Inquilab Logo

والدین کی خدمت غیر معمولی سعادت ہے

Updated: August 27, 2021, 4:19 PM IST | Mudasir Ahmed Qasmi

آج کل، نئی نسل کے بعض افراد ماں باپ کی خدمت کرنے اور اسے عین سعادت سمجھنے کی بجائے اُن سے خدمت لینے پر آمادہ رہتے ہیں۔ محبت کے مارے ماں باپ بھی اسے بُرا نہیں سمجھتے بلکہ اپنی ضعیف العمری کے باوجود اُن کے چھوٹے بڑے کاموں میں منہمک رہتے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اولاد خدمت ِ والدین کی اسلامی فکر کو سمجھیں۔

Picture.Picture:INN
علامتی تصویر۔ تصویر: آئی این این

بچوں کیلئے ماں باپ کی تگ و دَو بے لوث ہوتی ہے۔ اُن کی دلی خواہش یہ ہوتی ہے کہ اُن کے بچوں کی پرورش اور تعلیم و تربیت بہتر ین طریقے سے ہو۔ یہی وہ جذبہ ٔصادق ہے جس کی قوت سے بچوں کی زندگی پُر سکون، پُر مسرت اور کامیاب ہوتی ہے۔ اِ س حقیقت کے ساتھ ہمارے ذہن میں یہ بات ضرور رہنی چاہئے کہ جہاں ماں باپ کی خدمت سے بچوں کی زندگی بنتی اور سنورتی ہے، وہیں ماں باپ کو بھی ایک متوازن اور مستحکم زندگی گزارنے کے لئے خدمت کی ضرورت ہوتی ہے ۔ جب والدین اپنی جوانی کی عمر سے آگے بڑھتے ہیں اور اُن کی عمر ڈھلنے لگتی ہے تو فطرتاً اُن کی توانائی میں کمی آجاتی ہے اور یہاں سے بچوں کی ذمہ داری شروع ہوجاتی ہے کہ وہ اپنے والدین کا مناسب ڈھنگ سے مستقل خیال رکھیں۔
  یہ اللہ رب العزت کا ایک خوبصورت نظام ہے کہ جب بچوں کو ماں باپ کی خدمت کی ضرورت ہوتی ہے تو والدین بھر پور طاقت کے حامل ہوتے ہیں اور جب ماں باپ کو بچوں کی خدمت کی ضرورت ہوتی ہے تو وہی بھرپور طاقت اولاد میں موجود ہوتی ہے۔اِ س تمہید کا ایک مطلب یہ نکلتا ہے کہ اگر جانبین سے صحیح وقت پر اپنی ذمہ داریوں سے کوتا ہی ہوئی تو وہ محض ایک دوسرے کی حق تلفی نہیں کرتے بلکہ خدائی نظام سے بغاوت کرتے ہیں۔ زیر نظر مضمون میں ہم ایک خاص پہلو کو اُجاگر کرنا چاہتے ہیں جو موجودہ وقت میں ہمارے معاشرے کیلئے کسی ناسور سے کم نہیں ہے، وہ پہلو یہ ہے کہ آج کل کے بچے جب بڑے ہونے لگتے ہیں اور اُس عمر کو پہنچ جاتے ہیں جب وہ اپنی ضرورتوں کو خود پورا کر سکیں، اُس وقت بھی اُن کا رجحان یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے کاموں کیلئے ماں باپ سے خدمت لیں۔ اِس صورتِ حال میںماں باپ اپنی تمام ترجسمانی اور دیگرکمزوریوں کے باوجود بچوں کی محبت میں مجبور ہوکر اپنے دوشِ ناتواں پر بوجھ لے لیتے ہیں جو ہمارے معاشرے کے لئے ایک لمحہ فکریہ ہے۔  
 یہاں ایک اہم سوال یہ ہے کہ بچوں میں ماں باپ سے خدمت لینے کا رُجحان کہاں سے پروان چڑھتا ہے؟ اِس موضوع کے تجزئیے کے بعد چند وجوہات ہمارے سامنے آتی ہیں، جن میں سے ایک اہم وجہ والدین کے ذریعے بچوں کی بیجا ناز برداری ہے۔ اِس عمل سے بچے اِس حد تک سہل پسند بن جاتے ہیں کہ وہ اپنے ہر کام کے لئے والدین کی طرف نظر اُٹھاتے ہیں اور والدین اپنی محبت کا تقاضا جانتے ہوئے بچوں کے وہ کام بھی سرانجام دیتے ہیں ، جنہیں بچے خود کرسکتے ہیں اور اُنہیں کرنا چاہئے۔ صحیح معنوں میں یہ محبت نہیں ہے بلکہ بچوں کو نِکما اور غیر ذمہ دار بنانے کا طریقہ ہے۔ والدین کو یہ یاد رکھنا چاہئے کہ بچے پیدائشی طور پر کاہل نہیں ہوتے بلکہ بسا اوقات وہ اپنے طرزِ عمل سے اُنہیں کاہل بنادیتے ہیں۔ اِس لئے ہماری تربیت کا یہ حصہ ہونا چاہئے کہ ہم رفتہ رفتہ بچوں پر ذمہ داریاں منتقل کریں۔ اگر والدین اِس انداز سے تربیت کرتے ہیں تو وہ نہ صرف اپنے مستقبل کے لئے آسانیاں پیدا کریںگے بلکہ نبوی (ﷺ) فرمان کے مطابق اُن کے بچوں کے لئے یہ تربیت بہترین تحفہ بھی ہوگا۔ ارشادِ نبوی ﷺ ہے: ’’کوئی باپ اپنی اولاد کو اِس سے بہتر عطیہ نہیں دے سکتا کہ اُس کو اچھے آداب سکھائے۔‘‘ (بخاری)
 والدین سے خدمت لینے یا اپنی بات منوانے کا رجحان بچوں میں اِس وجہ سے بھی پیدا ہوتا ہے کہ بچے اپنے ارد گرد کبھی کچھ ایسے بچوں کو دیکھتے ہیں جو اپنے ماں باپ سے خدمت لینے اور بات منوانے کے عادی ہوتے ہیں ۔ اُن کو دیکھ کر عام بچے بھی اپنے والدین سے یہی توقع کرتے ہیں اور دلیل میں یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ فلاں اور فلاں کے والدین ایسا کرتے ہیں۔ اِس صورتِ حال میں ہمیں اپنے بچوں کو سنجیدگی کے ساتھ غلط اور صحیح سمجھانے کی ضرورت ہے اور بہتر طرزِ زندگی کی طرف راغب کرنے کی ضرورت ہے۔ اِس رو‘ سے تربیت میں اساتذہ بھی اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔
 زیرِ بحث موضوع کے تناظر میں بچوں کو یہ سمجھنا چاہئے کہ ماں باپ کی خدمت کا شرف دُنیا کی عظیم ترین نعمتوں میں سے ایک ہے، جس کا فائدہ صرف اِس دنیا میں نہیں ملتا بلکہ آخرت میں بھی خصوصی اجر ملتا ہے۔ جب معاملہ یہ ہے تو پھر اُن کی خدمت کرنے کے بجائے اُن سے خدمت لینے کا تصور کیسے صحیح ہوسکتا ہے؟ اگر آج کی نوجوان نسل ذیل کی چند قرآنی آیتوں پر غور کر لے تو ماں باپ سے خدمت لینے کے رجحان سے لازما ًتوبہ کر لیں گی اور اُن کی زندگی وفا شعار اولاد کی زندگی بن جائے گی۔
  ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ’’اور تیرے رب نے یہ حکم دیا ہے کہ اس کے سواکسی کی عبادت مت کرو اور اپنے ماں باپ کے ساتھ حسنِ سلوک سے پیش آؤ، اگر وہ یعنی ماں باپ تیری زندگی میں بڑھاپے کو پہنچ جائیں، چاہے ان میں ایک پہنچے یا دونوں (اور ن کی کوئی بات تجھے ناگوار گزرے تو) ان سے کبھی ’’ہوں‘‘ یا ’’اُف‘‘ بھی مت کہنا اور نہ انہیں جھڑکنا اور اُن سے خوب ادب سے با ت کر نا، اور ان کے سامنے شفقت سے انکساری کے ساتھ جھکے رہنا اور یوں دُعا کر تے رہنا کہ : اے ہمارے پروردگار! تو ان پر رحمت فرما، جیسا کہ انھوں نے بچپن میں مجھے پالا ہے (صرف ظاہر داری نہیں، دل سے ان کا احترام کرنا) تمہارا رب تمہارے دل کی بات خوب جا نتا ہے اور اگر تم سعادت مند ہو تو وہ توبہ کرنے والے کی خطائیں کثرت سے معاف کرنے والاہے۔‘‘ (سورہ الاسراء ۲۳۔۲۵) اللہ رب العزت نے مذکورہ آیتوں میںوالدین کے لئے جو دعا ء ہمیں سکھلائی ہے اگر صرف اُسی پر غور کرلیں تو والدین سے خدمت لینے کے تصور سے ہی ہم لرز جائیں گے اور اُن کے بوجھ کو بڑھانے کے بجائے ہلکا کرنے کی کوشش کریں گے۔ بچپن میں والدین نے جو ہماری خدمت کی ہے ، اُس کی اہمیت مختلف وجوہات کی بناء پر اس قدر ہے کہ اللہ رب العزت نے اُسے مُستحقِ رحمت قرار دیا ہے۔ آئیے! ہم یہ عہد کریں کہ اپنے والدین سے خدمت لینے کے بجائے اُن کی حتی الوسع خدمت کریں گے۔ (ان شاء اللہ)۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK