Inquilab Logo

شاعری محض تفریح طبع کا نام نہیں بلکہ تعمیری عمل ہے

Updated: January 30, 2023, 1:46 PM IST | Mubasshir Akbar | Mumbai

نوجوان شاعرہ ہاجرہ زریاب کے مطابق شاعری زندگی کی اعلیٰ قدروںکو الفاظ کے سانچے میں پیش کرنے کا نام ہے ۔ پیش ہے انٹر ویو سیریز کی چھٹی قسط

Hajra Noor Zaryab. Photo: INN
ہاجرہ نور زریاب ۔ تصویر : آئی این این

ادب نما پرنئے سلسلے کے تحت ہم نوجوان ادباء و شعراء سے گفتگو اپنے قارئین تک پہنچارہے ہیں۔اس ہفتے خطۂ برار کے اہم شہر اکولہ سے تعلق رکھنے والی ہاجرہ نور زریاب سے کی گئی گفتگو قارئین کے سامنے پیش کررہے ہیں۔ ہاجرہ نور زریاب نے گزشتہ کچھ برس میں  نئے شعراء میں اپنی شناخت قائم کی ہے اور اسے وہ مسلسل مستحکم کرتی جارہی ہیں۔ ان کا تعلق علمی و ادبی گھرانے سے ہے۔ ان کے والد نورؔ پاتوری علاقہ برار کے کہنہ مشق اور استاد شعراء میں شمار ہوتے ہیں۔ ہاجرہ نور درس و تدریس سے وابستہ ہیں اور شاعری کے میدان میں بھی مسلسل سرگرم عمل ہیں۔ ان کی ایک کتاب ’چاند کے زینے پر‘ حال ہی میں منظر عام پر آئی ہے اور ایک کتاب زیر ترتیب ہے جبکہ  انہوں نے بچوں کیلئے تین کتابیں مرتب کی ہیں جو مالیگاؤ ں کے کتاب میلے کے دوران منظر عام پر آئی تھیں۔ پیش ہے ان سے گفتگو
آپ نے لکھنا کب سے شروع کیا ؟  
  لکھنا شروع کرنے کا وقت تو یاد نہیں لیکن اسکولی دور سے مجھ میں یہ شوق تھا۔ شعر فہمی بھی تھی اور استاد شعراء کے اچھے اچھےاشعار مجھے یاد  تھے ۔ جو اشعار یاد ہوتے انہیں اسکول کے تمام خالی تختہ ٔسیاہ پر لکھ دیتی تھی ۔ اسی طرح کئی اشعار یاد ہوگئے ۔ مجھے یاد ہے بارہویں جماعت میں تھی  اور میرے والد محترم کسی شاعرہ کے کلام کی اصلاح کررہے تھے اور میں دیکھ رہی تھی۔ تب سے شوق پیدا ہوا کہ اب میں بھی اشعار کہوں گی اور ابا کو بتاؤں گی لیکن ہمت نہیں ہوئی ۔ اتفاق سے میرے تایا ابا بھی شاعری سے شغف رکھتے تھے  اور وہ ہم بچوں سے بہت گھلے ملے ہوئے تھے۔   وہ جب جب ہم سے ملنے  آتے میں اپنی تخلیقات ان کو سناتی اور وہ درست کردیتے، سناتی اس  لئے کہ وہ نابینا تھے۔ بس وہیں سے مزید شوق پیدا ہوتا گیا ۔ ۲۰۰۷ء کے آس پاس سے  میں نے  باقاعدہ شاعری شروع کردی ۔ 
 آپ نے شاعری ہی کو کیوں منتخب کیا ؟
 مجھے اردو ادب کی اصناف میں سب سے پہلے شاعری نے اپنی طرف متوجہ کیا جس کی وجہ سے میں نے شاعری میں طبع آزمائی کی ۔فی الحال میں شاعری پر ہی زیادہ دھیان دے رہی ہوں ۔لیکن یہ بھی بتاتی چلوں کہ میں صرف شاعری پر کام کرنا نہیں چاہتی بلکہ آگے چل کر مضامین اور تنقید کی سمت بھی توجہ دوں گی ۔ 
 شاعری اورمطالعہ کا تعلق بیان کیجئے 
  شاعری اور مطالعہ لازم و ملزوم ہیں۔ کسی بھی خیال کو شعر میں باندھنے کا سلیقہ اور الفاظ کو برتنے کا سلیقہ ہمیں مطالعہ سے ہی آتا ہے۔ الفاظ کی ترتیب شعر کی خوبصورتی میں اضافہ کرتی ہے۔یہ شعور مطالعہ سے ہی ملے گا۔موزوں الفاظ میں حقائق کی تصویر کشی کو شاعری کہتے ہیں۔ شعرخیالات کی تعبیر ہے۔ اسی لئے لاکھوں موزوں کلام ایسے ہیں جو شعریت سے عاری ہوتے ہیں ۔خیال نو مولود بچے کی طرح ہوتا ہے، اسے کس قسم کا لباس دینا ہےیہ شاعر مطالعے سے ہی سیکھتا ہے۔ خیال کو وزن  اور شعریت کےسانچے میں ڈھالنا کمال سخنوری ہےجو ہمیں مطالعہ ہی سے سمجھ میں آتی ہے۔ اسی لئے میرا ماننا ہے کہ مطالعہ استعداد کی کنجی اور صلاحیتوں کو بیدار کرنے کا بہترین آلہ ہے۔ 
 شاعری کے میدان میں آپ کے آئیڈیل کون ہیں؟ 
 میرؔ ،غالب اور داغ مجھے پسند ہیں ۔ میں نے اب تک جتنی بھی شاعری کی ہے وہ ان تینوں شعراء کو کہیں نہ کہیں خراج عقیدت ہے۔   اپنے والد کی شاعری بھی مجھے بہت پسند ہےبلکہ ابتدا میں نے انہی کی شاعری پڑھ کر کی ہے۔ 
 بہت سے لوگ سماجی اصلاح کیلئے لکھتے ہیں، آپ کس مقصد سے قلم اٹھاتی ہیں؟
 سچ کہوں تو دلی سکون اور ذاتی تشفی کے لئے۔ موج و حوادث کی شکل میں جو تجربہ ہوا ہے ، اسے شاعری کے توسط سے بیان کرنے کی کوشش کرتی ہوں  اورہاں  اردو زبان و ادب کا فروغ بھی  ایک اہم مقصد ہے۔  
 اس لحاظ سے کیا آپ اپنی شاعری سے مطمئن ہیں؟
 جہاں تک فکری اور نظریاتی پہلو کا تعلق ہے تو میں مطمئن ہوں کہ میں شاعری کو محض تفریح ِطبع کی بے مقصد مصروفیت نہیں سمجھتی بلکہ ایک مثبت اور تعمیری عمل گردانتی ہوں جو زندگی کے اعلیٰ اقدار سے جڑا ہوا ہے۔ جبکہ  اپنی علمی اور فنی دسترس میں کوئی فن کا کمال تو حاصل کر سکتا ہےلیکن بہتری اور اصلاح کی گنجائش کسی بھی مقام و مرحلے اور ہنر مندی کے کسی بھی معیار کو چھولینے کے باوجود موجود ہوتی ہے اور اپنی شاعری کے سلسلے میں بھی میں یہی محسوس کرتی ہوں۔ 
ادب  میںجونیئر ادیبوں کو اکثر گروپ بندی کا
 سامنا کرنا پڑتا ہے ، کیا  آپ کو کوئی پریشانی ہوئی ؟
 زندگی کے کسی بھی شعبے سے وابستگی اختیار کرتے وقت اور عملی جدوجہد کے کسی بھی میدان میں قدم رکھتے وقت مشکلات کا سامنا تو ہوتا ہی ہے۔ مجھے ایسےتجربات سے گزرنا پڑا اور سچ کہوں تو آج بھی گزر رہی ہوں لیکن اب تک  حوصلہ نہیں ٹوٹا ہے۔ذرائع ابلاغ پر قابض لوگ صرف اپنے پسندیدہ لوگوں کو نوازتے ہیں اور دیگر کو نظر انداز کرتے ہیں مگر سچائی کو وہ بھی دبانہیں سکتے ۔ 
 کیا آپ متفق ہیںکہ عصری شاعری کا معیار کم ہورہا ہے؟  
   یہ حقیقت ہمیں تسلیم کرنی پڑے گی۔اس کی بنیادی وجہ یہ ہےکہ ٹیکنالوجی اور موبائل ہیں۔سوشل میڈیا سے ایک فائدہ یہ ہو رہاہے کہ شاعری یا کتابوں کی دور تک تشہیر ممکن ہو گئی ہے مگر ایک نقصان یہ ہے کہ بیشتر شاعروں نے مطالعہ کم کردیا ہے اور اس کا اثر کسی حد تک شاعری پرپڑا ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK