Inquilab Logo

تقویٰ اسلام کے پورے اخلاقی، سماجی اور معاشی نظام پر محیط ہے۔ دوسری قسط

Updated: January 10, 2020, 4:50 PM IST | Dr. Md Bilal Khan

تقویٰ کردارسازی اور اصلاح نفس کا اہم ذریعہ ہے۔آج انسانیت جن مسائل سے دوچار ہے، اگر تجزیہ کیا جائے تو ان کا سبب یہی سامنے آئے گا کہ انسان تقویٰ کی صفات سے محروم ہوگیا ہے۔ مسلمان بھی اسی صورت میں انسانیت کے لئے کوئی نمونہ پیش کرسکتے ہیں کہ صرف نام کے مسلمان نہ ہوں، بلکہ تقویٰ کی روش پر چلنے والے ہوں۔ گزشتہ ہفتے شائع ہونے والے مضمون ’’قرآن مجید میں اہل تقویٰ کے اوصاف کا ذکر ‘‘ کا دوسرا اور آخری حصہ۔

مسلمان نماز پڑھتے ہوئے۔ تصویر : آئی این این
مسلمان نماز پڑھتے ہوئے۔ تصویر : آئی این این

ازدواجی زندگی

ازدواجی زندگی کے باب کا عنوان سورہ فرقان، آیت نمبر ۷۴؍ کی یہ دعا ہے : ’’اور (یہ) وہ لوگ ہیں جو (حضورِ باری تعالیٰ میں) عرض کرتے ہیں: اے ہمارے رب! ہمیں ہماری بیویوں اور ہماری اولاد کی طرف سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما اور ہمیں پرہیزگاروں کا پیشوا بنا دے۔‘‘ اگر اہل و عیال آنکھوں کی ٹھنڈک نہ بنیں تو رشتۂ ازدواج اور خاندان لایعنی ہوکر رہ جائیں گے۔ آیت کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس دعا کا مستجاب ہونا بھی تقویٰ پر منحصر ہے۔ ہمارے معاشرے میں خواتین کے ساتھ عام طور سے جو ظلم روا رکھا جاتا ہے اس کی بنیادی وجہ ازدواجی احکام سے روگردانی ہے۔ رسول کریمؐ نے اپنے آخری خطاب میں فرمایا :’’خواتین تمہارے پاس ایک خوبصورت اور نازک امانت ہیں۔‘‘ ازدواجی زندگی کے سلسلے میں دیگر ترغیبات، جنہیں محاسن تقویٰ کے طور پر بیان کیا گیا، درج ذیل ہیں: زوجین سے حتی الوسع عدل و احسان کی روش اختیار کرنا، عورتوں کے مہر خوشدلی سے ادا کرنا، صلح و آشتی سے رہنا، دل تنگ نہ کرنا اور آپس میں حسن سلوک کا مظاہرہ کرنا، بیویوں کو اچھی طرح بسانا، ناچاقی کی صورت میں تکلیف پہنچانے کی غرض سے نہ روکے رکھنا (البقرہ:۲۳۱، النساء: ۱۲۸۔۱۲۹)۔ عورتوں کے طلاق کے معاملات میں حکم خداوندی کی پیروی کرنا ۔ اگر صلح جوئی کی کاوشوں کے باوجود زوجین کے مابین اللہ کی حدود کے مطابق زندگی گزارنے پر رجوع نہ ہوسکے تو مطلقہ عورتوں سے نہ صرف خیراندیشی کا رویہ رکھا جائے بلکہ انہیں فائدہ دینے کی روش اختیار کرنی چاہئے، مثلاً جدائی ہونے کے باوجود رضاعت کی مدت میں نان نفقے کا اہتمام کرنا۔ آپس کے جھگڑے کو اولاد کی وجہ سے انگیخت نہ کرے، یعنی کسی بھی فریق کو اولاد کو اپنے مفاد اور فریق ثانی کو ضرر پہنچانے کی غرض سے استعمال نہ کرنا چاہئے۔ زوجین کو آپس میںکشادہ دلی اور فیاضی ٔ طبع کا درس دیا جارہا ہے، اس لئے کہ دل تنگی کی طرف جلدی سے مائل ہوجاتے ہیں۔ عموماً چھوٹے چھوٹے معاملات پر ناچاقی دلوں کی تنگی کی وجہ سے ہوتی ہے۔ جبکہ اہل تقویٰ کی خوبی یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو نفس کی تنگی سے بچا کر رکھتے ہیں۔
سماجی و سیاسی اقدار

موجودہ دور کا انسان ایک ایسے دوراہے پر کھڑا ہے جہاں ایک طرف مادی ترقی اپنے عروج پر پہنچ رہی ہے، فاصلے سمٹ رہے ہیں اور ذرائع مواصلات و ابلاغ نے حقیقتاً دنیا کو ایک عالمی قریہ بنا دیا ہے، تو دوسری جانب انسانی تہذیب سماجی رذائل کے امڈتے ہوئے سیلاب کے آگے دم توڑتی ہوئی معلوم ہوتی ہے۔ مل جل کر رہنے کے کسی آفاقی عادلانہ نظام کی عدم موجودگی کی وجہ سے اس عالمی قریے میں فساد برپا ہے۔ عدل، اسلامی سماجی اقدار کا روح رواں ہے اور یہ تقویٰ سے عبارت ہے۔ قرآنی آیت ’’عدل کرو، یہ تقویٰ سے زیادہ قریب ہے‘‘ اسی حقیقت کی ترجمانی ہے۔ سورہ حدید میں نظام عدل و قسط کے قیام کو انبیاء و رسل کی وجہ بعثت قرار دیا گیا مگر اس کا حصول چند بنیادی خوبیوں کا تقاضا کرتا ہے جسے قرآن متقین کے ساتھ جوڑتا ہے، مثلاً تعصب سے اجتناب اور ذاتی مفاد سے گریز، نہ صرف سچی گواہی دینا بلکہ جھوٹی گواہی کا توڑ بھی سچی گواہی سے کرنا۔  سورہ حجرات میں آتا ہے کہ اللہ اور رسولؐ سے آگے نہ بڑھنا شعار تقویٰ ہے۔ اسی روش کو سوسائٹی کا شعار ہونا چاہئے۔ معاشرہ اپنے کسی بھی معاملے میں اللہ اور رسولؐ کے دیئے ہوئے احکام و فرامین اور حدود سے تجاوز نہ کرے تو صحیح معنوں میں عدل کے تقاضے پورے ہوسکتے ہیں۔ عدل کرنا چاہئے خواہ معاملہ قرابت دار کا ہی کیوں نہ ہوں۔ قرآن کی رو سے جس چیز سے رسولؐ روکیں رک جائیے اور جو رسولؐ عطا کریں قبول کرلیجئے۔ (الحجرات:۱، الحشر:۷)  سماجی اعتبار سے قرآن نے اہل تقویٰ کے یہ نمایاں اوصاف بیان کئے ہیں: لوگوں سے خوف نہ کھانا بلکہ اللہ سے ڈرنا، اللہ کا زیادہ حق ہے کہ اس سے ڈرا جائے۔ اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑنا اور باہم اختلاف نہ کرنا۔ حقوق العباد میں بدرجۂ اولیٰ قطع رحمی سے بچنا، یتیموں کے مال لوٹانا اور ان میں گھپلے سے باز رہنا ، بھلائی کی طرف بلانا اور برائی سے روکنا۔ (الاحزاب:۳۷، آل عمران:۱۰۲، ۱۰۵، النساء:۱، ۳، ۶) ایک اور جگہ پر آتا ہے کہ ’’ اس فتنہ سے ڈرو جو خاص طور پر صرف ان لوگوں ہی کو نہیں پہنچے گا جو تم میں سے ظالم ہیں (بلکہ اس ظلم کا ساتھ دینے والے اور اس پر خاموش رہنے والے بھی انہی میں شریک کر لئے جائیں گے)، اور جان لو کہ اللہ عذاب میں سختی فرمانے والا ہے۔‘‘  (الانفال: ۲۵) یہ آیت تقویٰ کاتعلق براہ راست نہی عن المنکر سے قائم کرتی ہے یعنی یہ وبال انہیں بھی اپنی لپیٹ میں لے لے گا جو محض انفرادی نیکی پر قانع ہوکر گوشۂ عافیت میں جاگزیں ہوگئے ہیں اور اجتماعی برائیوں سے روکنے سے کنارہ کش ہوگئے ہیں۔والدین و رشتہ داروں کے لئے بھلائی کی وصیت کرنا اور وصیت کے معاملے میں تعصب سے اجتناب اور ذاتی مفاد سے گریز کرنا چاہئے۔ گناہوں اور بے حیائی کی باتوں سے اجتناب بھی تقویٰ ہے۔
سائنسی و تحقیقی اوصاف

فرمانِ خداوندی ہے ’’رات دن کے الٹ پھیر اور زمین و آسمان کی تخلیق میں پرہیزگاروں کے لئے نشانیاں ہیں۔‘‘ علامہ اقبال اپنے مشہور خطبات میں لکھتے ہیں کہ کائنات میں غور و فکر کرنے والا سائنسداں بھی ایک طرح سے عبادت کرنے والے صوفی کی مانند ہے۔ قرآن پاک میں ارشاد ہے کہ آسمان و زمین میں جوکچھ ہے وہ تمہارے لئے مسخر کردیا گیا ہے۔ اس لئے کائنات کی قوتوں کو مسخر کرنا انسانی فریضہ ہے۔ کائنات کو جانے بغیر اس کی قوتوں کو مسخر نہیں کیا جاسکتا۔ کائنات اللہ تعالیٰ کی بہت زبردست اور شاندار تخلیق ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں تخلیق کائنا ت کے مراحل بیان فرمائے ہیں، اس کی خوبیاں بیان فرمائی ہیں اور اس میں کام کرنے والے عناصر کی ترتیب کو واضح کیا ہے اور اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ جو چیز اتنی منظم اور مربوط ہو، وہ بےمقصد نہیں ہوسکتی بلکہ اس کے پیچھے ایک عظیم حکمت و قدرت اور ربوبیت کارفرما ہے۔ یہ محض کھیل تماشا نہیں! رب کی ربوبیت تو عیاں ہے۔ آثار کائنات پر غور کرکے متقین اس میں سے حکمت و دانش کے موتی نکالتے ہیں اور اللہ کے قوانین جو پوری کائنات میں نافذ ہیں انہیں معلوم کرکے انسانی فلاح کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ تمام قوانین فطرت کائنات میں پہلے سے موجود ہیں۔ انسان اپنے مشاہدے سے انہیں دریافت کرتا ہے ، ان کا عمیق تجزیہ کرتا ہے اور انہیں بروئے کار لاتا ہے۔ 
 آسمان و زمین سے رزق کون دیتا ہے، موت و حیات پر کون قادر ہے، فیصلے کا اختیار کس کو ہے، متقین کبھی ان حقائق سے صرف نظر نہیں کرتے۔ اگر انہیں کوئی فائدہ حاصل ہو تو رب کا شکر بجالاتے ہیں، اتراتے نہیں اور نہ ہی انہیں ذاتی یا گروہی مفاد کی خاطر استعمال کرتے ہیں۔ 
معاشی و اقتصادی اوصاف

یہ امر اظہر من الشمس ہے کہ تعلیم، صنعت و حرفت ، دفاع اور رفاہ عامہ کے کاموں کے لئے کسی بھی ملک کی معاشی قوت مرکزی کردار ادا کرتی ہے۔ معاشی و اقتصادی میدان میں لین دین اور دیگر معاشی عناصر کی بابت اہل تقویٰ کے حوالے سے قرآن پاک میں مندرجہ ذیل خصوصیات کا ذکر ملتا ہے: اہل تقویٰ اپنے مال سامان زیست کے لئے دانشمندی سے استعمال کرتے ہیں۔ وراثت کی تقسیم میں مساکین و یتامیٰ کا خیال رکھتے ہیں۔ قرض کے معاملے کو لکھنا اور اس سلسلے میں کاتب اور گواہ کو نقصان سے بچانا بھی شعارِ تقویٰ ہے۔ نہ صرف سود کھانے سے باز رہتے ہیں اور سود کی رقم سے دستبردار ہوجاتے ہیں بلکہ قرض دار کو مہلت دینا اور اس سے بھی افضل یہ کہ عاقبت کی فکر کرتے ہوئے قرض کی رقم صدقہ کردینا متقین کا شیوہ ہے (النساء:۹، البقرہ:۲۷۸، آل عمران۱۳۰)۔ یہاں سود سے گریز کو تقویٰ سے مشروط کردیا گیا ہے۔ متقین دولت کو تقسیم کرنے والے ہیں تاکہ مال دولت مندوں کے ہاتھوں میں جمع ہوکر نہ رہ جائے اور چند ہاتھوں میں گردش نہ کرتا رہے ۔ (الحشر:۷) تقویٰ یہ بھی تقاضا کرتا ہے کہ رہن شدہ اراضی مالک کو واپس کی جائے اور اس سلسلے میں گواہی کو چھپانے سے گریز کیا جائے(البقرہ:۲۸۳)۔
حاصل بحث: تقویٰ ایسی روش کا نام ہے جو اسلام کے پورے اخلاقی، سماجی اور معاشی نظام پر محیط ہے۔ قرآن برائی سے بچنے کی محض تلقین ہی پر اکتفا نہیں کرتا بلکہ اس سے بچاؤ کے لئے عملی تدابیر بھی تفصیل سے بیان کرتا ہے۔ تقویٰ کردارسازی اور اصلاح نفس کا اہم ذریعہ ہے۔آج انسانیت جن مسائل سے دوچار ہے، اگر تجزیہ کیا جائے تو ان کا سبب یہی سامنے آئے گا کہ انسان تقویٰ کی صفات سے محروم ہوگیا ہے۔ مسلمان اسی صورت میں انسانیت کے لئے کوئی نمونہ پیش کرسکتے ہیں کہ صرف نام کے مسلمان نہ ہوں، بلکہ تقویٰ کی روش پر چلنے والے ہوں۔ اگر وہ یہ صفات اختیار کریں تو ان کی انفرادی زندگی بھی سکون و برکت کا گہوارا ہوگی اور معاشرہ بھی اطمینان و سکون اور عزت و خوشحالی کا آئینہ دار ہوگا۔

islam Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK