Inquilab Logo

حب الوطنی کا تعلق دل سے ہے دکھاوے سے نہیں

Updated: August 11, 2022, 1:28 PM IST | Khalid Sheikh | Mumbai

گزشتہ سال یوم آزادی پر وزیر اعظم مودی نے لوگوں کو راشٹرگان گانے کو کہا تھا، اس بار ’گھر گھر ترنگا‘ ابھیان کا اعلان کیا ہے ۔

Picture .Picture:INN
علامتی تصویر ۔ تصویر:آئی این این

 حب الوطنی اور قوم پرستی دو مخالف نظریات ہیں۔ حب الوطنی ایک پاکیزہ فطری جذبہ ہے۔ انسان جہاں پیدا ہوتا ہے اس کی سرزمین، اس کی تہذیب وثقافت اوراس کی ہرشے سے محبت و عقیدت اس کی  سرشت میں ہوتی ہے اورانسان ہی کیوں، قدرت نے یہ جذبہ جانوروں اور چرندپرند میں بھی ودیعت کیا ہے  جو اپنی ضروریات پوری ہونے کے بعد شام ڈھلے اپنے اپنے مقام پر لوٹ آتے ہیں۔ حب الوطنی اور قوم پرستی میں بنیادی فرق یہ ہے کہ محب وطن طبقہ روادار ہوتا ہے ۔وہ رنگ ونسل اور مذہب کی بنیاد پر امتیاز نہیں برتتا، نہ اپنے نظریات کو دوسروں پرتھوپنے کی کوشش کر تا ہے جس سے اختلاف رائے اورآزادیٔ ِاظہار کی گنجائش باقی رہتی ہے۔اس کے برعکس قوم پرستی ایک تنگ نظر اور محدود نظریہ ہے جس کا مقصد نسلی برتری کی بنیاد پر بہرقیمت اقتدار حاصل کرنا اوراس پر جمے رہنے کیلئے ہر وہ حربہ استعمال کرنا ہے جس کی اجازت آئین   دیتا ہے نہ جمہوریت۔  قوم پرست طبقے کے نشانے پر سیاسی ونظریاتی مخالفین سمیت ہر وہ طبقہ ہوتا ہے جسے وہ اپنے لئے خطرہ سمجھتا ہے اور خطرے کا ہّوا کھڑا کرکے اپنا اُلّو سیدھا کرتا ہے اورچونکہ اسے مسلمانوں سے بغض للہی ہے اس لئے وہ انہیں بدنام کرنے اورنیچا دکھانے کا کوئی موقع نہیں چھوڑتا۔ یہ حرکت وہ اس  قوم کے ساتھ کر رہا ہے جس کے آباء واجداد نے تقسیم وطن کے پُرآشوب دور میں  پورے ہوش وحواس کے ساتھ دوقومی نظریے کو ٹھکراکر مذہب کے نام پر وجود میں آنے والی مملکت کی طرف ہجرت کرنے کے بجائے ہندوستان میں رہنے کو  تر جیح دی۔ تقسیم وطن کے بعد پاکستان میں پیش آنے والے  واقعات نے ثابت کردیا کہ ان کا فیصلہ درست تھا۔  اس سے بھی انکار نہیں کیاجاسکتا  کہ خود ہندوستان میں مسلمانوں کے ساتھ اچھا سلوک نہیں ہوا ۔ لیکن فرقہ پرستوں کے ہاتھوں مسلسل کٹتے، پٹتے اور لٹتے رہنے کے باوجود ایک پَل کے لئے ان کے ذہن میں اپنے فیصلہ پر پچھتاوے کا احساس  پیدا ہوا،نہ ہندوستان چھوڑنے کا خیال آیا۔ یہ حب الوطنی نہیں تو اورکیا ہے ؟ ستم ظریفی دیکھئے کہ مسلمانوں سے ملک کی وفاداری کا ثبوت وہ لوگ مانگ رہے ہیں جن کے لیڈروں کا آزادی کی جدوجہد میں کوئی رول نہیں تھا۔ ان لوگوں نے حب الوطنی اور قوم پر ستی کو ایسا خلط ملط کردیا ہے کہ عام ا ٓدمی کے لئے تمیز کرنا مشکل ہوگا اور چونکہ یہ لوگ اپنے سوا دوسروں کو محب ِ وطن نہیں سمجھتے اس لئے انہیں ،سیاسی ونظریاتی مخالفین اور سرکاری پالیسیوں کے خلاف احتجاج اور تنقید کرنے والوں پر ملک دشمنی اور غداری کا الزام لگاتے  دیر نہیں لگتی ہے سیاسی مخالفین کے خلاف سرکاری ایجنسیوں کا استعمال بھی اسی زمرے میں آتا ہے۔ وزیراعظم بننے سے پہلے اور بعد میں مودی نے جو کام پابندی سے کئے، یہ ہیں۔  (۱) بلند بانگ دعووں اور جھوٹے وعدوں کی بنیاد پر اقتدار حاصل کرنا اورجمے رہنا ۔(۲) اندھ بھکتوں کے ذریعے سماج میں مسلمانوں کے خلاف نفرت کا زہر پھیلانا (۳) ٹیکس وصولی کے ذریعے سرکا ری خزانہ بھرنا اور  دادعیش کا سامان مہیا کرنا۔  نوٹ بندی ، جی ایس ٹی ، ڈیجیٹلائزیشن اور آدھار کارڈ کو بینگ اکاؤنٹ اور دیگر اہم دستاویزات سے جوڑنے کی سَنَک کو اسی تناظر میں دیکھنا چاہئے۔ خود ہی سوچئے کہ نوٹ بندی اورجی ایس ٹی سے متعلق مودی نے جو دعوے کئے ، کیا ان پر پورے اترے؟ لاک ڈاؤن کے دوران مہاجر مزدوروں کو جن تکالیف سے گزرنا پڑا ، کیا مودی نے انہیں دور کرنے اور راحت پہنچانے کے لئے کچھ کیا؟  سپریم کرٹ کی پھٹکار کے بعد جب وہ حرکت میں آئے تب تک سو سے زائد زندگیاں موت کی بھینٹ چڑھ چکی تھیں ۔ یہی نہیں ۲۰۲۰ء میں جب کووڈ ۔۱۹؍ ،ساری دنیا میں اپنے پیر پھیلا رہا تھا، عالمی ادارہ صحت کی تنبیہ کے باوجود ہمارے پردھان سیوک اور ان کی ٹیم بنگال کے الیکشن میں احتیاطی تدابیر کے بغیر ریلی میں جُٹی ہزاروں کی بھیڑ کی جان خطرے میں ڈال رہی تھی تودوسری طرف کمبھ میلے میں لاکھوں زائرین گنگا میں ڈبلی لگاکر ’آبیل مجھے مار‘ کی طرح کورونا کو دعوت دے رہے تھے۔ ان غیر ذمہ دارانہ حرکتوں نے کتنوں کی جانیں لیں، اس کا کسی کو علم نہیں، نہ حکومت اس کا علم ہونے دے گی۔ قارئین کو یہ بھی یاد دلادیں کہ آزادی کے امرت مہوتسو کے موقع پر یعنی سال رواں میں مودی نے ہندوستان کی ایک بیٹی کو خلائی سفرپر روانہ کرنے اور ہرشہری کو نل جل اور شوچالیہ کے ساتھ پکا گھر دینے کا وعدہ کیا تھا ۔کیا اسے پورا کیا۔ سچ  یہ ہے کہ ان کی ساری اسکیمیں اور ابھیان ’منگیری لال کے سپنے ‘ جیسے ہوتے ہیں۔ ’سوچھ بھارت ‘ ابھیان کی تشہیر کے لئے مودی اوران کے لیڈروں نے کیا کیا ناٹک نہیں کئے لیکن اس کا اثر شروع کے چند ہفتوں یا مہینوں تک ہی نظر آیا ۔ رسوئی گیس سلنڈر کی بڑھتی قیمتوں کے بعد ’اُجولا‘ اسکیم کا بھی یہی حشر ہوا کیونکہ غریب طبقہ خود کو ان قیمتوں کا متحمل نہیں پاتا ہے۔ مودی خودنمائی اور خودستائی کے دلدادہ ہیں۔ انہوںنے جس طرح شخصیت پرستی کورواج دیا، اس کی مثال عالمی سطح پر بہت کم دیکھنے کو ملتی ہے اور چونکہ ان کے پاس ٹھوس کارکردگی کے نام پر دکھانے کیلئے کچھ نہیں ہوتا اس لئے وہ لوگوں کی توجہ ملک کو لاحق بنیادی اور سنگین مسائل سے ہٹانے کے لئے اپنے پٹارے سے نت نئی اسکیموں کے ذ ریعے لوگوں کو الجھائے رکھنے اوراپنی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کا کام لیتے ہیں۔ فی الوقت ملک کا سب سے بڑا مسئلہ بڑھتی بیروزگاری ، مہنگائی ، غربت اور چرمراتی معیشت ہے لیکن آپ نے کبھی بھی مودی یا ان کے وزیروں کو ان موضوعات پر بولتے نہیں سنا ہوگا۔ ایک مرکزی وزیرمملکت نے تو یہ کہہ کر حد کردی کہ ملک میں مہنگائی کہاں ہے؟ وزیرخزانہ نے یہ کہہ کر لوگوں کو تسلی دی کہ ہماری معیشت دوسرے کئی ملکوں سے بہتر ہے او ر ہندوستان کو کساد بازاری کا خطرہ نہیں ہے۔ گزشتہ سال یوم آزادی کے موقع پرمودی نے لوگوں کو راشٹرگان گانے کو کہا تھا، اس بار ’گھر گھر ترنگا‘ ابھیان کا اعلان کیا ہے کہ اس سے لوگوں میں وطن سے محبت وعقیدت اوریکجہتی کو فروغ ملے گا۔ کیا یہ ممکن ہے؟ حب الوطنی کا تعلق دل سے ہوتا ہے دکھاوے سے نہیں۔ یہ جذبہ ملک میں قدرتی آفات اور بیرونی حملوں کے موقعوں پر ’دامے ، درمے ، قدمے ، سخنے ‘ کی صورت میں ہر طبقے میںدیکھنے کو ملتا ہے۔  ہم ’گھر گھر ترنگا‘ کے خلاف نہیں۔ اسے لوگوں کے صوابدید پر چھوڑدینا چاہئے۔ راشٹر گان کو لازم کرنے یا ترنگا نہ لہرانے سے وطن سے محبت میں کمی واقع نہیں  ہوتی ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK