Inquilab Logo

پنکج اُدھاس اور ظفر گورکھپوری: قلم اور آواز کا جادوئی سنگم

Updated: March 04, 2024, 4:08 PM IST | Imtiaz Gorakhpuri | Mumbai

اس مضمون میں دونوں شخصیات کے آپسی تعلق کے ساتھ ساتھ پنکج ادھاس کی انسان دوستی اورزمین سے جڑے رہنے کے ان کے مزاج پر روشنی ڈالی گئی ہے۔

Renowned poet Zafar Gorakhpuri and ghazal singer Pankaj Udhas were inseparable for each other. Photo: INN
معروف شاعر ظفر گورکھپوری اور غزل سنگر پنکج ادھاس ایک دوسرے کیلئے لازم و ملزوم تھے۔ تصویر : آئی این این

یہ اُن دنوں کی بات ہے جب قوالی کازور رفتہ رفتہ کم ہو رہا تھا اور غزل گائیکی کو فروغ مل رہا تھا۔ یہ دَور ۸۰ء کی دہائی کی ابتداء کا تھا۔ اس دوران کچھ نئے غزل سنگرس منظر عام پر آئے تھے، ان گلوکاروں نے موسیقی کی دنیا میں دھوم مچادی تھی۔ انہی میں ایک ایک نمایاں نام پنکج اُدھاس کاتھا جو ایک گجراتی خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کی مادری زبان گجراتی تھی لیکن وہ اردو غزلوں کے نہ صرف بہترین سنگر ثابت ہوئے بلکہ انہیں اردو زبان سے عشق بھی تھا۔ پنکج ادھاس کےبڑے بھائی منہر اُداس جو کہ پہلے ہی موسیقی کی دنیا میں قدم رکھ چکے تھے اور نامور گلوکار کہلانے لگے تھے، اُن سے متاثر ہو کر پنکج ادھاس نے ان ہی کی سرپرستی میں غزل گائیکی کی دنیا میں قدم رکھا۔ یہ بالکل مختلف میدان تھا جس میں کامیابی مشکل بھی تھی کیوں کہ غزلوں کو پسند کرنے والے اور اس کا ذوق رکھنے والوں کا حلقہ ملک میں بہر حال محدود تھا لیکن پنکج ادھاس نے اس خارزار کو منتخب کیا اور نہایت کامیاب بھی رہے۔ 
 والد گرامی ظفر گورکھپوری سے پنکج ادھاس کا خاص تعلق رہا۔ ان کی آواز میں جو پہلی غزل ریکارڈ ہوئی اس کے البم کا نام ’رائل البرٹ ہال‘ تھا۔ غزل کے مصرعے کچھ یوں تھے۔ 
دن کو بھی اتنا اندھیرا ہے مرے کمرے میں 
سایہ آتے ہوئے ڈرتا ہے مرے کمرے میں 
در بدر دن کو بھٹکتا ہے تصوّر تیرا 
ہاں مگر رات کو رہتا ہے میرے کمرے میں 
یہ غزل خاصی مقبول ہوئی اور ساتھ ہی پنکج ادھاس نے بھی لوگوں کے دلوں میں اپنی گائیکی کے ذریعے جگہ بنالی۔ والد صاحب اس سے پہلے بھی کئی گلوکاروں کے لئے کلام لکھ چکے تھے جن میں طلعت محمود، سی ایچ فاطمہ، صابری برادران، یوسف آزاد اور دیگر کئی معروف نام شامل ہیں۔ ’رائل البرٹ ہال‘ البم کی کامیابی کے بعد پنکج ادھاس نے والد صاحب تک پیغام پہنچا یا کہ ’’ ظفر بھائی ایک نئے البم کی تیاری کر رہا ہوں جس کے سلسلے میں آپ سے ملاقات کرنا چاہتا ہوں۔ اگر ممکن ہو تو غریب خانے پر تشریف لائیں۔ ‘‘ ظفر صاحب نے یہ پیغام ہماری والدہ کو بتایا اور کہا کہ میں ملاقات کے لئے ان کی رہائش پر جا رہا ہوں، دعا کریں کہ یہ سلسلہ قائم و دائم رہے۔ دونوں کی پہلی ملاقات بڑی دلچسپ اور یادگار رہی۔ ملاقات کے بعد ظفر صا حب پنکج ادھاس کی شخصیت سے بے حد متاثر ہوئے۔ ان کا کہنا تھا کہ اتنا خوبصورت نوجوان، اتنا شیریں لہجہ، اتنی نفیس اردو، اتنا ز مینی مزاج بہت کم لوگوں میں دیکھنے کو ملتا ہے۔ پہلی ملاقات یوں تھی گویا برسوں سے ایک دوسرے کو جانتے ہوں۔ ظفر صاحب کو یہ تمام باتیں اس لئے عجیب لگ رہی تھیں کیونکہ ان کا برسوں تک قوالوں سے معاملات کا تجربہ رہا تھا جہاں شاعروں کی قدر، بڑوں کا احترام، ادب و تہذیب نام کی چیزیں دُور دُور تک نہیں تھیں۔ ایسے میں ایک نوجوان جو شہرت کی سیڑھیاں چڑھ رہا ہو اتنی نفاست اور بردباری کے ساتھ پیش آئے یہ تصور نہیں کیا جاسکتا تھا۔ دَوران گفتگو والد صاحب نے پنکج ادھاس کو ایک مطلع سنایا:
اِک طرف اس کا گھر اک طرف میکدہ 
میں کہاں جاؤں ! ہوتانہیں فیصلہ
  یہ سنتے ہی پنکج ادھاس اچھل پڑے اور فوراً اپنی پیٹی لی اور اس کلام کی طرز بنانے لگے۔ چند لمحوں میں ہی انہوں نے اس کی طرز بنالی جس پر ظفر صاحب کافی خوش ہوئے اور حیرت زدہ بھی رہ گئے۔ انہوں نے کہا کہ ’’ پنکج تم نے کمال کر دیا‘‘، میں نے اِدھر مطلع سنایا اور تم نے اُدھر اتنی خوبصورت طرز بنادی۔ پنکج تم بڑے گُنی ہو۔ جواباً پنکج نے کہا’’ ظفر بھائی ایسا لگ رہا ہے کہ مجھے اسی مطلع کی تلاش تھی جو آپ کے ذریعے مجھے مل گیا۔ ‘‘
اس پر والد گرامی نے ایک مطلع اور سنایا
پتھر کہا گیا کبھی شیشہ کہا گیا
 دل جیسی ایک چیز کو کیا کیا کہا گیا
پنکج ادھاس نے برجستہ کہا کہ آج تو میرا دن ہی بن گیا۔ اب میرے نئے البم کی ابتداء آپ کی انہی غزلوں سے ہوگی۔ انہوں نے اپنا وعدہ نبھایا اور اس البم کا نام ’نایاب‘ رکھا۔ اس کے بعد پنکج ادھاس کے جتنے بھی البم آئے ان کی شروعات والد صاحب کی غزلوں سے ہی ہوئی۔ گویا یہ ایک ’شگون ‘ اور کامیابی کی ضمانت بن گیا تھا۔ ’نایاب‘ البم اس قدر مشہور ہوا کہ صرف ہندوستان ہی نہیں بلکہ دنیا کے مختلف ممالک میں اس کی خوب پذیرائی ہوئی اور پنکج ادھاس کو غزل گائیکی کی دنیا میں ایک نئی پہچان ملی اور بطور غزل سنگر ان کا رتبہ مستحکم ہو گیا۔ 
 کچھ دن گزرنے کے بعد ایک نئے البم کی تیاری زوروں پر تھی جس کا نام تھا’خیال‘، دورانِ گفتگو پنکج ادھاس نے والد صاحب سے کہا کہ مجھے اس بار منفرد لہجے کا کلام چاہئے، ایسا کہ اب تک ہم نے نہ سُنا ہو۔ چونکہ دونوں کے روابط اب نہایت گہرے ہوچکے تھے اور دونوں ایک دوسرے کے مزاج سے واقفیت بھی رکھتے تھے اس لئے والد صاحب نے ان کی فرمائش پوری کرتے ہوئے بتایا کہ ’’میں نے بچوں کے لئے ایک نظم لکھی ہے اگر تم کہو تو سنا دوں ‘‘۔ پنکج صاحب نے سنانے کو کہا، مصرعہ یوں تھا 
دادا حیات تھے جب، مٹّی کا ایک گھر تھا
 چوروں کا کوئی کھٹکا، نہ ڈاکوؤں کا ڈر تھا
یہ نظم سننے کے بعد پنکج ادھاس نے کہا’’ظفر بھائی نظم بڑی اچھی ہے لیکن اس کے اوپر ایک مکھڑا لگانا ہو گا اور آخر میں اسے ایک نیا موڑ دینا بھی ضروری ہو گا۔ ان کی اس خواہش پر والد صاحب نے فوراً قلم اٹھایا اور اس میں توقع کے مطابق اضافہ کردیا۔ 
دکھ سکھ تھا ایک سب کا اپنا ہو یا بیگانہ 
اِک وہ بھی تھا زمانہ اِک یہ بھی ہے زمانہ
 یہ گیت ریکارڈ ہونے کے بعد بعد جب منظر عام پر آیا تو اس نے مقبولیت کے کئی ریکارڈ توڑ دئیے۔ ساتھ ہی یہ غزل پنکج ادھاس کی شناخت کا حصہ بھی بن گئی۔ دہلی کی ایک سرکاری محفل میں پنکج ادھاس نے جب یہ نظم گائی تو رونقِ محفل اس وقت کے وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کی آنکھیں نم ہو گئیں۔ چونکہ وہ بھی ایک شاعر تھے اور ان باریکیوں سے واقف تھے اس لئے انہوں نے پنکج کے ساتھ ساتھ ظفر صاحب کو بھی داد دی اور محفل کے اختتام پر کہا ’’پنکج !آج کا ڈنر تم ہمارے ساتھ کروگے۔ ‘‘
 پنکج ادھاس کا رویہ شعراء کے ساتھ ساتھ ان کے اہل خانہ کے ساتھ بھی مشفقانہ تھا۔ ان کے دُکھ سکھ میں شریک رہتے تھے، گاہے بگاہے فون کر کے ان کی خیریت دریافت کرتے تھے۔ کئی شعراء کو انہوں نے ان کے علاج و معالجہ کے لئے امداد بھی فراہم کرائی یہاں تک کہ ایک شاعر کے لئے خاص شوکر کے پیسے اکٹھا کئے اور اسے ممبئی میں گھر دلایا۔ 
  پنکج ادھاس اچھی آواز کے مالک ہونے کے ساتھ ساتھ ملنسار طبیعت کے بھی مالک تھے۔ میری بھی ان سے متعدد ملاقاتیں رہی۔ ایک چھوٹا سا واقعہ یاد آرہا ہے کہ ایک شو میں شرکت کے لئے پنکج ادھاس برطانیہ گئے تھے۔ اس شو میں والد صاحب کی کئی غزلیں انہوں نے پیش کیں جن پر سامعین جھوم اٹھے۔ پروگرام کے اختتام پر ایک صاحب ان کے پاس آئے اور کہا کہ ’’اِک طرف اس کا گھر اِک طرف میکدہ‘‘ کے جو شاعر ہیں ظفر گورکھپوری صاحب، ان کو یہ لفافہ میری طرف سے دے دیجئے گا۔ ممبئی لوٹتے ہی پنکج ادھاس کا فون آیا کہ آپ کے ایک مداح نے آپ کو لفافہ پیش کیا ہے لہٰذا وہ لے جائیں۔ وہ لفافہ موصول ہونے کے بعد جب دیکھا گیا تو اس میں اچھی خاصی رقم تھی۔ 
  پنکج ادھاس کی رحلت دنیائے غزل گائیکی کا عظیم خسارہ ہے۔ انہوں نے اپنی آواز سے اردو شاعری اور ہندوستان کا نام پوری دنیا میں روشن کیا۔ انہیں اردو لکھنا اور پڑھنا بخوبی آتا تھا اور وہ الفاظ کے درست تلفظ کو ادا کرنے پر قادر تھے جس کی جھلکیاں ان گی گائیکی میں بھی صاف نظرآتی تھیں۔ جہاں جہاں غزل گائیکی کا ذکر ہوگا وہاں وہاں پنکج ادھاس کا بھی ذکر ہوگا۔ وہ ہمیشہ اپنی انسان دوستی اورمخملی آواز کے ذریعے زندہ رہیں گے۔ 

 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK