پاسپورٹ کا باقاعدہ اجرا ’لیگ آف نیشنز‘ کے قوانین کی رو سے آج سے ٹھیک سوسال قبل۱۹۲۰ء میں عمل میں آیا اور وجہ تھی، اس عالم کا استحکام، جس کے تحت ہر ملک کیلئے پاسپورٹ جاری کرنا ضروری قرار دیاگیا۔ ہرپاسپورٹ میں ۳۲؍ صفحات، دوزبانیں،سرورق پر ملک کا نام اور نیچے ’پاسپورٹ‘ لکھنا طے کیا گیا۔ اقوام متحدہ نے اب یہ فیصلہ کیا ہے کہ پاسپورٹ صرف تین رنگوں (نیلا،سرخ اورسبز) میں ہی ہوں گے
پاسپورٹ ۔ تصویر : آئی این این
چندروز قبل ہمارے ایک دوست نے یورپ سے فون کیا۔ چونکہ آدمی مخلص ہیں، اسلئے پابندی سے فون کرتے ہیں لیکن اس بار فون سے اتنی خوشی چھلک رہی تھی کہ ہمیں پوچھنا پڑا کہ بھائی خیریت توہے؟ ’’یار پاسپورٹ مل گیا‘‘ اب جاکر عقدہ کھلا کہ یہ حضرت جو پچھلے دس برسوں سے یورپ کے مختلف شہروں میں کام کررہے تھے، وہاں کی زبانیں سیکھ رہے تھے،وہاں کی تاریخ وتہذیب کا مطالعہ کررہے تھے تواس کے پیچھے شہریت حاصل کرنے کا جنون تھا۔شہریت حاصل کرنے کیلئے وہاں ایک امتحان بھی دینا ہوتا ہے جس کی انہوںنے تیاری بھی کررکھی تھی مگر ایک بار پاس تو ہوگئے مگر انٹرویو میں ناکام رہے۔ آدمی باصلاحیت ہیں، اسلئے ہمت نہیں ہاری اور دوسری بار پھر امتحان میں شریک ہوئے اوراس بار خیرسے کامیاب ہوگئے۔ وہ اکثر کہتے تھے کہ جب ممبئی کے ایئر پورٹ پر اُترتا ہوں اور یورپی یونین کے شہریوں کی الگ قطار دیکھتا ہوں تواپنی پسماندگی پرر ونے سے زیادہ ان کی خوش نصیبی پر رشک آتا ہے ۔ کم بخت کتنے مزے کرتے ہیں۔ ان کے ہاتھوں میں ایک ایسا پاسپورٹ ہوتا ہے جو انہیں بیک وقت ۲۷؍ممالک کی شہریت عطا کرتا ہے۔ بس! اپنی کارنکالو اور ۲۷؍ملکوں میں سے جہاں چاہو، بغیر کسی پابندی کے گھوم آؤ۔ ایک ہم ہیں ۔ تقسیم سے پہلے ایک ہوا کرتے تھے، اب تین مختلف ممالک، تین مختلف کرنسی اور تین مختلف پاسپورٹ لے کر خوار پھرتے ہیں۔ یورپی ممالک کو دیکھئے ، معاشی اور سماجی آسودگی کے نام پر سارے اختلافات ختم کرکے ایک وفاق بنالیا اور اپنے شہریوں کو بہاروں کا مزا چکھا رہے ہیں جبکہ اسلامی ممالک تک اپنے ہم مذہب بھائیوں کے اتنے خیر خواہ نہیں۔ سعودی عرب یا خلیجی ممالک میں آپ برسوں کام کرلیں، ان ممالک کی شہریت نہیں مل سکتی۔ یعنی یہ ان سے غلامی تو کروالیں گے مگراپنے ساتھ جینے کے حقوق نہیں دیں گے۔ آپ ۶۰؍ سال کے ہوئے نہیں کہ آپ کو دیس نکالا دے دیا جائے گا۔ اب اس غریب ملک میں لوٹ جایئے جسے بہتر زندگی کے خوابوں کیلئے برسوں پہلے آپ نے چھوڑ دیاتھا۔ظاہر ہے ۶۰؍ سال کی عمر میں آپ کسی کام کے نہیں رہتے۔ اب اپنے بچوں کے دست نگر بن کر رہئے یا اپنی پس انداز کی ہوئی پونجی لقمہ لقمہ کھاتے رہئے۔
ہمارے ایک دوست تھے جنہوںنے بہتر زندگی کی تلاش میں امریکہ جانے کی ٹھانی اور کسی طرح امریکہ میں داخل بھی ہوگئےمگر زندگی بھر چھپتے چھپاتے رہے۔ جب بھی ان کا فون آتا ہم یہی التجا کرتے کہ بھائی ،لوٹ آؤ۔ جب ہم ایسے نالائق اس ملک میں جی سکتے ہیں تو آپ ایسے باصلاحیت شخص کیلئے یقیناً کوئی دشواری نہیں ہوگی مگر انہیں نہیں آنا تھا، نہیں آئے۔انہیں آخری دم تک امریکہ کی شہریت تو نہیں ملی البتہ وہاں کی دوگز زمین کے مالک ضرور ہوگئے۔ ویسے یہ کوئی پہلے آدمی نہیں تھے جنہیں امریکہ جانے کا جنون تھا۔ امریکی سفارت خانے کے باہر آج بھی ایک لمبی قطارامریکی پاسپورٹ کی تصویر آنکھوں میں لئے کھڑی نظر آتی ہے ۔
ہم ہندوستانی پاسپورٹ ایسی اہم دستاویز سے اتنے بے نیاز ہیں کہ اکثریت کے پاس پاسپورٹ نامی کتابچہ ہوتا ہی نہیں۔ جواز یہ بتاتے ہیں کہ پاسپورٹ بناکر کیا کریں گے؟ کہیں جانا تو ہے نہیں۔ یہیں پیدا ہوئے ہیں، یہیں مرکھپ جائیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک زمانے تک لوگ حج کا سفر نہیں کرتے تھے۔ کچھ تو دینی شعور کا فقدان تھا اور کچھ اسلئے کہ حج کے اخراجات کیلئے وسائل نہیں ہوتے تھے۔ جنہیں اس مقدس سفر کی آرزو ہوتی وہ پائی پائی جمع کرکے بڑھاپے میں حج کا سفر کرتے۔ اب جو نئی نسل نے غیرملکوں میں ملازمتیں ڈھونڈ لیں تو والدین کوبڑھاپے کی معذوری سے پہلے حج کا سفر بھی کروادیا۔ اس کے باوجود آج بھی ہندوستان کی ایک بڑی آبادی پاسپورٹ نہیں رکھتی جبکہ ہر ہندوستانی کے پاس اس کا اپنا پاسپورٹ ہونا ضروری ہے۔ یہ اس کا آئینی حق ہے اور کوئی حکومت اسے پاسپورٹ رکھنے سے روک نہیں سکتی۔ اب جاکر لوگوں کو احساس ہوا ہے کہ آج کے مسموم ماحول میں یہ قانونی محافظ کا رول ادا کرتا ہے۔
کل تک پاسپورٹ بنانے کیلئے ایجنٹ اپنی خدمات پیش کرتے تھے ، جو اپنے ’کھوکھا‘نامی آفس میں بیٹھ کر پاسپورٹ فارم ٹائپ کرتے ، تصویریں چپکاتے، راشن کارڈ یا بجلی کا بل طلب کرتے اور ساری ضروری معلومات جمع کرکے یہ فارم پاسپورٹ آفس بھجوادیتے۔ پھر کسی دن پولیس اسٹیشن سے انکوائری آتی اور ہفتہ عشرے میں آپ کی شہریت کا پروانہ گھر آجاتا۔ پاسپورٹ لانے والے ڈاکئے کو اس کی اہمیت کا انداازہ ہوتا، اسلئے وہ ٹپ لئے بغیر نہیں ٹلتا۔ اب وقت بدل گیا ہے۔ سارے کام کمپیوٹر پر ہونے لگے ہیں۔ اب پاسپورٹ کی تفصیل کمپیوٹر کی مدد سے مکمل ہوتی ہے پھر ایک دن پاسپورٹ سینٹر جاکر حاضری دینی ہوتی ہے جہاں دستاویزات کی تصدیق کرکے ،تصویر کھینچ لی جاتی ہے اور چند گھنٹوں میں فارغ کردیا جاتا ہے۔ اتنی سہولت کے باوجود بھی ہم پاسپورٹ کے متعلق سنجیدہ نہ ہوں تو یہ لاعلمی کی انتہا ہے۔ اس کی اہمیت ان سے پوچھئے جو آسودہ زندگی کی نعمتیں حاصل کرنے کیلئے ترقی یافتہ ملکوں کے ’طاقتور‘ پاسپورٹ کا انتظار کرتے ہیں۔ آج کل نیوزی لینڈ کے پاسپورٹ کا بڑا شہرہ ہے، اسلئے کہ وہاں کورونا وائرس کے مریض نہیں کے برابر ہیں اور وزیراعظم جسینڈا اصلاحات کے بل بوتے پر الیکشن جیت چکی ہیں۔ ویسے امریکہ کے مقابلے میں اب زیادہ لوگ کناڈا کے پاسپورٹ کے خواہش مند نظر آتے ہیں کیونکہ جتنی شہری سہولیات اور مالی آسانیاں کناڈا میں میسر ہیں، اتنی امریکہ میں بھی نہیں۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ امریکی شہری بھی سرحد پھلانگ کر کناڈا میں داخل ہونے لگے ہیں۔ چونکہ امریکہ اور برطانیہ کا طلسم ٹوٹنے لگا ہے، اسلئے اب یورپ کو ترجیح دی جانے لگی ہے کہ وہاں انفرادی آزادی کے ساتھ تعلیم اور روزگار کے مواقع بھی میسر ہیں اورایک معیاری نظام صحت کے علاوہ بڑھاپے میں سوشل سیکوریٹی زندگی کو بہتر بناتی ہے۔
پاسپورٹ کی بدعت کب اور کس طرح شروع ہوئی، اسے بھی جاننا کم دلچسپ نہیں ۔ تاریخ کی رو سے سرحد پارکرنے کا پہلا اجازت نامہ بائبل کے مطابق حضرت عیسیٰؑ کو Artaxerxes I نامی فارس کے بادشاہ نے دیا تھا۔ اس شاہی فرمان کے تحت کسی دوسرے فرمانروا کو انہیں روکنے سے منع کیا گیا تھا جبکہ ارتھ شاسترمیں یہ قانون ملتا ہے کہ ہر شہری کیلئے شہر میں داخل ہونے یا ملک سے باہر جانے کیلئے مقررہ فیس ادا کرنا ضروری ہے ۔ پتہ نہیں یہ دستاویزکیسی ہوگی کیوں کہ یہ آج کہیں بھی دستیاب نہیں۔ البتہ قدیم ترین پاسپورٹ چارلس اول کے دربار سے ۱۶۳۶ء میں سرتھامس لٹلیٹن کو جاری کیا گیا تھا، جس میں انہیں اہل خانہ کے علاوہ پچاس پاؤنڈ، چارنوکر اور بنیادی ضرورتوں کی کچھ چیزیں لے جانے کی اجازت دی گئی تھی۔ یہ ایک سادہ سرکاری کاغذ تھا جس پر سرتھامس کی تصویر بھی نہیں تھی۔ پاسپورٹ میں تصویر چسپاں کرنے کا رواج پہلی جنگ عظیم کے بعد ہونے لگا۔ ان قدیم پاسپورٹ کی تصاویر دیکھیں تو ہنسی آتی ہے۔ آرتھر کانن ڈائل اپنی بیوی، دوبچوں اور کتوں کے ساتھ نظر آتے ہیں۔ کوئی آرچ بشپ اپنے سارے تام جھام کے ساتھ مسکراتے کھڑے ہیں، کوئی صاحب اپنے باغ میں پھولوں کے درمیان ہیں تو کوئی صاحب سمندر کے کنارے، کوئی سازبجاتے نظر آتے ہیں توکوئی صاحب سگریٹ پھونکتے ہوئے۔ غرض ہر شخص مختلف انداز اور مختلف پوزمیں نظر آتا ہے۔ ایک دلچسپ واقعہ بھی ملتا ہے کہ ایک مونچھوں والے صاحب نے جرمنی کے سفر میں اپنی مونچھیں منڈوادیں اور جب وہ امریکہ لوٹے تو انہیں دوسرا شخص سمجھ کر امریکہ میں داخل ہونے سے روک دیا گیا۔
البتہ پاسپورٹ کا باقاعدہ اجرا ’لیگ آف نیشنز‘ کے قوانین کی رو سے آج سے ٹھیک سوسال قبل۱۹۲۰ء میں عمل میں آیا اور وجہ تھی، اس عالم کا استحکام ، جس کے تحت ہر ملک کیلئے پاسپورٹ جاری کرنا ضروری قرار دیاگیا۔ ہرپاسپورٹ میں ۳۲؍ صفحات، دوزبانیں،سرورق ملک کا نام اور نیچے ’پاسپورٹ‘ لکھنا طے کیا گیا۔ اقوام متحدہ نے اب یہ فیصلہ کیا ہے کہ پاسپورٹ صرف تین رنگوں میں (نیلا،سرخ اورسبز) ہوں گے۔ نیلا رنگ، یورپی اقوام کا پسندیدہ رنگ ہے۔ سرخ رنگ کمیونسٹ ملکوںکی نشاندہی کرتا ہے اور سبز رنگ اسلامی ممالک کی علامت ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی لازمی ہے کہ ہرپاسپورٹ کی سائزایک سی ہوگی،پھرچاہے وہ ایرانی ہویا چینی ۔ اندر چاہئے کتنے ہی خوش رنگ پھول اور تتلیاں ، گھوڑے اور مگر مچھ کی تصویریں بنالیں، پاسپورٹ کی مخصوص شناخت باقی رہنی چاہئے۔ ویسے ہر ملک اپنے پاسپورٹ کو اپنی شناخت دینے کی خاطراندرونی صفحات پر کسی قومی یاد گار کی تصویر یا قدرتی مناظرکی تصویر شائع کرتے ہیں۔ جاپان نے اپنے معروف مصوروں کی تصاویر لگائی ہیں۔ برطانیہ کے پاسپورٹ میں شیکسپیئر کی تصویر کے ساتھ پہلے کمپیوٹرپروگرامر کی تصویر ملتی ہے تو امریکہ نے ماونٹ رش مور اور بارہ سنگھوں کی تصویریں شائع کی ہیں۔ عجب نہیں جو ہماری حکومت پاسپورٹ کے رنگ کے معاملے میں اقوا م متحدہ سے کسی مخصوص رنگ کی اجازت لے لے اور اندرونی صفحات میں اپنے نظریاتی قائدین کی تصاویر لگانے لگے البتہ ہر ملک نے پاسپورٹ میں کچھ تکنیکی کمالات بھی محفوظ کررکھے ہیں تاکہ آسانی سے اس کی نقل نہ ہوسکے۔کہیں صفحات کے اندرروشنیاں قید ہیں تو کہیں دریا، پہاڑ اور آبشار پوشیدہ ہیں جس میں ایک خاص آلے کی مدد ہی سے دیکھا جاسکتا ہے۔
چونکہ ہم ہندوستانیوں کو گھر بیٹھے پاسپورٹ مل جاتا ہے، اسلئے اب تک ہمیں اس کی اہمیت کا اندازہ نہیں۔ یہ تو وہی جانتے ہیں جو ذاتی، مالی یا سیاسی پریشانیوں سے تنگ آکر دوسرے ممالک میں بس جانے کے خواہشمند ہوتے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق ہر سال پانچ تا سات ہزار ہندوستانی مادروطن کو خیر باد کہہ کر ایسے ممالک میں ہجرت کرجاتے ہیں جہاں مہنگائی ، کرپشن ، فرقہ واریت اور جرائم جیسے مسائل درپیش نہیں ہوتے۔ بس ان ممالک میں شہریت حاصل کرنے کی قیمت ادا کرنی پڑتی ہے اور لوگ اسے بھی سعادت سمجھتے ہیں اوراس پاسپورٹ کو ہمیشہ کیلئے بھلا دیتے ہیں جو کبھی ان کی شناخت ہوا کرتاتھا۔ ایک حساس دل کیلئے یہ کتنا زبردست المیہ ہے کہ انسانوں کی دنیا میں سفر کرنے کیلئے اجازت نامہ درکار ہے لیکن اس عالمی سیاست کا کیا کریں جہاں لوگوں نے اللہ کی بنائی ہوئی زمین پر کچھ لکیریں کھینچ کر سرحد یں بنالیں تاکہ کوئی دوسرا بلا اجازت ان سرحدوں کو پار نہ کرسکے۔ اس لئے پاسپورٹ آج ایک حقیقت ہے اور ہمیں اس حقیقت سے مصالحت کرلینی چاہئے