آنا چا ہئے‘‘ (یعنی اس گندگی کیلئے وہی موزوں ہیں ؟) ’’آپ لوگ پڑھائی پر دھیان دیں ‘‘(یعنی وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ اُنھوں نے پڑھائی پر دھیان نہیں دیا تو دیکھو وہ کتنے بگڑ گئے؟)’’خوب دل لگاکر پڑھائی کرو، پوری یکسوئی کے ساتھ‘‘ (یعنی آپ کو یکسوئی میں خلل آگیا اور آپ لوگ ہماری بدعملی اور بے عملی پر دھیان دینے لگے تو ہمیں سیاست سے بے دخل کردوگے؟)
 اس ملک میں طلبہ کے سیاست میں حصہ لینے کی تاریخ کا آغاز ۱۹۰۵ء میں تقسیمِ بنگال کی شورش سے ہوا تھا، جب برطانوی حکومت کے خلاف پہلی مرتبہ طلبہ کو بغاوت کیلئے آواز دی گئی۔ اُس کے بعد رولٹ ایکٹ اور جلیان والا باغ سانحہ سے طلبہ میں کافی بے چینی رہی۔ ۱۹۷۴ء میں سیاسی بدعنوانیوں کے خلاف جے پرکاش نارائن نے بہار کے طلبہ کو یکجا کیا اور طلبہ کی ایک نتیجہ خیز تحریک ملک بھر میں نمایاں ہوئی البتہ سنگھ پریوار نے اپنی طلبہ کی تنظیم اے بی وی پی کے ذریعے سارے ملک کی تعلیمی فضا میں صرف زہر گھولنے کا کام کیااور پھر کیمپس ہی میں زہر اُگلنے والے عناصر تربیت پانے لگے اور وہی عناصر اسمبلیوں اور پارلیمنٹ تک پہنچنے لگے۔ 
آج طلبہ کیا کریں ؟
 آج ہمارے طلبہ ہمارے ملک کی سیاست سے بخوبی واقف ہیں، اُس کاتجزیہ اور اُس بناء پر ملک کے سیاسی، سماجی و معاشی منظر نامے بھی سمجھ لیں لیجئے:
(۱)برسرِ اقتدار پارٹی اشتہاری کمپنی سے ۴۰۰؍پار کا نعرہ لکھوا لائی اور بھولے بھالے عوام کو ہپناٹائزکرنے پر آمادہ ہے کہ واقعی اُسے ۴۰۰؍ سے زائد نشستیں ملنے والی ہیں۔ 
 (۲)سبھی جانتے ہیں کہ برسرِ اقتدار پارٹی کی حالت دِگر گُوں ہے اور اب کی بار صرف ’ہار ہی ہار‘ہے۔ 
 (۳) ۴۰۰؍پار کا نعرہ صرف اور صرف ملک کے آئین کی تبدیلی کیلئے دیا گیا ہے اور وہ ان کے پرانے لیڈروں کا خواب ہے۔ آئین میں یکسانیت اور رواداری کا درس ہے جو اُس پریوار کو قطعی منظور نہیں ہے۔ وہ تو بہرقیمت آئین کی جگہ پر منوسمرتی نافذ کرنا چاہتے ہیں جس میں لکھاہے کہ ۱۰؍فیصد اعلیٰ ذات کے لوگوں کے علاوہ باقی ۹۰؍فیصد افراد کے سائے سے بھی دور رہنا چاہئے۔ 
 (۴)نوجوانو!آئین میں تبدیلی کئے بغیر بھی کئی ساری ایسی تبدیلیاں لائی جاچکی ہیں جو آئین کے خلاف ہیں مثلاً کئی اداروں کی نجکاری کی گئی تاکہ وہاں پر ملازمتوں میں ریزرویشن ختم ہوجائے۔ 
 (۵)سوِل سروسیز جیسے اہم امتحانات کے طریقۂ کار کو سبوتاژ کرنے کی مکمل کوشش کی گئی اور براہِ راست داخلے کے دروازے کھولے گئے تاکہ اُن کے پسندیدہ اور ہم خیال نوجوانوں کو بیوروکریٹ بنایا جائے۔ 
 (۶) ہندوستانی دفاعی خدمات میں داخلہ پانا اور اعلیٰ عہدے حاصل کرنا ملک بھر کے کئی نوجوانوں کا برسوں سے خواب رہا ہے۔ موجودہ حکومت نے اَگنی ویر اسکیم کے ذریعے نوجوانوں کے سارے خواب چکنا چور کرنے کا منصوبہ بنایا کہ چار برس تک اگنی ویر کے ذریعے وہ دفاعی سروسیز میں کام کریں۔ چند لاکھ روپے لے کر وہ ریٹائر ہوجائیں اور پھر زندگی بھر بیکار رہیں یا کسی بلڈنگ کے چوکیدار بن جائیں۔ 
 (۷)دوستو!آج نفرت کا ماحول کچھ اس درجہ رائج ہوچکاہے کہ ملک کا سب سے بڑا سربراہ ۸۷۰؍سال سے اس ملک میں بسی قوم کو درانداز یا گھس پیٹھئے کہہ رہا ہے۔ اُس کی لغت میں ’م‘ سے مرغی، مٹن، مچھلی، مسلم اور مندر وغیرہ الفاظ تو ہیں البتہ مہنگائی نہیں اور منی پور بھی نہیں۔ 
 (۸)آج یہاں سائنس کی دُرگت یہ ہوچکی۔ کہا جاتا ہے کہ بادلوں میں ریڈار کا اثر نہیں ہوتا، نالی کے کیچڑ سے گیس تیار کی جاتی ہے اور ۵؍ہزار سال سے اس ملک میں پلاسٹک سرجری ہوتی رہی ہے۔ معیشت کی جانکاری کاحال یہ ہے کہ روپے کی قیمت گھٹنے کے بجائے ڈالر کی قیمت بڑھ رہی ہے ....یہ کہا جاتا ہے۔ 
 نوجوانو! ۱۴۰؍کروڑ کی آبادی والی دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت نزع کے عالم سے گزر رہی ہے۔ اس وقت آپ خاموش تماشائی بنے نہیں رہ سکتے۔ آپ کو اس ملک کی ہزاروں سال پُرانی تہذیب، مذہبی ہم آہنگی اور رواداری کی حفاظت کرنا ہے، معیشت و معاشرت کو بچانا ہے، اس کا آغاز اس طرح بھی ہوسکتا ہے کہ آپ متحرک ہوجائیں اور دیکھیں کہ (الف) آج بھی۴۰؍فیصد لوگ ووٹ کیوں نہیں دیتے؟ (ب) نوجوانوں میں ووٹنگ کا رُجحان کیسے بڑھے (ج) ہماری قوم کے اکابرین سودے بازی کرکے جمہوریت کے سب سے بڑے حق و فرض کو ہم سے اُچک کر تو نہیں لے جارہے ؟

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK