Inquilab Logo

ایوان پارلیمان، ہنگامہ اور راہل گاندھی

Updated: March 17, 2023, 1:31 PM IST | Mumbai

برطانیہ سے واپسی کے بعد راہل گاندھی گزشتہ روز پہلی مرتبہ پارلیمنٹ میں پہنچے تھے۔

photo;INN
تصویر :آئی این این

 برطانیہ سے واپسی کے بعد راہل گاندھی گزشتہ روز پہلی مرتبہ پارلیمنٹ میں پہنچے تھے۔ چونکہ پچھلے تین چار دنوں سے برطانیہ میں ہونے والی اُن کی تقریر اور تبصروں ہی کو ہدف تنقید بنایا جارہا تھا اور اسی باعث، غالباً پارلیمانی تاریخ میں پہلی بار حکمراں جماعت کے اراکین پارلیمان، ایوان کی کارروائی چلنے نہیںدے رہے تھے اس لئے لازم تھا کہ جیسے ہی راہل کی آمد ہوئی، اُن سے وضاحت طلب کی جاتی۔ مگر ایسا نہیں ہوا۔ نتیجتاً راہل گاندھی کو پریس کانفرنس کرکے اپنی بات کہنے کا موقع نکالنا پڑا۔ اس مختصر گفتگو میں اُنہوں نے اپنا دُکھ بیان کیا کہ کس طرح اُنہیں ناکردہ گناہی کی سزا دی جارہی ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ تین اراکین پارلیمان نے اُن پر الزامات عائد کئے ہیں اس لئے اُنہیں وضاحت کا موقع ملنا چاہئے۔ پریس کانفرنس سے قبل وہ اسپیکر سے ملے اور اُن سے درخواست کی کہ اُنہیں ایوان میں بولنے دیا جائے۔ بقول راہل، اس کے جواب میں اُنہیں کوئی تیقن نہیں ملا بلکہ اسپیکر صاحب اپنے مخصوص انداز میں مسکرا کر رہ گئے۔
  آج جب ایوان کی کارروائی شروع ہوگی تو دیکھنا ہوگا کہ حکمراں جماعت کے اراکین کی راہل مخالف نعرہ بازی جاری رہتی ہے یا راہل گاندھی کو اپنا مطمح نظر بیان کرنے کا موقع دیا جاتا ہے۔ اگر موقع نہیں دیا گیا تو راہل کے اس تاثر ہی کی توثیق ہوگی کہ اپوزیشن کو بولنے نہیں دیا جاتا۔ سابق صدرِ کانگریس نے یہ بات برطانیہ میں بھی کہی اور بار بار کہی کہ اپوزیشن کو نہ تو بولنے کا موقع دیا جاتا ہے نہ ہی اس کی سنی جاتی ہے۔برطانیہ میں ہونے والی تقریر اور تبصروں کے پیش نظر بی جے پی کی جانب سے جو طومار باندھا جارہا ہے اس کی حقیقت کچھ نہیں ہے۔ بیان اور تبصرہ میں ایسا کچھ نہیں ہے جس پر اعتراض کیا جائے اور اعتراض میں حد پار کرتے ہوئے یہ کہا جائے کہ راہل کے تبصرے ’’دیش دروہ‘‘ کے زمرے میں آتے ہیں۔ اس کالم میں لکھا جاچکا ہے اور پہلے دن سے مبصرین کہہ رہے ہیں  کہ اگر بیرون ملک، اپنے ملک کی جمہوریت پر تبصرہ درست نہیں ہے تو ایسے تبصرے وزیر اعظم نریندر مودی نے کئی بار کئے ہیں۔ وہ مبصرین جو ہندوستانی سیاست کو کئی دہائیو ںسے دیکھ رہے ہیں، یہ بھی یاد دِلا چکے ہیں کہ کس طرح ماضی میں بھی ایسا ہوا ہے کہ ملک کے سیاستدانوں نے بیرونی ملکوں میں ہندوستان کی سیاسی و جمہوری صورت حال کو تنقید کا نشانہ بنایا۔
  کہنے کا مطلب یہ کہ اس الزام میں کچھ دم نہیں ہے کہ راہل نے ملک کی توہین کی ہے۔ اس کے باوجود اگر بی جے پی کے اراکین ہنگامہ کرکے ایوان کی کارروائی روک رہے ہیں تو اس کا سبب یہ ہے کہ اڈانی تنازع پر بحث نہ ہو۔ یہ دھیان بھٹکانے اور موضوع (اڈانی) سے ہٹانے کی کوشش ہے تاکہ اڈانی معاملے کی جانچ کیلئے مشترکہ پارلیمانی کمیٹی کا اپوزیشن کا مطالبہ دھرا کا دھرا رہ جائے۔ مگر، اپوزیشن بھی کیل کانٹوں سے لیس ہے۔ گزشتہ چند دنوں میں اس نے حکمراں جماعت کو کڑی ٹکر دی ہے۔ 
 راہل کو موقع نہ ملنے کا امکان زیادہ ہے، کیونکہ موقع ملنے کے بعد وہ اڈانی معاملے میں نئے سوالات جوڑ کر حکومت کو ایک بار پھر کٹہرے میں کھڑا کرسکتے ہیں۔ اگر موقع دیا گیا تو اس بات کی ضمانت نہیں ہے کہ اُنہیں سنجیدگی اور خاموشی سے سنا جائیگا۔ بہرکیف، جو صورت حال پیدا کی جارہی ہے اُس میں راہل اور کانگریس کا فائدہ ہے۔ بی جے پی اپنی راہ خود دشوار کررہی ہے ۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK