نوبیل انعام یافتہ معیشت داں، ابھیجیت بنرجی اور ان کی اہلیہ ایسترڈفلو نے اپنی مشترکہ کتاب ’پووَر اِکنامکس: ری تھنکنگ پاورٹی اینڈ دے ویز ٹو اینڈ اِٹ‘ میں غربت کی راہ میں حائل اصل رکاوٹوں کی وضاحت کرتے ہوئے کئی اہم نکات کی نشاندہی کی ہے۔
EPAPER
Updated: May 04, 2025, 12:25 PM IST | Ghulam Arif | Mumbai
نوبیل انعام یافتہ معیشت داں، ابھیجیت بنرجی اور ان کی اہلیہ ایسترڈفلو نے اپنی مشترکہ کتاب ’پووَر اِکنامکس: ری تھنکنگ پاورٹی اینڈ دے ویز ٹو اینڈ اِٹ‘ میں غربت کی راہ میں حائل اصل رکاوٹوں کی وضاحت کرتے ہوئے کئی اہم نکات کی نشاندہی کی ہے۔
غربت کا خاتمہ اکیسویں صدی کے اہم ترین عالمی چیلنجز میں سے ایک ہے۔ اگرچہ گزشتہ چند دہائیوں میں قابلِ ذکر پیش رفت ہوئی ہے، مگر آج بھی کروڑوں لوگ شدید محرومی اور تنگ دستی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ کورونا وبا، ماحولیاتی تبدیلی اور عالمی تنازعات نے صورتحال کو مزید سنگین بنا دیا ہے۔ غربت کو ناپنے کے مختلف پیمانے ہیں۔ ورلڈ بینک کے مطابق۲ء۱۵؍ ڈالر یعنی تقریبا ۱۸۲؍روپے فی دن پر گزارہ کرنے والوں کو انتہائی غریب مانا جاتا ہے۔ ہندوستان میں یہ حد دیہی علاقوں کیلئے ۳۲؍ اور شہری علاقوں کیلئے ۴۷؍ رو ہے فی دن تسلیم کی جاتی تھی لیکن اب اس کیلئے ایک ملٹی ڈائمینشنل پاورٹی انڈیکس کا معیار متعین کیا گیا ہے۔ اس پیمانے سے ہندوستان میں تقریباً ۲۰؍ کروڑ لوگ غریب ہیں۔ ۱۶۔ ۲۰۱۵ء اور ۲۱۔ ۲۰۲۰ء کے درمیان ۱۵؍ کروڑ لوگ خط افلاس سے اوپر اٹھے ہیں۔ کتنی عجیب بات ہے کہ ملک میں ۸۰؍ کروڑ لوگ مفت کے راشن پر زندگی گزارتے ہیں۔ ممکن ہے کہ شماریاتی سائنس کے مطابق اس تضاد کی کوئی توضیح ہو، لیکن سادہ سمجھ میں یہ دعوے ایک دوسرے کا منہ چڑاتے نظر آتے ہیں۔
دنیا میں غربت کے انسداد پر مسلسل غورو فکر جاری ہے۔ اعدادو شمار جمع کرنا، غربت کی وجوہات دریافت کرکے سرکاری پالیسی سازوں کو سمت دکھانا اور غیرسرکاری اداروں کو رہنمائی فراہم کرنا، ماہرینِ معاشیات کے نزدیک ایک فوری اور اہم کارِ دشوار ہے۔ ایسے ہی دو نمایاں معیشت داں ہیں ، ابھیجیت بنرجی اور ان کی زوجہ ایستر ڈُفلو۔ دونوں اپنے ساتھی مائیکل کریمرکے ساتھ ۲۰۱۹ء میں مشترکہ نوبل انعام کے حقدار پائے۔ یہ انعام انہیں عالمی غربت کے خاتمے کیلئے تجرباتی نقطۂ نظر پر تحقیق کے اعتراف میں دیا گیا۔ ۲۰۰۳ء میں دونوں نے پاورٹی ایکشن لیب کی بنیاد رکھی۔ امریکہ میں واقع یہ تجربہ گاہ، عبداللطیف جمیل پاورٹی ایکشن لیب کے نام سے جانی جاتی ہے۔ عبداللطیف جمیل سعودی عرب کے ایک صاحب خیر ہیں۔
ابھیجیت بنرجی ۱۹۶۱ء میں ممبئی میں پیدا ہوئے۔ ہارورڈ یونیورسٹی سے معاشیات میں ڈاکٹریٹ کی۔ ان کا اندازِ فکر روایتی معاشی نظریات سے ہٹ کر زمینی حقیقتوں پر مبنی ہے، اور وہ پالیسیوں میں تجرباتی طریقہ کار کے علمبردار سمجھے جاتے ہیں۔ ایستر ڈفلو ۱۹۷۲ء میں پیرس میں پیدا ہوئیں۔ انہوں نے بھی ہارورڈ یونیورسٹی سے معاشیات میں پی ایچ ڈی کی۔ ڈفلو کو اپنی نوجوانی ہی میں معیشت کے شعبے میں غیر معمولی مقام حاصل ہوا، اور وہ معیشت میں نوبل انعام حاصل کرنے والی سب سے کم عمر شخصیت بھی ہیں۔ ان میاں بیوی نے مشترکہ طور پر کئی کتابیں لکھی ہیں، جن میں سب سے مشہور کتاب ’پوور اِکنامکس: ری تھنکنگ پاورٹی اینڈ دے ویز ٹو اینڈ اِٹ‘ (مفلس معاشیات: عالمی غربت سے لڑنے کے طریقے پر ایک بنیاد ی نظر ثانی) ہے۔ اس کتاب میں انہوں نے سادہ مگر موثر طریقے بیان کئے ہیں کہ کس طرح عملی تجربات کے ذریعے غربت کا سامنا کیا جا سکتا ہے۔
ان کی سوچ کا خلاصہ یوں کیا جا سکتا ہے کہ:
غربت کو سمجھنے کیلئے صرف اعداد و شمار کافی نہیں بلکہ افلاس میں مبتلا انسانوں کی حقیقی زندگی کے احوال اور ان کی بنیاد پر کئے گئے عملی تجربات زیادہ کارگر ہیں۔
غربت کے مسئلے کو حل کرنے کیلئے بڑی بڑی نظریاتی لڑائیوں یا نظام میں تبدیلی وغیرہ پر غور وفکر کے بجائے چھوٹے، نپے تلے تجربات کی ضرورت ہے۔ ہر مسئلے کو اس کی اصل جڑ میں جا کر، زمینی حقائق کی کسوٹی پر پرکھا جائے۔
بنرجی اور ڈفلو بتاتے ہیں کہ اکثر ہم غریبوں کے بارے میں ایک ہی سانچے میں سوچتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ غریب اپنی دنیا میں بہت معقول طریقے سے فیصلے کرتے ہیں مگر ان کے مواقع محدود ہوتے ہیں لہٰذا غلط فیصلے اکثر دراصل غلط حالات کی پیداوار ہوتے ہیں۔ غریب انسان اکثر سستی غذائیں نہیں کھاتا بلکہ تھوڑے سے پیسوں سے لذت بڑھانے کی کوشش کرتا ہے کیونکہ زندگی میں خوشی کی ایک جھلک بھی ضروری ہے۔ مثال کے طور یہ طبقہ غذائیت سے پُر صحت بخش خوراک کے بجائے مزیدار غذا کھا کر جینا چاہتا ہے۔ یہ کتاب اس حقیقت کو تقویت دیتی ہے کہ غریبوں کو ان کی موجودہ حالت سے نکالنے کیلئے ان کی نفسیات کا مطالعہ کرنا چاہئے۔
دنیا کے غریب ممالک میں سستے اور آسان طبی حل موجود ہیں (جیسے ٹیکے، صفائی، حفظانِ صحت کی معلومات)، مگر لوگ پھر بھی ان سے فائدہ نہیں اٹھاتے۔ اعتماد کا فقدان، معلومات کی کمی، یا فوری فوائد نظر نہ آنا، صحت کے شعبے میں بڑی رکاوٹیں ہیں۔ تعلیم کی اہمیت مسلم ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ میسّر تعلیم کی کوالیٹی کیا ہے؟ کیا محض عوامی تعلیم پر متعین بجٹ خرچ کر دینے سے بچے تعلیم یافتہ ہو جاتے ہیں ؟ اکثر افلاس زدہ خطوں میں سال درسال اسکول جانے کے باوجود بچے کچھ سیکھ نہیں پاتے۔ مصنفین نے تجربات سے دکھایا کہ بنیادی تعلیم، جیسے حساب اور پڑھنے لکھنے کی بنیادی مہارتوں کو بہتر بنانے پر وقت اور وسائل صرف کرنا زیادہ فائدہ مند ہے۔
غریب افراد میں صلاحیت ہوتی ہے مگر خطرات مول لینے کی ہمت کم ہوتی ہے۔ ترغیب دینے والے پروگرام (جیسے سستی تربیت یا آغاز کیلئے چھوٹے عطیے) بعض اوقات بہت مثبت اثر ڈالتے ہیں۔ سیاست اور سماجی ماحول بھی ان فیصلوں پر گہرا اثر ڈالتے ہیں۔ بنرجی اور ڈفلو کے مطابق زیادہ تر چھوٹے بیوپاری، کاروباری نہیں بلکہ ضرورتاً تاجر ہوتے ہیں۔ ان کے پاس نہ تربیت ہوتی ہے نہ سرمائے تک رسائی۔ لہٰذا مائیکروفائنانس (چھوٹے قرضے) ہمیشہ مطلوبہ نتائج نہیں دکھاتے۔ غربت صرف آمدنی کی کمی نہیں بلکہ مالی تحفظ کی کمی کا بھی نام ہے۔ اچھے بیمہ پروگرام اور سہولت بخش قرضے غربت کی شدت کو کم کرسکتے ہیں۔ بچت کا کلچرغریبوں میں موجود ہے، مگر رکاوٹیں حائل ہیں۔ چھوٹے چھوٹے اخراجات، فوری ضرورتیں اور مالیاتی اداروں کی عدم موجودگی بچت کو مشکل بنا دیتی ہیں۔ مصنفین نے یہ بھی بتایا کہ اگر بچت کو آسان اور محفوظ بنایا جائے تو لوگ خود بخود بہتر مالی فیصلے کرتے ہیں۔
حکومتی پالیسیوں کا اثر تب ہوتا ہے جب وہ سچ مچ غریبوں کی ضروریات کو سمجھ کر بنائی جائیں۔ یہ کتاب غربت کی راہ میں حائل اصل رکاوٹوں کی وضاحت کرتی ہے، جیسے بدعنوانی اور کرپشن۔ سرکاری اہلکاروں کی نااہلی اور نالائقی کی وجہ سے، عام طور پر، تمام ترقی پذیر ممالک کو بدعنوانی کے مسائل کا سامنا ہے۔ کرپشن کی سیاسی سرپرستی نے مسئلہ سنگین بنادیا ہے۔ مصنفین کے تجرباتی شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ معمولی سی سبسیڈی بھی غریبوں کو فائدہ پہنچا سکتی ہے، لیکن اسے کرپشن سے شدید خطرہ رہتا ہے۔ ریاستوں کا غلط کردار انسداد افلاس کی راہ میں ناامیدی کا سبب ہے۔ کرپشن، صحت اور تعلیم کی ترقی کو برباد کردیتا ہے۔ عوام میں بھی اس بات کو لے کر حتی المقدور بیداری نظر نہیں آتی کہ یہ کتنا بنیادی مسئلہ ہے اور سماجی ترقی کو بہت زیادہ متاثر کر رہا ہے۔ ہم راشن کی دکانوں سے اناج کی مقررہ مقدار سے کم پر لوگوں کے راضی ہوجانے اور سماجی سطح پر اس مسئلے کو کوئی مسئلہ ہی نہیں سمجھنے کا رجحان دیکھتے آئے ہیں۔ حالیہ دنوں میں لاڈلی بہن اسکیم کا کیا حشر ہمارے بدعنوان سیاستدانوں نے کیا۔ یعنی خود اصلاحی تدابیر ہی کو اغوا کرکے یرغمال بنایا گیا حتی کہ قتل کردیا گیا۔ سیاست لوگوں کا مستقبل طے کرتی ہے۔ اگر وہی انتہائی غیر معمولی سطح کے کرپشن کو فروغ دینے کا ذریعہ بن جائے تو حالات سنگین ہو جاتے ہیں۔
ہم نے اس کالم میں اس کتاب کے مشمولات اور اس کے مصنفین کی مخلصانہ کوششوں کا ایک ہلکا سا تعارف پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ دونوں اس مسئلہ کو کسی نظریاتی فریم ورک کے بغیر دیکھتے ہیں۔ یعنی یہ کہ کیپٹل ازم کے نقائص سے اعراض کرتے ہوئے ایک عملی نقطہ نظر کی شکل میں پیش کرتے ہیں۔ دوسری طرف تھامس پیکٹیی جیسے مفکرین کیپٹل ازم کو اپنی ساخت ہی میں غیر برابری کا سرپرست مانتے ہیں اور معاشی پالیسیوں کے ذریعے سوشل جسٹس کو قائم کرنے کی سفارش کرتے ہیں۔
مصنفین نے تحقیق کیلئے `بے ترتیب لیکن کنٹرول شدہ تجربات کا طریقہ اختیار کیا ہے۔ نتائج بتاتے ہیں کہ مفلسوں کیلئے خود کو غربت سے نکالنا اکثر اتنا مشکل کیوں ہوتا ہے۔ یہ کتاب غربت کے متعلق چند غلط فہمیوں کو رد کرتی ہے۔ لوگ اکثر مواقع کی کمی کو غربت کی بنیادی وجہ گردانتے ہیں لیکن کتاب ایسی مثالیں بیان کرتی ہے جہاں افلاس زدہ لوگ اکثر غریب نہ رہنے کے موا قع گنوا دیتے ہیں۔ درست فیصلے انہیں غربت سے نجات دلانے میں مدد کر سکتے ہیں لیکن اکثر لوگوں میں معلومات یا علم کی کمی ہوتی ہے۔ اس کتاب کو پڑھتے ہوئے، قاری لامحالہ یہ سوچنے پر مجبور ہوتا ہے کہ غربت کیسے ختم ہوسکتی ہے، حکومت کو کیا کرنا چاہئے اور غیرسرکاری ادارے کس طرح مدد کر سکتے ہیں ؟