Inquilab Logo Happiest Places to Work

نبی کریم ﷺ کا ’امتی‘ ہونے کا حق ادا کیجئے

Updated: September 28, 2023, 10:25 AM IST | Maulana Khalid Saifullah Rahmani | Mumbai

ایمان کی بنیاد دو باتوں توحید اور رسالت پر ہے۔ توحید سے مراد یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ اپنی ذات ، اپنی صفات و اختیارات اور بعض حقوق جیسے سجدہ، عبادت وغیرہ کے اعتبار سے یکتا ہے کوئی اس کا شریک و سہیم نہیں۔

At this time, the biggest responsibility is to introduce the new generation to Sirat. Photo. INN
اس وقت سب سے بڑی ذمہ داری نئی نسل کو سیرت سے متعارف کرانے کی ہے۔ تصویر:آئی این این

ایمان کی بنیاد دو باتوں توحید اور رسالت پر ہے۔ توحید سے مراد یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ اپنی ذات ، اپنی صفات و اختیارات اور بعض حقوق جیسے سجدہ ، عبادت وغیرہ کے اعتبار سے یکتا ہے کوئی اس کا شریک و سہیم نہیں ۔ رسالت سے مراد یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ انسان کی ہدایت اور اس کی تعلیم و تزکیہ کے لئے وقتاً فوقتاًاپنے رسول بھیجتے رہے ہیں ۔ حضرت آدم علیہ السلام جیسے پہلے انسان تھے اسی طرح پہلے پیغمبر بھی تھے۔ نبوت و رسالت کا یہ سلسلہ جناب محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم پر ختم ہوچکا ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ صرف رسول بنایا ، بلکہ ختم نبوت کے تاج سے بھی سرفراز فرمایا، اس لئے قیامت تک اس دنیا میں آپؐ ہی کی نبوت سایہ فگن رہے گی ۔
ربیع الاول کا مہینہ جاری ہے جس سے آپ ﷺ کی حیات ِطیبہ کے کتنے ہی واقعات متعلق ہیں ۔ ہمیں اس بات پر غور کرنا چاہئے کہ آپ ؐ کے ’’ اُمتی ‘‘ ہونے کا جو شرف ہمیں حاصل ہے اور آپؐکی غلامی کے جس تمغۂ افتخار سے رب کائنات نے ہمیں نوازا ہے، اس کے تقاضے کیا ہیں ؟ اور آپ ؐ کے کیا حقوق اس اُمت پر ہیں ؟ 
اُمت پر آپ ؐ کا پہلا حق آپؐ کی تعظیم اور آپ ؐ سے متعلق ایک ایک چیز کا احترام ہے، نبی اور اُمت کا تعلق محض قانونی تعلق نہیں ہوتا، جو محبت و گداز اورجذبۂ توقیر و احترام سے خالی ہو، اُمت کا اپنے نبی سے تعلق خالص روحانی اور ایمانی تعلق ہے، اس تعلق میں نمایاں جہت احترام و تکریم کی ہے؛ کیونکہ اﷲ تعالیٰ نے خود آپؐ کو پوری انسانیت پر فضیلت عطا فرمائی ہے۔ گزشتہ پیغمبروں کی بعثت ایک خاص قوم اور گروہ کی طرف ہوتی تھی، حضرت نوح علیہ السلام کی ان کی قوم کی طرف، (اعراف : ۵۹ ) حضرت ہود علیہ السلام قوم عاد کی طرف مبعوث ہوئے، (اعراف : ۶۵ ) حضرت صالح علیہ السلام کو قوم ثمود کیلئے بھیجا گیا، ( اعراف: ۷۳ ) حضرت لوط علیہ السلام کی بعثت ان کی قوم کی طرف ہوئی ( اعراف: ۸۰ ) اہل مدین کی ہدایت کیلئے حضرت شعیب علیہ السلام کو نبوت عطا کی گئی ، (اعراف : ۸۵ ) لیکن رسولؐ اﷲ کی نبوت پوری انسانیت کیلئے ہے، (السبا : ۲۸ )۔ آپ ؐ تمام عالم کیلئے رحمت بناکر بھیجے گئے، ( انبیاء : ۱۰۷) پھر آپؐسے کہلایا گیا کہ’’ میں تم سب کی طرف رسول بناکر بھیجا گیا ہوں ۔‘‘ (اعراف : ۱۵۸) اس حقیقت کی طرف آپؐ نے اپنے ایک ارشاد میں بھی اشارہ فرمایا ہے کہ پانچ چیزیں مجھے امتیازی طورپر عطا کی گئیں ، جو مجھ سے پہلے کسی کو عطا نہیں کی گئی تھیں ، ان میں سے ایک یہ ہے کہ پہلے انبیاء ایک خاص قوم کی طرف بھیجے جاتے تھے اور مجھے پوری انسانیت کی طرف بھیجا گیا ہے۔ (بخاری مع الفتح : ۱/۵۵۳، مسلم ، حدیث نمبر : ۵۲۱ )
خود اﷲ تعالیٰ کی طرف سے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی تکریم کا حال یہ ہے کہ تمام پیغمبروں سے عہد لیا گیا کہ اگر آپؐ ان کی موجودگی میں تشریف لائیں تو وہ آپؐپر ایمان لائیں اور آپؐکا تعاون فرمائیں ۔ ( آل عمران : ۸۱ ) اﷲ تعالیٰ نے قرآن مجید میں کسی اور شخصیت کی قسم نہیں کھائی، لیکن جناب محمد رسولؐ اﷲ کی قسم کھائی ہے: ’’(اے حبیب ِ مکرّمؐ) آپ کی عمرِ مبارک کی قَسم، بیشک یہ لوگ (بھی قومِ لوط کی طرح) اپنی بدمستی میں سرگرداں پھر رہے ہیں ۔‘‘( الحجر : ۷۲ ) قرآن کے بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے عام طور پر انبیاء کو ان کے نام سے مخاطب فرمایاہے: یَا آدَم ( بقرہ: ۳۵ ) یَا نُوْح (ہود : ۴۸ )، یَا عِیْسیٰ ابْنَ مَرْیَم (المائدہ : ۱۱۰)، یَا اِبْرَاہِیْم (صافات: ۱۰۴)، یَا مُوسیٰ (اعراف: ۱۴۴) مگر آپ ؐ کو ہمیشہ یَااَیُّہَا الرَّسُوْل کے گرامی مرتبت لقب سے یاد فرمایا ( المائدہ: ۴۱، ۶۷) اور کہا گیا: ’’ اے نبی! ‘‘ ( انفال : ۶۲)
جب خود اﷲ تعالیٰ کی طرف سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی توقیر و تکریم کا یہ معاملہ ہے تو اُمت پر کس قدر ؐکی توقیر واجب ہوگی؟ چنانچہ اسی پہلو سے حکم دیا گیا کہ آپؐکو اس طرح نام لے کر نہ پکارا جائے جیساکہ ایک دوسرے کو آواز دیتے ہیں : ’’(اے مسلمانو!) تم رسول کے بلانے کو آپس میں ایک دوسرے کو بلانے کی مثل قرار نہ دو۔‘‘ (النور : ۶۳) آپؐ کی فضیلت اور بلندیٔ درجات کی وساطت سے اُمت کو بھی یہ اعزاز حاصل ہوا کہ اسے تمام اُمتوں میں سب سے بہتر اُمت قرار دیا گیا۔ ( آل عمران : ۱۱۰) آخرت میں بھی اﷲ تعالیٰ کی طرف سے آپ ؐکو ایک خاص شان عطا کی جائے گی اور آپؐ کو مقام محمود سے سرفراز کیا جائے گا، جس کا خود قرآن میں ذکر ہے ، ( اسراء : ۷۹) جس میں کوئی آپ ؐکا شریک و سہیم نہیں ہوگا ، اور آپ ؐ کو نفسا نفسی کے اس دن میں بھی شفاعت کا حق دیا جائے گا۔ ( بخاری مع الفتح : ۱۱ / ۵۳۲، مسلم ، حدیث نمبر : ۲۸۶۳) 
آپ ﷺ کے احترام کا تقاضا یہ ہے کہ آپؐکا نام نامی پورے احترام سے لیا جائے اور جب اسم گرامی آئے تو درود شریف پڑھاجائے ، نام لینے والا بھی درود پڑھے اور سننے والا بھی ۔
قرآن نے اس بات سے منع کیا ہے کہ آپ ؐ کے سامنے اپنی آواز بلند کردیں : ’’اے ایمان والو! تم اپنی آوازوں کو نبیِ مکرّمؐ کی آواز سے بلند مت کیا کرو اور اُن کے ساتھ اِس طرح بلند آواز سے بات (بھی) نہ کیا کرو جیسے تم ایک دوسرے سے بلند آواز کے ساتھ کرتے ہو ۔‘‘  (الحجرات:۲) احترام نبویؐ کا ایک اہم پہلو آپؐ کی سنتوں کا احترام ہے۔ آپؐکے معمولات کو چونکہ آپؐ کی ذات والا صفات سے نسبت حاصل ہوگئی ہے، اس لئے ان کی حیثیت عام افعال کی سی نہیں ہے ، ان کو اپنی زندگی کا معمول بنانا چاہئے۔ حضورؐ سے تعلق اور آپ ؐ کے احترام کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ ان علوم سے بھی محبت ہو جو آپؐ کی ذاتِ مبارکہ سے متعلق ہیں ، قرآن کی محبت، حدیث کی محبت اور قرآن وحدیث پر مبنی علوم کی محبت۔
کسی شخصیت کا احترام اس کی معرفت سے پیدا ہوتا ہے، اس وقت سب سے اہم مسئلہ یہ ہے کہ ہماری نسل سیرت ِنبویؐ سے نابلد ہے۔ مادی ترقی کے رجحان نے نئی نسل اور اسلامی لٹریچر کے درمیان خلیج پیدا کردی ہے، ان میں بعض طلبہ وہ ہیں جو مستشرقین کی کتابوں سے سیرت نبوی ؐکو پڑھتے ہیں ، ان کتابوں میں میٹھا زہر سمویا ہوا ہوتا ہے۔ مستشرقین کی کوشش ہوتی ہے کہ تحسین واعتراف اور ظاہری توقیر و احترام کے ساتھ ساتھ بین السطور میں ایسی باتیں ذکر کردی جائیں کہ پڑھنے والوں کے دلوں میں رسولؐ اﷲ کی عظمت کم ہوجائے اور جیسے دوسری انقلابی شخصیتوں کے تذکرے پڑھے ہیں ، اسی نقطۂ نظر سے لوگ آپؐکی سیرت کا بھی مطالعہ کریں ۔ یہ بہت خطرناک صورتِ حال ہے اور ضرورت ہے کہ ہم پورے اہتمام کے ساتھ نوجوان نسل کو ان کتابوں سے سیرت پڑھائیں ، جنہیں محبت اور عقیدت و احترام کی روشنائی میں ڈبوکر لکھا گیا ہے، یہی مؤمن کیلئے سب سے قیمتی متاع اور بے بدل سوغات ہے۔ اس پس منظر میں ہم سب کو غور کرنے کی ضرورت ہے کہ کیا ہم حضورؐ کا اُمتی ہونے کا حق ادا کررہے ہیں ؟

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK