Inquilab Logo

بہار کے اسکولوں میں طلبہ کی حاضری میں خوشگوار تبدیلی

Updated: January 23, 2023, 3:38 PM IST | Professor Mushtaq Ahmed | Mumbai

پرتھم ایجوکیشن فائونڈیشن نے پوری ریاست میں ۳۸؍اضلاع کے۱۱۴۰؍گائوں اور۲۲۷۹۶؍گھروں کا سروے کیا اور کل۵۲۹۵۹؍ بچوں سے مکالمہ کرنے کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا کہ حالیہ دنوں میں ریاست بہار کے سرکاری اسکولوں کی تعلیمی فضا قدرے بہتر ہوئی ہے اور خصوصی طورپر حساب اور انگریزی کی طرف توجہ دی جا رہی ہے

Make textbooks available to school students on time because there are reports of lack of textbooks. If the books are not available to the students on time, then it is impossible to achieve sufficient results despite the efforts of the teachers.
اسکولی طلبہ کو وقت پر نصابی کتابیں دستیاب کرائے کیوں کہ نصابی کتابوں کے فقدان کی خبریں آتی رہتی ہیں ۔ اگر طلبہ کو بر وقت کتابیں دستیاب نہیں ہوں گی تو پھر اساتذہ کی کوششوں کے باوجود خاطر خواہ نتیجہ بر آمد ہونا نا ممکن ہے۔

بہار کی موجودہ نتیش کمار کی حکومت نے اسکولی تعلیم کو مستحکم کرنے کیلئے نہ صرف اسکولوں کے بنیادی ڈھانچوں  کو مستحکم کیا ہے بلکہ داخلے کی شرح میں اضافے کی کوششوں میں بھی کامیاب رہی ہے ۔اس کی وضاحت حال ہی میں ’پرتھم ایجوکیشن فائونڈیشن‘کی سالانہ رپورٹ میں ہوا ہے ۔ واضح ہو کہ اس فائونڈیشن نے چار برسوں کے بعد بہار کے پرائمری اور ثانوی درجوں کے اسکولی طلباء وطالبات کی زبان دانی، سائنسی فکر ونظر اور علم الحساب میں ان کی لیاقت کی سچائی جاننے کیلئے سروے کرایا تھا۔
  اس میں یہ خوش آئنداور خوشگوار تبدیلی عیاں ہوئی ہے کہ ریاست کے اسکولوں میں ۶؍ سے ۱۴؍ سال کی عمر کے بچوں کے شرح داخلہ میں خوشگوار اضافہ ہوا ہے ۔ اس فائونڈیشن نے۲۰۱۸ء میں سرکاری اسکولوں میں ۷۸ء۱؍ فیصد بچوں کے داخلے کی رپورٹ شائع کی تھی جبکہ۲۰۲۲ءء کی رپور ٹ میں فائونڈیشن نے یہ اجاگر کیا ہے کہ سرکاری اسکولوں میں مذکورہ عمر کے۸۲ء۲؍فیصد طلبہ نے داخلہ لیا ہے ۔مجموعی طورپر ریاست کے سرکاری اسکولوں میں۹۸؍فیصد بچے داخل ہوئے ہیں۔
 دراصل نتیش کمار نے اسکولی طلباء وطالبات کیلئے کئی طرح کی خصوصی اسکیمیں چلائی ہیں ۔ مثلاً سائیکل اسکیم، پوشاک اسکیم اور وظیفے کا آغاز وغیرہ ، جس کی وجہ سے متوسط غریب اور دلت طبقے کا رجحان سرکاری اسکولوں کی طرف بڑھا ہے، ساتھ ہی حالیہ دنوں میں سرکاری اسکولوں میں اساتذہ کی کمیوں کو دور کرنے کی بھی پہل ہوئی ہے جس کی وجہ سے سرکاری اسکولوں میں داخلے کی شرح میں اضافہ نظر آرہا ہے ۔
  واضح ہو کہ فائونڈیشن نے پوری ریاست میں ۳۸؍اضلاع کے۱۱۴۰؍گائوں اور۲۲۷۹۶؍گھروں کا سروے کیا اور کل۵۲۹۵۹؍ بچوں سے مکالمہ کرنے کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ حالیہ دنوں میں ریاست بہار کے سرکاری اسکولوں کی تعلیمی فضا قدرے بہتر ہوئی ہے اور خصوصی طورپر حساب اور انگریزی کی طرف توجہ دی جا رہی ہے۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ یہ انکشاف بھی ہوا ہے کہ نجی اسکولوں کے مقابلے سرکاری اسکولوں کے طلبہ نجی کوچنگ کی جانب بھی متوجہ ہوئے ہیںاور اس رجحان میں قدرے زیادہ ہی اضافہ ہوا ہے کیوں کہ۲۰۱۸ء کے سروے میں یہ انکشاف کیا گیا تھا کہ۶۲ء۲؍فیصد طلبہ نجی کوچنگ کا سہارا لیتے ہیں جبکہ حالیہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ۷۱ء۷؍فیصد طلبہ کوچنگ کا سہارا لے رہے ہیں۔ اس سے قبل بھی کئی رضا کار تنظیموں نے سرکاری اور غیر سرکاری اسکولوں کے طلبہ کی ذہنی پرداخت کا سروے کر کے اس حقیقت کو عیاں کیا تھا کہ سرکاری اسکولوں میں زیر تعلیم متوسط اور دلت طبقے کے بچوں کو اگر اسکول میں ہی خصوصی کوچنگ دی جائے تو وہ غیر سرکاری نجی اسکولوں کے طلبہ سے اپنی بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کر سکیں گے۔ مگرایسا کچھ بھی نہیں ہو سکا جس کی وجہ سے نجی کوچنگ کی طرف اسکولی بچوں کا رجحان بڑھا ہے۔
  میرے خیال میں حکومت بہار جس طرح سرکاری اسکولوں کے بنیادی ڈھانچوں کو مستحکم کرنے کیلئے اور اساتذہ کی کمیوں کو دور کرنے کیلئے خصوصی مہم چلا رہی ہے اسی طرح غریب اور دلت طبقے کے بچوں کیلئے اسکولی وقت کے بعد خصوصی کوچنگ کا اہتمام کرے تو نتیجہ اوربھی بہتر ممکن ہے کیوں کہ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ بہار کے پرائمری اور ثانوی اسکولوں کے اساتذہ کو غیر تدریسی سرکاری کاموں میں بھی لگایا جاتا ہے جس کی وجہ سے درس وتدریس کا کام متاثر ہوتا ہے اور جس کا خسارہ  سرکاری اسکولوں میں داخلہ لینے والے طلبہ کو اٹھانا پڑتا ہے اور مجبوراً وہ طلبہ نجی کوچنگ کا رخ کرتے ہیں۔ اسلئے ضرورت اس بات کی ہے کہ اسکولی تعلیمی نظام کو مستحکم کرنے کے ساتھ ساتھ معیار تعلیم پر بھی توجہ دینی ہوگی کیوں کہ جب تک پرائمری اور ثانوی اسکولوں میں معیاری تعلیم کا نظم نہیں ہوگا، اس وقت تک ہمارے طلبہ کے اندر افہام وتفہیم کی قوت مستحکم نہیں ہو سکے گی اور ان کی علمی صلاحیت میں بھی اضافہ نہیں ہو سکتا۔ اس حقیقت سے تو ہم سب واقف ہیں کہ اسکولی سطح پرہی طلبہ کی ذہنی نشو ونما ہوتی ہے اور ان کے اندر سیکھنے کی قوت پختہ ہوتی ہے اور اسی کی بنیاد پر وہ اعلیٰ تعلیم کے مراحل بھی طے کرتے ہیں۔ اگر بنیاد کی اینٹ کمزور ہوگی تو پھر عمارت کا متزلزل ہونا فطری عمل ہوتا ہے اسلئے وقت کا تقاضا یہ ہے کہ اگر ریاست بہار کے سرکاری اسکولوں کے داخلہ شرح میں خوشگوار اضافہ ہوا ہے تو ان اسکولوں میں معیار تعلیم کی طرف بھی خصوصی توجہ ہونی چاہئے اور اس میں اسکولی اساتذہ ہی اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔
 اگر اساتذہ چاہیں تو غریب، پسماندہ اور دلت طبقے کے طلبہ کیلئے اسکولی فرائض کے ساتھ ساتھ طلبہ کی ذہنی نشو ونما کیلئے خصوصی اقدامات بھی کر سکتے ہیں اور مستقبل کیلئے کوئی ٹھوس لائحہ عمل بھی تیار کر سکتے ہیںکیوں کہ بہار کے پسماندہ علاقے کے طلبہ کیلئے سرکاری اسکول ہی ایک ذریعہ تعلیم ہے ۔ نجی اسکولوں کی فیس ادا کرنے کی قوت سے محروم طبقے کیلئے سرکاری اسکول ہی ایک سہارا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ سرکاری اسکولوں میں بھی بہتر صلاحیت کے اساتذہ موجود ہیں لیکن حالیہ دہائی میں سرکاری اسکولوں کے تئیں منفی نظریہ عام ہوا ہے جس سے با صلاحیت اساتذہ کی حوصلہ شکنی بھی ہوئی ہے ۔ اسلئے اسکولی اساتذہ کو اپنی ساکھ مستحکم کرنے کیلئے خصوصی کدو کاوش کرنی ہوگی تاکہ سرکاری اسکولوں کی جو شبیہ مسخ ہوئی ہے اس کی تاریخی حیثیت واپس ہو کیوں کہ محض دو تین دہائی پہلے تک سرکاری اسکولوں کے طلباء زندگی کے مختلف شعبوں میں اپنی شناخت مستحکم کرنے میں کامیاب ہوتے  تھے اور ریاستی اور قومی سطح کے مقابلہ جاتی امتحانات میں ان کی تعداد ہی قابلِ فخر ہوا کرتی تھی۔
 مختصر یہ کہ حالیہ رپورٹ نے یہ ثابت کردیا ہے کہ اگر حکومت سرکاری اسکولوں کے تاریخی وقار کو واپس لانا چاہے تو وہ ناممکن نہیں ہے کیوں کہ سرکاری اسکولوں میں داخلے کی شرح میں اضافہ ہونا ،ایک خوشگوار مستقبل کی علامت ہے۔ اب حکومت کو چاہئے کہ ان اسکولی طلبہ کو وقت پر نصابی کتابیں دستیاب کرائے کیوں کہ نصابی کتابوں کے فقدان کی خبریں آتی رہتی ہیں ۔ اگر طلبہ کو بر وقت کتابیں دستیاب نہیں ہوں گی تو پھر اساتذہ کی کوششوں کے باوجود خاطر خواہ نتیجہ بر آمد ہونا نا ممکن ہے۔  اگر چہ حکومت کی طرف سے بھی اعلان کیا گیا ہے کہ تمام سرکاری اسکولوں کے طلبہ کیلئے نصابی کتابیں تیار کرائی جا رہی ہیں اور اس بار داخلے کے ساتھ ہی کتابیں مہیا کرائی جائیں گی مگر کتابوں کی تقسیم کو یقینی بنانے کا کام سرکاری عملوں کے سر ہوتا ہے ۔اکثر یہ شکایت بھی ہوتی رہی ہے کہ کتابیں تو وقت پر شائع ہو جاتی ہیں مگر اسکولی طلبہ کو بر وقت کتابیں نہیں ملتیں اور سرکاری دفاتر میں ہی کتابیں رکھی رہ جاتی ہیں۔ اگرطلبہ کو بر وقت کتابیں پہنچانے کی کوششیں بار آور ہوئیں تو اس میں کوئی شک نہیں کہ ریاست بہار کے سرکاری اسکولوں میں پڑھنے والے غریب ، پسماندہ اور دلت طبقوں کے طلباء کی تصویر اور تقدیردونوں بدل جائے گی۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK