Inquilab Logo

عوام کو سوچنا ہوگا کہ وہ کیسی حکومت منتخب کریں!

Updated: December 18, 2023, 1:41 PM IST | P Chidambaram | Mumbai

راجستھان میں حکومت مخالف لہر اور چھتیس گڑھ میں قبائلی ووٹروں کی ناراضگی کے باعث کانگریس کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ مگر خوشخبری یہ ہے کہ ان ریاستوں میں حاصل شدہ ووٹوں کا فرق زیادہ نہیں ہے۔

People want a government that solves the real problems of the people. Photo INN
عوام ایسی حکومت چاہتے ہیں جو عوام کے حقیقی مسائل کو حل کرے۔تصویر آئی این این

ہر الیکشن ، خاص طور پر ریاستی انتخابات کے بعد، بہت شور مچایا جاتا ہے۔ فاتح سیاسی جماعت زور و شور کے ساتھ جشن مناتی ہے، وہیں  ہارنے والی پارٹیوں  کے کارکنوں  میں بھی ہنگامہ بپا ہوتا ہے مگر چار ریاستوں  میں  حالیہ انتخابات کے نتائج کے اعلان کے بعد ماحول نسبتاً پرسکون ہے جو ایک غیر معمولی بات ہے۔ اگر یہ حریف سیاسی جماعتوں  کے سنجیدہ رویہ کا ثبوت ہے تو اس کا خیر مقدم کیا جانا چاہئے لیکن اگر یہ کانگریس کی اداسی کا مظہر ہے تو معاملہ تشویشناک ہے۔
 میں  نے اپنے اسی کالم میں  کہا تھا کہ چھتیس گڑھ کے انتخابی نتائج کانگریس کے حق میں  ہونگے لیکن نتائج نے مجھے غلط ثابت کیا۔ ریاست میں  کانگریس کی ۳۵؍ سیٹوں  کے مقابلے بی جے پی نے ۵۴؍ سیٹیں  حاصل کرکے بازی مار لی۔ چھتیس گڑھ میں  ابتدا ہی سے کانگریس کا پلڑا بھاری تھا اور تقریباً سبھی سیاسی تجزیہ نگاروں  نے اسے تسلیم کیا تھا۔ عوام کی بڑی تعداد سے گفتگو کرنے کے بعد میں  نے بھی اسے قبول کیا تھا۔ لیکن بی جے پی کے علاوہ ہر کوئی، غیر متوقع نتائج پر حیران ہے۔ نتائج کا تجزیہ بتاتا ہے کہ عام سیٹوں  سمیت درج فہرست ذاتوں  اور قبائل کی اکثریت والی سیٹوں  پر کانگریس کا ووٹ فیصد کافی کم ہوا۔ کانگریس درج فہرست قبائل کی اکثریت والی ۱۴؍ سیٹیں  ہار گئی جو ۲۰۱۸ء میں  اس نے بی جے پی سے حاصل کی تھیں ۔ ان ۱۴؍ سیٹوں  کا نقصان ہی بڑا نقصان ثابت ہوا۔ 
 آپ کو یاد ہوگا کہ راجستھان اور ایم پی میں  کانگریس کی جیت کے دعوؤں  کے متعلق مَیں  پر اعتماد نہیں  تھا۔ راجستھان میں  گہلوت حکومت نے اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا تھا لیکن وہاں  حکومت مخالف لہر انگڑائی لے رہی تھی۔ نتیجتاً گہلوت حکومت کے ۱۷؍ وزراء اور کانگریس کے ۶۳؍ ایم ایل اے ہار گئے۔ اس کا سبب وزراء اور ایم ایل ایز کے خلاف عوام کی شدید ناراضگی کا نتیجہ تھا۔ بظاہر، اندرونی سروے اس بڑھتی ناراضگی کی شدت کو محسوس نہیں  کرپائے۔ بالآخر، راجستھان کے رائے دہندگان کی (کانگریس اور بی جے پی کو باری باری موقع دینے کی) ۱۹۹۸ء سے چلی آرہی روایت غالب آگئی۔
 رائے عامہ کے مطابق، ایم پی میں  شیوراج سنگھ حکومت، ناکامیوں  اور بدعنوانی کے الزامات کا سامنا کررہی تھی لیکن اس نے کچھ ایسی اسکیمیں  نافذ کیں  جن سے متعلقہ عوام خصوصاً خواتین کو براہِ راست فائدہ ملا۔ سیاسی مشاہدین `’’لاڈلی بہنا‘‘ اور اس سے جڑی اسکیموں  کو کریڈٹ دیتے ہیں ۔ بی جے پی کے دور حکومت میں  یہ ریاست ہندوتوا کی لیباریٹری بن گئی تھی اور یہاں  پر آر ایس ایس اور اس کی ذیلی تنظیموں  نے فعال ہوکر اپنی جڑیں  مضبوط کرلی تھیں ۔ بی جے پی حکومت کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کیلئے بڑے پیمانے پر کانگریس کو مؤثر تنظیمی کوشش کی ضرورت تھی لیکن کانگریس نے بظاہر ایسی کوشش نہیں  کی۔ بی جے پی نے مرکزی وزراء اور ممبران پارلیمنٹ سمیت `اثرورسوخ رکھنے والے اُمیدواروں  کو میدان میں  اتار کر ریاست کی انتخابی جنگ جیت لی۔ بی جے پی کے وسائل سے لیس ہونے کا شاندار نتیجہ یہ نکلا کہ اس نے ۱۶۳؍ سیٹیں  جیت لیں  اور کانگریس محض ۶۶؍ سیٹوں  پر سمٹ گئی۔
 میں  نے تلنگانہ کے دیہی علاقوں  میں  بی آر ایس حکومت کے خلاف عوام کی ناراضگی کو محسوس کیا تھا اور حیرت انگیز نتیجہ کی پیشین گوئی کی تھی۔ تشکیل ِ تلنگانہ کے بعد مفید اسکیمیں  متعارف کروانے کا سہرا، کے چندر شیکھر راؤ کے سر باندھا جاتا ہے، مثال کے طور پر، ریتھو بندھو اسکیم جس کے تحت کسانوں  کو براہ راست رقم منتقل کی جاتی ہے لیکن ایک ہی خاندان کے چار افراد کے ہاتھوں  میں  پورا اقتدار، بدعنوانی کے الزامات، صرف حیدرآباد کی ترقی، الگ تھلگ رہنے والا وزیراعلیٰ اور ریاست میں  بڑھتی بے روزگاری جیسی ناکامیوں  نے ریاست میں  حکومت مخالف لہر کو جنم دیا۔ ۱۶؍ ستمبر ۲۰۲۳ء کو حیدرآباد میں  کانگریس ورکنگ کمیٹی کی میٹنگ کے بعد ٹکوگوڈا ریلی کے دوران مَیں  نے اس حکومت مخالف لہر کی شدت کو محسوس کیا تھا۔ ریونت ریڈی نے اس لہر کا فائدہ اٹھایا اور اپنی جارحانہ انتخابی مہم کے ذریعے کانگریس کو زبردست فتح سے ہمکنار کیا۔
 ہندی بیلٹ کی تین ریاستوں  میں  شکست کے باوجود کانگریس کا ووٹ محفوظ ہے۔ اچھی خبر یہ ہے کہ یہاں  دو قطبی اور مسابقتی سیاست ابھی زندہ ہے۔ چار ریاستوں  میں  کانگریس کو (۲۰۱۸ء ہی کی طرح) ۴۰؍ فیصد ووٹ ملے ہیں  جو جمہوریت کیلئے خوش آئند اشارہ ہے۔ لیکن بی جے پی نے چاروں  ریاستوں  میں  زیادہ ووٹ حاصل کئے اور ریاستوں  کے صدرمقام اور شہری علاقوں  کی بیشتر سیٹوں  پر قبضہ کرلیا۔ مزید ایک اچھی خبر یہ ہے کہ ایم پی کے علاوہ دیگر ریاستوں  میں  بی جے پی اور کانگریس کے حاصل کردہ ووٹوں  کا فرق بہت کم ہے۔ چھتیس گڑھ میں  جو فرق ہے اس کی اہم وجہ قبائلی ووٹوں  کا تقسیم ہونا ہے۔ درج فہرست قبائل کیلئے مختص ۲۹؍ سیٹوں  میں  سے بی جے پی نے ۱۷؍سیٹیں  جیتیں  اور کانگریس ۱۱؍ سیٹیں  جیتنے میں  کامیاب ہوئی۔ راجستھان میں  بھی ووٹوں  کا فرق کافی کم ہے۔
 ووٹوں کا یہ فرق ایسا نہیں  ہے کہ اِسے پُر نہ کیا جاسکے لیکن اس کاز کیلئے انتخابات کے بدلتے رجحانات کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔ اب الیکشن صرف تقاریر، ریلیوں ، پالیسیوں  اور منشور جاری کرنے تک محدود نہیں  رہا۔ یہ چیزیں  ضروری ہیں  لیکن کافی نہیں ۔ اب صورتحال یہ ہے کہ اخیر وقت تک تشہیر، بوتھ مینجمنٹ اور عموماً ووٹ نہ دینے والے ووٹر کو پولنگ بوتھ تک لے آنے کی اہلیت کی بنیاد پر الیکشن جیتا اور ہارا جارہا ہے۔ اس کیلئے وقت، توانائی اور غیر محدود وسائل کی ضرورت ہوتی ہے خصوصی طور پر ان پارلیمانی حلقوں  میں  جہاں  کے نتائج بی جے پی کے حق میں  ہیں ۔
 اگر بی جے پی کی یہی لہر قائم رہی تو ۲۰۲۴ء بھی اسی کا پلڑا بھاری رہ سکتا ہے۔ علاوہ ازیں ، بی جے پی اپنے ہندوتوا ایجنڈے پر مزید قوت صرف کریگی جس سے، خصوصاً شمالی ریاستوں  میں ، فرقہ کی بنیاد پر ووٹ تقسیم ہوسکتے ہیں ۔ اس تقسیم سے ملک کے وفاقی نظام، سیکولرزم، فرد اور میڈیا کی آزادی، حقوقِ انسانی اور مذہبی آزادی کو شدید نقصان پہنچے گا۔یاد رہے کہ ہندوستانی عوام کو صرف حکومت کا انتخاب نہیں کرنا ہے بلکہ ایک ایسی حکومت کا انتخاب کرنا ہے جو حکمرانی کے اُصولوں  اور جمہوریت کے ستونوں کے تحفظ کو یقینی بنائے، عوام کے حقیقی مسائل کو حل کرے اور ملک کو پائیدار ترقی کی راہ پر لے آئے جس سے غربت کا خاتمہ ہو اور خوشحالی عوام کے چہروں  پر، اُن کی باتوں  میں  اور اُن کے رہن سہن میں  دکھائی دے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK