آج ،۱۰؍دسمبر کو مولانا محمد علی جوہر کا ۱۴۵؍ واں یومِ ولادت ہے۔ ہم مولانا جوہرؔ کو اُن کی جدوجہد آزادی کے حوالہ سے زیادہ جانتے ہیں شاعری کے حوالہ سے کم۔ اس مضمون میں شاعری سے بحث کی گئی ہے۔
EPAPER
Updated: December 10, 2023, 12:30 PM IST | Sayyed Hamid | Mumbai
آج ،۱۰؍دسمبر کو مولانا محمد علی جوہر کا ۱۴۵؍ واں یومِ ولادت ہے۔ ہم مولانا جوہرؔ کو اُن کی جدوجہد آزادی کے حوالہ سے زیادہ جانتے ہیں شاعری کے حوالہ سے کم۔ اس مضمون میں شاعری سے بحث کی گئی ہے۔
اصغرگونڈوی کا شعر ہے:
اصغر سے ملے لیکن اصغر کو نہیں دیکھا
اشعار میں سنتے ہیں کچھ کچھ وہ نمایاں ہے
اقبالؔ نے کہا ہے:
اقبال بھی اقبال سے آگاہ نہیں ہے
کچھ اس میں تمسخر نہیں واللہ نہیں ہے
اور جوہرؔ، اصغرؔ اور اقبالؔ کے معاصر اس صدی کے ناقد شاعر ٹی ایس ایلیٹ کا نظریہ ہے کہ شعر کی تخلیق میں شاعر کا دماغ صرف ایک حاملانہ یا Catalytic کردار ادا کرتا ہے۔ گویا وہ کیمیا کے اس عمل کے مشابہ ہوتا ہے جو ایک شے دوسری دو اشیاء میں کیمیاوی تغیر پیدا کرنے کیلئے کرتی ہے لیکن خود متاثر نہیں ہوتی۔ یعنی شاعری کا تعلق شاعر کی شخصیت، قصد اور شعور سے براہ راست نہیں ہوتا۔ ایلیٹ کایہ نظریہ ایک حد تک اقبال اور اصغر کے مذکورہ بالا مقطعوں سے ہم آہنگ ہے اور تخلیق شعر کے غیر شخصی پہلو پر زور دیتا ہے لیکن اس نظریہ کا اطلاق عمل ِ شعر سازی کے ہر روپ پر نہیں ہوتا اور نہ ہر شاعر پر ہوتا ہے۔ بعض شخصیتیں ایسی گزری ہیں جن میں شاعر اور انسان کے درمیان نہ کوئی فاصلہ نظر آتا ہے نہ حد ّ فاصل ۔ اس کی ایک دلفریب مثال محمد علی جوہر کی شخصیت اور شاعری میں ملے گی۔ شعریت لہو کی طرح محمد علی کے رگ و پے میں جاری و ساری تھی، جذبات اوڑھنا بچھونا تھے ہمارے اس مایۂ ناز راہبر کے جس نے اس صدی کی دوسری اور تیسری دہائیوں میں اپنی صحافت، خطابت ، سیاست اور (ایک حد تک ) شاعری سے ہندوستان بھر میں تہلکہ مچا دیا تھا۔
محمد علی نے کیا کیا کیا، اس کی فہرست بہت طویل ہے، اس کا صلہ انہیں کس کس شکل میں ملا اس کی فہرست طویل تر ہے۔ محمد علی ہندوستانی مسلمانوں کے وہ پہلے اور آخری رہنما تھے جو رہن سہن، افتادِ طبع، معاشرت، رسوم و رواج ، عقائد و افکار ، پس منظر، شوق و میلان، آرزوؤں اور تمناؤں … غرضیکہ زندگی کے ہر پہلو میں عامۃ المسلمین ہند کے ترجمان تھے۔ جوہر کی جذباتیت کا انعکاس ان کی شاعری کے علاوہ ان کی سیاست، مذہب پرستی، وطن دوستی اور صحافت میں ہوا ہے۔
محمد علی نے کیا کیا کیا، اس کی تفصیل کا یہ موقع نہیں ۔ اجمال یہ ہے کہ ہندی مسلمانوں کو ہراس اور سراسیمگی اور شکست خوردگی اور انگریز دوستی اور غلامی سے نفور (نفرت کرنے والا) کردیا ۔ مسلمانوں اور ہندوؤں کے درمیان جو فاصلہ تھا اسے مٹایا۔ ان کی شخصیت اور سیاست میں ہمیں وطن دوستی اور اسلام پرستی کا دلکش امتزاج ملتا ہے۔
جہاں تک صلہ کی بات ہے، اس کا آغاز ستائش سے پرستش سے ہوا اور انجام بدگمانی اور اتہام پر۔ ایک طرف رفعت طلبی تھی اور جوش آزادی اور طغیان افتخار، دوسری جانب تھا سوئے ظن، حسد اور غلامی کا خمار۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ہمارے اس بڑے رہنما کی عمر عزیز چومکھی لڑنے میں صرف ہوئی۔ موانع بہت تھے اور وقت کم۔ فعال ہستیاں تالیف قلوب میں وقت کیسے گزاریں ۔ عمر کی تنگ دامنی کا احساس انہیں تیزروی پر مجبور کرتا ہے۔ اس تیزروی میں بہت سےمعاصرین کے پیر کچل جاتے ہیں اور مجروحین کا ردعمل راہ کا روڑا بن جاتا ہے اور رفتار پہلے سے زیادہ سست ہوجاتی ہے۔ سب کو ساتھ لے کر چلنے کی کوشش کی جائے تو شاید آگے بڑھنے کے بجائے پیچھے ہٹنا پڑے۔ یہی مرحلہ تھا جس سے محمد علی کو سابقہ پڑا اور انہوں نے اسے حل کرنے میں تحمل سے زیادہ تیزی اور ہوش سے زیادہ جوش سے کام لیا۔ محمدعلی کی طنزنگاری ، سخت گوئی اور شعلہ مزاجی نے:
گرمی سہی سخن میں ، و لیکن نہ اس قدر
کی جس سے بات اس نے شکایت ضرور کی
یہی وصف تھا جس نے بعض دوستوں کو کنارہ کش اور بعض کو در پے آزار کردیا اور مخالفوں کا ہجوم خود محمد علی کے سکون خاطراور حصول مقصد پر اثرانداز ہونے لگا۔ خاقانی نے، جس کی حبسیہ شاعری جوہر کی حبسیہ شاعری کی طرح معروف ہے، اپنے ایک حبسیہ قصیدہ میں کہا ہے:
دست آہنگر مرا در مارِ ضحاکی کشید
گنج افریدوں چہ سود اندر دلِ دانائی من
یہ شعر اس کیفیت کا آئینہ دار رہا جس سے محمد علی کو آخری ایام میں سروکار رہا۔ لیکن محمد علی کے سینے میں شیر کا دل تھا، انہوں نے بیماریوں اور عداوتوں کی یلغار کے آگے کبھی سر نہ جھکایا، کبھی ہار نہ مانی۔ آخری وقت تک وہ موانعات، مصائب اور مخالفتوں سے مردانہ وار لڑتے رہے۔ ہندوستان کی آزادی، خلافت کا استحکام، ہندومسلم اتحاد، کلمۂ حق کی برتری ، یہی چاروں مقصد تھے محمد علی کی زندگی کے اور ہدف تھے ان کی ساری جدوجہد اور تحریر و تقریر کے۔ خلافت مٹ گئی، ہندو مسلم اتحاد کی قبا سیاست اور فرقہ واریت کے ہاتھوں تار تار ہوئی ، آزادی کے امکانات پسپا ہونے لگے اور حق نے نہ معلوم کتنے محاذوں پر باطل سے شکست کھائی لیکن محمد علی کا پائے ثبات نہ ڈگمگایا۔
پیرطریقت مولانا عبدالباری فرنگی محلی تک سے اختلاف ہوا، ظفرعلی خاں جیسے شعلہ طراز، خواجہ حسن نظامی جیسے جادونگار سے بحث چھڑی، مخالفین نے کون سا الزام تھا جو نہیں لگایا لیکن محمد علی کے قصر اعتماد میں پھر بھی کوئی دراڑ نہ پڑی۔ وہ ترکی بہ ترکی جواب دیتے رہے، آستین چڑھا کر ، خشمگیں ہوکر۔ اب جبکہ ان مباحثوں اور دشنام طرازیوں کی گرد کبھی کی بیٹھ چکی ہے، نگاہ انصاف کو محمد علی کی دیوقامتی، راست روی کا اندازہ بآسانی ہوسکتا ہے۔ محمد علی کے جنون میں ایک قرینہ، ان کی دیوانگی میں ایک مقصد، ان کے جوش میں ایک بصیرت اور ان کے ظاہری تلون میں بھی ایک شانِ استقامت تھی۔
مولانا عبدالماجد دریابادی محمد علی کے متعلق لکھتے ہیں :
’’وہ محض حق کا طالب اور حق کا ساتھی تھا۔ جس چیز کو اس نے حق سمجھ لیا بس اسے دانت سے پکڑ لیا، پھر چاہے اس میں سب ہی کا ساتھ چھوڑ دینا پڑے۔ حق کے معاملہ میں نہ کسی دوست کی پروا، نہ عزیز کی، نہ بزرگ نہ خورد کی، نہ اپنے کسی محسن کی نہ اپنے مرشد کی۔‘‘
محمد علی کی شخصیت اور ان کے سیاسی پس منظر کو جانے بغیر ’جوہر‘ کی شاعری کو سمجھنا اور پوری طرح حظ اندوز ہونا دشوار ہے۔ ایک تو اس لئے کہ محمد علی کی شخصیت ناقابل تقسیم تھی ، خواہ سیاست ہو یا صحافت، مذہبی عقائد ہوں یا شاعری، سب پر ان کی باغ و بہار اور برق و شرار شخصیت کی چھاپ تھی ۔ دوسرے اسلئے کہ ان کا کلام سیاسی اور مذہبی اشارات و تلمیحات سے مملو ہے۔ شعریت ان کے مزاج کی ترکیب میں تھی۔ ماحول اور تربیت نے اسے اور چمکادیا۔ عمر اور بسیار جہت مصروفیات نے مشق سخن کی زیادہ مہلت نہ دی۔ شعر تب ہی کہا جب کہنے پر مجبور ہوگئے۔ چنانچہ جوہرؔ کی شاعری سراسر آمد ہے اور ان کی شخصیت کی طرح بے تصنع اور بے محابا۔ انہوں نے شعر ایک خاص کیفیت کے ماتحت لکھے ہیں جب کہ ان کا رووں رواں مترنم ہوتا تھا اور غایت سرور سے وہ ہمہ تن دست افشانی اور پاکوبی کیلئے آمادہ تقریباً وہی کیفیت جو رومی کے اس شعر سے چھلک رہی ہے:
یک دست جامِ بادہ و یک دست زلف یار
رقصے چنیں میانۂ میدانم آرزوست
محمد علی جوہرؔ مجموعہ کلام مختصر سا ہے۔ چند نظمیں ہیں عرضداشت بہ خدمت سرسید، فغانِ دہلی، نوحہ حسین، استقبال رمضان، وداع رمضان، شانِ کلکتہ ۔ قرآنی اشعار جوہر کے اشعار میں نگین خاتم کی طرح جڑے ہوئے ملتے ہیں ۔ حصۂ نظم نسبتاًضعیف ہے لیکن اس کو اوپر اٹھانے والی نظم دعائے اسیر ہے جو شاعر نے زنداں میں اپنی پیاری بیٹی آمنہ کی علالت پر لکھی تھی ۔ یہ چھوٹی سی نظم ، تصویر درد مرقع ہے محمد علی کے مزاج اور ان کے فلسفہ حیات کار میں ۔ چند اشعار دہرا رہا ہوں :
میں ہوں مجبور پر اللہ تو مجبور نہیں
تجھ سے میں دور سہی وہ تو مگر دور نہیں
امتحاں سخت سہی پر دلِ مومن ہی وہ کیا
جو ہر اک حال میں امید سے معمور نہیں
تیری صحت ہمیں مطلوب ہے لیکن اس کو
نہیں منظور تو پھر ہم کو بھی منظور نہیں
شانِ رحمت مجھے دکھلا کہ ہو تسکیں کا نزول
دلِ جوہر ہے یہ یارب جبلِ طور نہیں
زمانۂ طالب علمی کی غزلوں سے بھی اٹھان کا اندازہ ہوتا ہے:
خوش قسمتی کے آگے جھکایا نہ سر کبھی
اس خانماں خراب کو کتنا غرور تھا
یہ ستانے کی نکالی ہے انوکھی ترکیب
ظلم کا نام ستم گر نے حیا رکھا ہے
اسی کے منتظر ہم بھی ہیں جس کی تو ہے اے بلبل
بہار آنے پہ ہوگا فیصلہ دست و گریباں کا
غزلوں میں حالات حاضرہ کا انعکاس جابجا ہے۔ اکثر اشارتاً اور گاہے گاہےصراحتاً۔ ۱۹۱۶ء میں جب انگریزوں نے بغداد پر قبضہ کرلیا تو وہ غزل کہی جس کا مطلع ہے:
چند روزہ عیش ہے یہ جنت شداد کا
اس طرح ہرگز نہ ہوگا فیصلہ بغداد کا
پہلے بھی اکثر وہ نکلا مستحق شکر حق
جس کو ہم سمجھے تھے موقع شکوہ و فریاد کا
آج تک ہے ایک کنعانی سے شہرت مصر کی
فیض سے حسرت کے ہوگا نام فیض آباد کا
ہوگئے جوہر یہ کیسے بندۂ دام فریب
شور سنتےتھے بہت ہم حسرت و آزاد کا
کیا حوصلہ ہے اور کیسا یقین کہ شاعر ہر ملت کو روئے نصرت کی نقاب سمجھ رہا ہے۔ آخری شعر میں حسرت کو خراج ادا کیا ہے اور مقطع میں حسرت اور ابوالکلام آزاد کو بندۂ دام فریب میں جانے پر فہمائش کی ہے۔ خواہ نثر ہو یا نظم، تحریر ہو یا تقریر، جوہر صاف گوئی سے کبھی نہیں چوکے۔ فیصلہ کرنے، نتیجہ پر پہنچنے اور رائے بدلنے میں انہیں دیر نہ لگتی تھی۔ اپنی رائے سے کسی کے اختلاف کو وہ گوارا نہیں کرتے تھے۔ جوہرؔ، اقبال ؔ کے دل و جان سے گرویدہ تھے اور اس کے معترف کہ اسلام کے متعلق بصیرت حاصل کرنے میں کلام اقبال ان کا رہنما ہوا، لیکن خلافت کے متعلق اقبال کو خود سے ہمنوا نہ پا کر وہ اس قدر برہم ہوئے کہ اُنہیں ’’اقبال مرحوم‘‘ کہنے لگے۔
زنداں کا وجود اور سزا کی تہدید جوہرؔ کے جوش آزادی کو تیزتر کردیتی تھی۔ آزادی ٔ فکر و عمل اور جنگ حق و باطل کی علامت جوہرؔ کے یہاں معرکہ ٔ کربلا ہے۔ ایک شعر جو ضرب المثل ہوگیا ہے، اس کا ذکر آگے آئے گا ، ایک غزل تمام و کمال کربلا کے لئے وقف ہے:
روز ازل سے ہے یہی اک مقصد ِ حیات
جائے گا سر کے ساتھ ہی سودائے کربلا
مطلب فرات سے ہے نہ آبِ حیات سے
ہوں تشنۂ شہادت و شیدائے کربلا
جوہرؔ جہاں آزادی کے ترانے الاپتے ہیں ، جب وہ حق و باطل کی لڑائی میں رجز خوانی کرتے ہیں ، جہاں وہ توحید کے ترانے گاتے ہیں ، جب وہ ماسوا سے برأت کا اعلان کرتے ہیں وہاں ان کی شاعری سحر سے گزر کر اعجاز کے منصب پر فائز ہوجاتی ہے اور انہیں حافظؔ، آتشؔ اور اقبالؔ کی ہمنوائی کا شرف حاصل ہوتا ہے:
دور حیات آئے گا قاتل قضا کے بعد
ہے ابتدا ہماری تری انتہا کے بعد
اک شہر آرزو پہ بھی ہونا پڑا خجل
’’ہل من مزید‘‘ کہتی ہے رحمت دعا کے بعد
قتل حسینؓ اصل میں مرگ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد
تجھ سے مقابلہ کی کسے تاب ہے ولے
میرا لہو بھی خوب ہے تیری حنا کے بعد
کوئی اور شاعر ہے اردو اور فارسی ادبیات میں جو توحید کے نشے سے جوہرؔ کی طرح سرشار ہو؟
میں کھو کے تری راہ میں سب دولت دنیا
سمجھا کہ کچھ اس سے بھی سوا میرے لئے ہے
توحید تو یہ ہے کہ خدا حشر میں کہہ دے
یہ بندہ دو عالم سے خفا میرے لئے ہے
اس رندِ بادۂ الست نے راہِ حق میں نہ دین کی فکر کی نہ دنیاکی، سب سے خفا ہوگیا، سب کو خفا کردیا۔ جو خدا کے ساتھ دیوانہ تھا، محمدؐ کے ساتھ بھی ہوشیار نہ رہ سکا۔ زنداں میں اس خوش بخت کو دیدار ِ حبیبؐ نصیب ہوا ۔ زنداں کے ظلمات میں جو آبِ حیات جوہرؔ کو ارزانی ہوا اس کی تاثیر زوالِ ناپزیر تھی،ملاحظہ کیجئے اشعار:
تنہائی کے سب دن ہیں تنہائی کی سب راتیں
اب ہونے لگیں ان سے خلوت میں ملاقاتیں
ہر آن تسلی ہے ہر لحظہ تشفی ہے
ہر وقت ہے دل جوئی، ہر دم ہیں مداراتیں
کوثر کے تقاضے ہیں تسنیم کے ہیں وعدے
ہر روز یہی چرچے، ہر روز یہی باتیں
معراج کی سی حاصل سجدوں میں ہے کیفیت
اک فاسق و فاجر میں اور ایسی کراماتیں
کرگئی زندۂ جاوید ہمیں =تیغ قاتل نے مسیحائی کی
صیادِ فرنگ پر طنز کے تیر برسائے جاتے ہیں :
نہ اڑ جائیں کہیں قیدی قفس کے
ذرا پر باندھنا صیاد کس کے
غالب ؔ کے اشعار کی بازگشت جوہرؔ کے یہاں ملے گی کہ وہ غالبؔ کے دلدادہ تھے۔ غالب نے کہا ہے:
قید حیات و بند غم اصل میں دونوں ایک ہیں
موت سے پہلے آدمی غم سے نجات پائے کیوں
جوہر کہتے ہیں :
جو رہنا چاہے قید غم سے آزاد
پھنسے پھندے میں کیوں تارِ نفس کے
قدروں کا ہیرپھیر ہے ورنہ سود (نفع) اسی میں ہے جسے دنیا دار زیاں سمجھتے ہیں :
چھوڑ میری فکر غافل رو خود اپنی قید پر
جس کو تو زیور سمجھتا ہے وہی زنجیر ہے
جس طنز نے محمد علی کی تحریر و تقریر کو تیر و نشتر کردیا تھا وہ کبھی کبھی اشعار میں بھی جلوہ گر ہوتا تھا:
اگلی سی اب وہ زعم کی طغیانیاں کہاں
شب بھر میں کیا چڑھی ہوئی ندی اتر گئی
صیاد کیا ہوئی وہ تری خوئے احتیاط
مرغِ خیال کے نہ مرے پر کتر گئی؟
(۱۹۷۶ء میں شائع ہونے والی کتاب ’مولانا محمد علی: شخصیت اور خدمات ۔ مرتبہ سید نظر برنی۔ سید حامد صاحب کا یہ طویل مضمون ہے۔)