خوشبو، لاہور سے کراچی تک پھیلی ہوئی تھی۔ اردو شاعری کے باغ میں ایک نئی کلی کے کھلنے کی خبر تھی۔ میں نے ایک شام پاکستان کے مشہور مصور صادقین کے اسٹوڈیو میں گزاری۔ میز پر نظموں کی ایک نئی کتاب ’’خوشبو‘‘ رکھی تھی جس کا گردپوش صادقین نے بنایا تھا۔
EPAPER
Updated: December 31, 2023, 1:38 PM IST | Ali Sardar Jafri | Mumbai
خوشبو، لاہور سے کراچی تک پھیلی ہوئی تھی۔ اردو شاعری کے باغ میں ایک نئی کلی کے کھلنے کی خبر تھی۔ میں نے ایک شام پاکستان کے مشہور مصور صادقین کے اسٹوڈیو میں گزاری۔ میز پر نظموں کی ایک نئی کتاب ’’خوشبو‘‘ رکھی تھی جس کا گردپوش صادقین نے بنایا تھا۔
سماعتوں کو نوید ہو… کہ
ہوائیں خوشبو کے گیت لے کر
دریچۂ گل سے آرہی ہیں !
خوشبو، لاہور سے کراچی تک پھیلی ہوئی تھی۔ اردو شاعری کے باغ میں ایک نئی کلی کے کھلنے کی خبر تھی۔ میں نے ایک شام پاکستان کے مشہور مصور صادقین کے اسٹوڈیو میں گزاری۔ میز پر نظموں کی ایک نئی کتاب ’’خوشبو‘‘ رکھی تھی جس کا گردپوش صادقین نے بنایا تھا۔ شاعرہ کا نام پروین شاکر تھا۔ فیض نے ساڑھے تین سو صفحات کی کتاب ہاتھ میں اٹھا کر دیکھی اور مسکرا کر کہا کہ میں نے تو عمر بھر میں اتنی نظمیں نہیں کہی ہیں ۔ صادقین نے اس طرح نئی شاعرہ کی حمایت کی کہ پروین شاکر زیادہ کہتی ہے لیکن اچھا کہتی ہے۔
۱۲؍دسمبر کو جب میں لاہور سے کراچی جارہا تھا تو ہوائی جہاز میں احمدندیم قاسمی میرے ہمسفر تھے جو ’’خوشبو‘‘ کی رونمائی کیلئے جارہے تھے۔ پاکستان میں کتاب کے اجراء کو رونمائی کہتے ہیں ۔ ہمارے ہندوستان کے شہر حیدرآباد میں اس کو جشن اجرائی کہا جاتا ہے۔ وہاں ایک دوست کے گھر پر یہ کتاب پھر میرے سامنے آئی۔ پاکستان کے مشہور و مقبول طنزنگار مشتاق احمد یوسفی اس جشن میں شریک ہوئے تھے اور پروین کی شاعری کی تعریف کررہے تھے۔ جشن رونمائی میں پاکستان کے ادیبوں اور شاعروں نے دل کھول کر اس نئی شاعرہ کو داد دی۔ برصغیر کے بزرگ شاعر اور افسانہ نگار احمدندیم قاسمی نے کہا:
’’پروین! جذبے کی شدت اور شائستگی کی شاعرہ ہے، جذبے کا سچا، کھرا اور خوبصورت اظہار اس کی شاعری کا کرشمہ ہے۔ نہ وہ اپنے آپ کو فریب دیتی ہے نہ اپنے قاری سے کچھ چھپاتی ہے۔ اس نے محبت کے جذبے کی حیرت انگیز تہذیب کی ہے، پروین نے اس پامال موضوع کو رفعت بخشی ہے اور اس کی قدامت کو بدل دیا ہے… اس کا دلآویز فن ہمہ وقت چارسو نگراں رہتا ہے، پروین کی آواز کے زیروبم میں روح عصر کی گونج صاف سنائی دیتی ہے، اردو شاعری میں یہ ہر لحاظ سے ایک نئی آواز ہے، منفرد، جمیل اور مستقبل گیر آواز۔‘‘
اور پروین کی پیش رو فہمیدہ ریاض نے اس کی شاعری کے جمالیاتی پہلو کو ان الفاظ میں روشن کیا :
’’زندگی کو بے حس بنادینے والے روزمرہ سے چند لمحے بچا کر، آپ کبھی کسی کنج عافیت میں سکون سے بیٹھے ہیں ؟ اور پھولوں پر منڈلاتی، ٹھہرتی، پنکھ جوڑتی اور کھولتی تتلی کو غور سے دیکھا ہے؟ اس کے نرم، نازک، سبک پروں پر پھیلتی ، ایک دوسرے میں گھلتی رنگوں کی لکیروں کو کانپتے دیکھا ہے؟ پروین شاکر کی نظموں اور غزلوں کا مجموعہ خوشبو اس ہولے سے تھرتھراتے ہوئے تتلی کے پنکھ کا ہی دوسرا نام ہے۔‘‘
دوسرے دن، ۱۳؍دسمبر کی شام کو پروین سے ملاقات ہوئی۔ پاک ہند دوستی انجمن نے مجھے مدعو کیا تھا۔ وہاں کراچی کے بہت سے ادیب و صحافی اور سماجی کارکن جمع تھے۔ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے کمیشن کے پاکستانی چیئرمین الانا صاحب آئے تھے جو انگریزی زبان میں شاعری کرتے ہیں ۔ احمدندیم قاسمی کے ساتھ آئی ہوئی ایک چوبیس پچیس سال کی خوبصورت لڑکی نے ’’خوشبو‘‘ کا تحفہ مجھے دیا۔ اس میں حسن و انکسار تھا۔ میں نے پروین سے کہا کہ کتاب کے صفحات پر چھپے ہوئے شعروں کے پیچھے جو آواز ہے وہ کب سنائی دے گی؟ اس نے یہ کہہ کر شعر سنانے کا وعدہ کیا کہ ’’آج مجھے کہیں اور جانا ہے دعوت پر، دو ایک دن میں شعر سنانے کا موقع نکل آئے گا۔‘‘
پروین کی شاعری کا محور عشق ہے، اس کی تشبیہیں اور استعارے زیادہ تر فطرت سے لئے گئے ہیں ۔ دھوپ، سورج، چاند، روشنی، پھول، بادل، پانی، ہوائیں انہیں سے مل کر اس کی امیجری تعمیر ہوئی ہے۔ لیکن اس کے عشق کے گرد شعور کا ایک خوبصورت ہالہ ہے، سماجی اور سیاسی احساس کا پرتو ہے، اس کی شاعری حسن صورت، حسن سیرت، حسن زبان اور حسن بیان سے آراستہ ہے اس لئے اس میں دور دور تک کہیں اس عہد کی مردم بیزاری نہیں ہے۔ ذاتی تلخی اور خیال کے الجھاوے نہیں ہیں۔ وہ بصیرت ہے جو زندگی کو شائستہ بناتی ہے اور انسانی تہذیب کو وقار بخشتی ہے ، لہجے کی تازگی میں بلا کی کشش ہے۔
دو دن بعد کراچی یونیورسٹی کے شعبۂ اردو نے مجھے مدعو کیا، وہاں پروین شاکر کی ایک نظم اور ایک غزل سننے کا موقع ملا۔ جلسے کی صدارت حضرت مجنوں گورکھپوری فرما رہے تھے۔ پروین آہستہ آہستہ اور مہذب آواز میں (نظم: خاکم بدہن ، اور غزل : پا بہ گل سب ہیں رہائی کی کرے تدبیر کون) پڑھتی ہے اور یہ آواز اس کی شاعری کے لئے ترنم سے زیادہ اثرانگیز ہے۔
کراچی سے بمبئی روانگی سے دو دن پہلے سرسید کالج میں پروین شاکر سے پھر ملاقات ہوئی۔ کالج کی پرنسپل نے نہایت فخر اور محبت سے اس کا ذکر کیا۔ ’’اس کالج نے ایک بہت اچھی شاعرہ پیدا کی ہے۔‘‘
پروین نے نظم ’’مشترکہ دشمن کی بیٹی‘‘یہ کہہ کر پیش کی کہ میں جعفری صاحب کی موجودگی میں یہ نظم سنانا چاہتی ہوں ۔ ان سادہ الفاظ میں ہندوستان کے لئے محبت اور دوستی کا پیغام تھا۔
پروین نے نظم ختم کی، ہال تالیوں سے گونج اٹھا۔ طالب علم لڑکیوں کے سیکڑوں چہرے چمک رہے تھے۔ پروین جس کتاب سے نظم پڑھ رہی تھی، اس نے وہ کتاب میری طرف یہ کہہ کر بڑھا دی ’’جب آپ بمبئی جائیے گا تومیری طرف سے مشترکہ دشمن کی بیٹی کو یہ تحفہ دے دیجئے گا۔‘‘
ہندوستان اور پاکستان میں لتامنگیشکر پر بہت سی نظمیں لکھی گئی ہیں لیکن پروین شاکر نے اس کو امن کی علامت بنادیا ہے۔ ہند پاک دوستی کا سمبل۔ پروین شاکر شاعری کے مستقبل کیلئے ایک خوبصورت بشارت ہے۔ (بحوالہ: چہارسو۔ اکتوبر۱۹۹۴ء)