Inquilab Logo

ہمارے طلبہ تاریخ پڑھیں،سمجھیں،اس پرغور کریں ،اس سےسبق لیں اور پھر اپنی منزل کاتعین کریں

Updated: September 17, 2023, 3:19 PM IST | Mubarak Kapdi | Mumbai

فی زمانہ ہر قوم کا نوجوان ذہنی کشمکش کا شکار دکھائی دیتا ہے۔ آٹھویں / نویں جماعت سے وہ پڑھائی کے معاملات کے باعث ذہنی تناؤ کا شکار ہے۔

Dr. Abdul Kalam also made Tipu Sultan his idol, but not by keeping his status, but by adopting his technique. Photo: INN
ڈاکٹر عبدالکلام نے بھی ٹیپو سلطان کو اپنا آئیڈیل بنایا تھا لیکن اسٹیٹس رکھ کر نہیں بلکہ ان کی تکنیک اپنا کر...۔ تصویر:آئی این این

فی زمانہ ہر قوم کا نوجوان ذہنی کشمکش کا شکار دکھائی دیتا ہے۔ آٹھویں / نویں جماعت سے وہ پڑھائی کے معاملات کے باعث ذہنی تناؤ کا شکار ہے۔ ایس ایس سی کے بعد وہ اپنے کریئر کیلئے پریشان ہے، گریجویشن ہوا تو ملازمت کیلئے کوشاں ہے۔۲۰؍ سے ۲۵؍سال کی عمر میں وہ سب سے بڑی ذہنی پریشانی کا شکار ہے اور وہ ہے کسی شارٹ کٹ یا جادوئی چراغ کی تلاش۔ بس پھر کیا ہے اتنی ساری ذہنی پریشانیوں کے شکار نوجوانوں کو بہکانا، بھٹکانا کہاں مشکل ہے؟رہی سہی کسر سوشل میڈیا پوری کر رہا ہے۔ہماری قوم کا نو جوان البتہ کچھ زیادہ مسائل سے دوچار ہے۔ فرقہ پرستوں کو نفرت کا بازار گرم کر کے اقتدار حاصل کرنے کا معیوب فارمولہ کیا ہاتھ آیا، سارا سماجی و معاشرتی تانا بانا ہی بکھرنے لگا اور ہمیں فکر یہ ہے کہ ہمارا نوجوان ،ہمارا طالب علم ان حالات کا شکار ہے اور وہ مسلسل اپنے ہدف سے بھٹک رہا ہے۔ اُس کے سارے منصوبے ٹوٹ رہے، بکھر رہے ۔ اس ضمن میں ہم یونیورسٹی کے اپنے طلبہ سے مخاطب ہیں :
 ہماری قوم کی قیادت کا حال جگ ظاہر ہے۔ گزشتہ دو صدیوں میں تاریخ نے ہمیں اپنا قائد اعظم منتخب کرنے کا دو بار موقع فراہم کیا تھا۔ پہلی بار ۱۸۵۷ء میں جب قوم کے ہاتھوں سے اقتدار لُٹ چکا تھا۔ اس وقت ایک شخص اُٹھا جو آثار الصنائد سے قوم کی تعمیر نو کیلئے آواز دینے لگا، وہ سر سیّد تھے۔ ہم نے انہیں اپنا قائد اعظم ماننے سے انکار کیااور ایک ’تہذیب الاخلاق‘ کے جواب میں درجن بھر رِسالے جاری کئے تاکہ علی گڑھ تحریک کو روکا جاسکے۔ اس ضمن میں ہمیں اعتراف ہے کہ سرسیّد سے ایک فاش غلطی یہ ہوئی تھی کہ اُنھوں نے قرآن کی تفسیر بھی لکھی جو اُن کا علاقہ نہیں تھا، اس عمل میں اُن سے کچھ لغزشیں ہوئیں اور مذہبی طبقہ اُن سے ناراض ہوا۔
  جدو جہد آزادی کے دوران تاریخ نے ہمیں دوسرا موقع دیا اپنا قائد اعظم منتخب کرنے کا ! اس بار بھی ہم سے بھول ہوئی۔سُوٹ و سگار والے بیرسٹر جناح کو اس قوم نے سنجیدگی سے نہیں لیا ہوتا اگر حکیم الامّت شاعرِ مشرق نے ’مثالی ریاست‘ کا خواب پورا کرنے میں ونایک دامودر ساورکر کے دو قومی نظریے کو شرف قبولیت نہیں بخشا ہوتا۔ علّامہ تو بہت سارے ہوئے، اقبال صرف ایک ہی تھا مگر وہ آخر یہ سمجھنے میں کیوں کر چوک گئے کہ جغرافیائی لکیریں بے حد طاقتور ہوتی ہیں ۔ یہ جغرافیائی لکیریں تاریخ مٹاسکتی ہیں ، من گھڑت تاریخ مرتّب کرسکتی ہیں اور پھر مفسر قرآن، مد بّر قوم، الہلال و البلاغ کے مبلغ مولانا آزاد کو اپنا قائد اعظم ماننے سے اس قوم نے انکار کیا اور اس بھاری بھول کی قیمت ہم آج بھی قسطوں میں ادا کر رہے ہیں ۔ 
 ہماری قوم کے نوجوانوں میں اتنا تو سیاسی شعور اور حکمت کا مادہ موجود رہنا چاہئے کہ وہ برِّ صغیر کے بدلے ہوئے منظر نامے کو سمجھ سکے۔ اب یہ کہاں کی دانشمندی ہے کہ ہمارے نوجوان اورنگ زیب کی تصویر کو اپنے سوشل میڈیا اکاونٹ پر اسٹیٹس کے طور پر رکھیں ؟ اور نگ زیب کی کوئی خوبی اپنانی تھی یا اُن کی تشہیر کرنی تھی تو وہ تھی اُن کی سادگی کہ وہ ایک شہنشاہ ہوتے ہوئے بھی ٹوپی سی کر اپنا گزارہ کرتے تھے اور قرآن پاک کی کتابت بھی کرتے تھے البتہ افغانستان سے برما تک کی وسیع و عریض سلطنت کا شہنشاہ ۲۷؍ برس تک صرف مرہٹوں کی سرکوبی کیلئے دکن میں رُکا رہا۔ مرہٹوں کی زیر زمین قلعوں کی تعمیر اور گوریلا جنگ کی حکمت عملی کی اسٹڈی کرنے کیلئے ۲۷؍ سال کی ضرورت نہیں تھی۔ ٹیکنا لوجی یعنی صرف فن تعمیرات کا نام نہیں ، دیگر ٹیکنالوجی میں مغلوں کی پسماندگی تاریخ سے پوشیدہ نہیں ہے (اکبر کے نورتنوں میں بیربل جیسا مسخرہ بھی تھا مگر کوئی سائنس داں نہیں تھا) ہندوستان میں پرنٹنگ پریس کی تکنیک اور نگ زیب کے زمانے سے ڈھائی صدی پہلے شروع ہوئی مگر قرآن پاک کی چھپائی شروع نہیں ہوئی۔ آج ہمارے نوجوانوں کو یہ عہد کرنا ہے کہ ٹیکنالوجی کو اپنا کر دین کی تبلیغ و اشاعت میں حصہّ لیں ۔اسی کے ساتھ اس بات کو بھی ذہن میں رکھیں کہ تقسیم ہند کے بدلے ہوئے منظر نامے میں اورنگ زیب وغیرہ کو اسٹیٹس بنانا فرقہ پرستوں کو شر انگیزی کا بھر پور موقع دینا ہے۔رہا سوال ہمارے دوسرے تاریخی حکمرانوں کو اب رول ماڈل بنانا یا سوشل میڈیا پر اپنا اسٹیٹس بناکر فخر کرنا، اُن میں سب سے قابل ذکر حکمران بلاشبہ ٹیپو سلطان تھے۔ اُن کو تو اپنا رول ماڈل موجودہ دَور کے ہمارے قابل فخر سائنس داں اے پی جے عبدالکلام نے بھی بنایا تھا مگر ٹیپو سلطان کی تصویر کو اپنا اسٹیٹس بناکر یا اُن کی برسی یا عرس مناکر نہیں بلکہ اپنی آپ بیتی’ آتش پرواز‘ میں اس کا اعتراف کرکے کہ میزائل کی تھیوری اُنھیں ٹیپو سلطان کے نقشوں سے ملی۔جی ہاں ! جب انگریز برطانیہ سے اپنی توپیں لے کر آئے تھے اُس وقت ایک مسلم حکمراں میزائیل کی تخلیق کا منصوبہ کر رہا تھا اور تاریخ گواہ ہے کہ واحد مسلم حکمراں جو انگریزوں کیلئے ناقابل تسخیر تھا ، وہ تھا ٹیپو سلطان تھے اور اُن کی موت انگریزوں کی توپوں سے نہیں ہوئی تھی بلکہ وہ اپنوں کی مخبری سے ہارے تھے۔ آج بھی ہمارے طلبہ ٹیپو سلطان کو اپنے سوشل میڈیا کا اسٹیٹس بنانے کے بجائے یہ عہد کرلیں کہ وہ ٹیکنالوجی، سائنس اور نیو کلیئر فزکس میں نمایاں ترقی کرکے ٹیپو سلطان کو خراج عقیدت پیش کریں گے۔ 
 اگر ہمارے نوجوان سوجھ بوجھ، اپنے ہدف کے تئیں سنجیدگی اور حکمت کا ثبوت نہیں دیتے اور اوچھے و سستے ردِّ عمل سے پرہیز نہیں کرتے تو وہی ہوگا جو آزادی کے ۷۷؍برسوں سے ہوتے آیا ہے: فساد، یک طرفہ پولیس کی کاروائی اور گرفتاریاں اور اب تو بلڈوزر بھی۔ ریلیف کمیٹیاں اور تعلیمی دھارا سے کٹ کر مایوسی اور ڈپریشن کا شکار ہوتے ہمارے طلبہ۔ کبھی تو ہمارے جمعہ کے خطبات میں ہمارے طلبہ کی اس سلسلے میں کوئی رہنمائی ہو!
جوشیلا اورجذ باتی پن: 
 ہماری نام نہاد قیادت نے نوجوانوں کو ہمیشہ استعمال کیا : (۱) نعرے لگانے کیلئے (۲) ووٹنگ ٹیبل پر بیٹھنے کیلئے (۳) بیلٹ بوتھ کو لوٹنے کیلئے (۴) افطار پارٹیوں میں نیتاؤں کو ٹوپی پہنانے کیلئے (۵) جلسے جلوس میں سیٹی بجانے اور ڈی جے کی میوزک پر ڈانس کرنے وغیرہ کیلئے۔ ہمارے نوجوانوں کی بے کاری و بے ہنری کا سب سے زیادہ استحصال ہمارے قائدین ہی نے کیا ہے۔ کوئی تعلیمی یا کریئر کی کوئی ویڈیو فلم دکھانے کا بھی انہیں خیال نہیں آتا البتہ کسی فرقہ وارانہ فساد کی فلم دکھا کر انہیں جذباتی و جوشیلا بنانے سے وہ نہیں چُوکتے۔ انہیں یہ بھی احساس نہیں رہتا کہ ان فلموں کا ان نو جوانوں پر کیا اثر ہوگا اور اس کے ردعمل کے طور پر وہ کیا کر بیٹھیں گے۔ انہیں اس سے پڑی نہیں ہے کیوں کہ وہ جھگی جھوپڑی یافٹ پاتھ پر رہنے والے بے نام نوجوانان ہیں ، ان کے اپنے بیٹے نہیں ہیں۔
 میڈیا:
 پرنٹ میڈیا، الیکٹرا نک میڈیا اور اب سوشل میڈیا سے یہ بڑا آسان ہو گیا ہے کہ پلک جھپکتے ہی ساری دنیا کی اتھل پتھل سے واقفیت ہو سکے مگر اس کا افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ آخر الذکر میڈیا کے ذریعے نہایت آسانی سے دنیا بھر کی دہشت گرد تنظیمیں نو جوانوں کو اپنے دام میں پھنسانے لگی ہیں ۔ اُن دہشت گرد تنظیموں کو پتہ ہے کہ اس نوجوان کی جیب خالی ہے، وہ بڑی عجلت میں ہے، اسے آناً فاناً دھن دولت کمانی ہے۔ اس کے آبا و اجداد جو نہیں کر سکے وہ ا سے چند برسوں میں کر دکھانا ہے لہٰذا اس نوجوان کو ورغلانے کیلئے سوشل میڈیا سب سے آسان ذریعہ ہے۔ ان نوجوانان کو ورغلانے کیلئے ان تنظیموں کے پاس لکھی پڑی اسکرپٹ کے چند ڈائیلاگ ہیں ، سن لیجئے: (۱) یہ دنیا چند روزہ ہے (۲) ایک دن مرنا ہی ہے (۳) بستر پر بیماری سے کیوں مرنا ؟ (۴) صحیح وقت پر مرنا (۵) ایسا مرنا کہ لوگ یاد کریں اور (۶) داخلہ سیدھا جنّت میں ہو۔ اُن تنظیموں کے پاس مرنے کے سارے فارمولے تیار ہیں البتہ وہ تنظیمیں ہمارے نوجوانوں کو جینے کا کوئی سلیقہ سکھانے کو تیار نہیں ہیں ۔نوجوانو! بہر حال اپنی سوجھ بوجھ، ادراک اور حکمت کا استعمال آپ کو کرنا ہے ۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK