Inquilab Logo Happiest Places to Work

عہدہ اللہ کا انعام ہے اس کا غلط استعمال مت کیجئے

Updated: January 05, 2024, 12:55 PM IST | Mudassir Ahmad Qasmi | Mumbai

ذمہ داروں کیلئےیہ لازمی ہے کہ ان کے اندر صرف دوسروں سے کام کرانے کی عادت نہ ہو بلکہ خود بھی ہاتھ بٹانے کا جذبہ ہو۔ اس صورت میں کوئی بھی کام ہو آسان یا مشکل وہ بآسانی پایۂ تکمیل تک پہنچ جائیگا۔

If Allah Almighty has made you responsible, then you should act with humility, patience, tolerance, sacrifice and wisdom.
اگر اللہ رب العزت نے آپ کو ذمہ دار بنایا ہے تو حلم، بردباری، رواداری، ایثار اور دانشمندی سے کام لینا چاہئے۔ تصویر : آئی این این

نظام کائنات کو بہتر اور منظم ڈھنگ سے چلانے کے لئےاللہ رب العزت نے انسانوں کو مختلف طبقات میں بانٹا ہے؛ چنانچہ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ کچھ منتخب افراد کسی ادارے، تنظیم، مسجد وغیرہ کی کمیٹی میں ہوتے ہیں یا صدر اور سکریٹری کے عہدے پر فائز ہوتے ہیں اور متعلقہ جگہ سے وابستہ دوسرے تمام افراد ان کی خدمات سے استفادہ کرتے ہیں۔ ذمہ داروں کا یہ انتخاب ان کی خصوصیات اور صلاحیتوں کی بنیاد پر ہوتا ہے،اس لئےانہیں اپنی ذمہ داریوں کو اللہ کا انعام سمجھتے ہوئے لوگوں کے اعتماد کا پاس و لحاظ رکھنا چاہیئے اور مفوضہ کاموں کو بحسن و خوبی انجام دینا چاہئے۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ کچھ افراد ایسے بھی ہیں کہ جب انھیں ذمہ داری مل جاتی ہے تو ان کا رویہ حاکمانہ ہوجاتا ہے جبکہ انہیں اس کہاوت کا مظہر ہونا چاہئے کہ قوم کا سردار قوم کا خادم ہوتا ہے۔
اس تمہید کے پس منظر میں اگر ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات ِ مبارکہ کا مطالعہ کر تے ہیں تو ہمیں یہ صاف ملتا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ رب العزت نے تمام انسانوں کا سردار بنایا تھا؛ اسی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات ِ مبارکہ کا ہر لمحہ عوام و خواص کے لئےوقف تھا اور آپﷺ ہر وقت اس بات کے لئےکوشاں رہتے تھے کہ کس طرح تمام انسانوں کو دینی و دنیاوی سکون مل جائے۔چنانچہ ایک مرتبہ کا واقعہ ہے کہ حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے وہ بتاتے ہیں کہ ایک بار ہم مسجد میں نبی پاک ﷺ کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے، اتنے میں ایک شخص اونٹ پر سوار ہو کر آیا اور اونٹ کو مسجد میں بٹھا کر باندھ دیا۔ پھر پوچھنے لگا: ’’تم لوگوں میں محمد ﷺ کون سے ہیں ؟‘‘ نبی کریم ﷺ اس وقت لوگوں میں تکیہ لگائے بیٹھے ہوئے تھے۔ ہم نے کہا: ’’یہ سفید رنگت والے ہیں جو تکیہ لگائے ہوئے تشریف فرما ہیں ۔‘‘ تب وہ آپؐ سے مخاطب ہوا: ’’اے عبدالمطلب کے فرزند۔‘‘ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’کہو میں آپ کی بات سن رہا ہوں ۔‘‘ وہ بولا ’’میں آپ ﷺ سے کچھ دینی باتیں دریافت کرنا چاہتا ہوں اور ذرا سختی سے بھی پوچھوں گا تو آپ اپنے دل میں برا نہ مانیے گا۔‘‘ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’نہیں جو تمہارا دل چاہے پوچھو۔‘‘ (مسند احمد) اس روایت سے یہ پیغام واضح ہے کہ جو ذمہ دار ہوتا ہے اس کے لئےیہ ضروری ہے کہ وہ قوت برداشت کا مالک ہو؛ بصورت دیگر مفوضہ امور کا بننے کے بجائے بگڑنا طے ہے۔
اسی طرح ذمہ داروں کے لئےیہ لازمی ہے کہ ان کے اندر صرف دوسروں سے کام کرانے کی عادت نہ ہو بلکہ خود بھی ہاتھ بٹانے کا جذبہ ہو۔ اس صورت میں کوئی بھی کام ہو آسان یا مشکل وہ بآسانی پایۂ تکمیل تک پہنچ جائے گا۔ اگر اس کے خلاف عمل ہوا تو کام کی رفتار میں کمی اور نقص کے ساتھ ایک قسم کی بدمزگی کی کیفیت کا وقوع بعید از قیاس نہیں ہے۔ اللہ کی پناہ! اس طرح کی سوچ رکھنے والے ہی امام اور مؤذن کو نوکر سمجھتے ہیں ۔اس حوالے سے سیرت کی کتابوں میں ایک واقعہ ملتا ہے جس سے ذمہ داروں کے ذریعے کام میں ہاتھ بٹانے کی سنت کا علم ہوتا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ ایک سفر کے دوران بکری ذبح کر کے پکانے کا مشورہ ہوا۔ صحابہ کرامؓ میں سے ہر ایک نے اپنے ذمے کام لے لیا۔ رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کرامؓ کے منع کرنے کے باوجود لکڑیاں جمع کرنے کے کام اپنے ذمے لے لیا اور فرمایا: ’’میں جانتا ہوں کہ آپ لوگ میرے لیے کافی ہیں ، لیکن اللہ تعالی کو اپنے بندے کو اپنے ساتھیوں سے ممتاز دیکھنا ناپسند ہے۔‘‘ (الرحیق المختوم)
 اسی طرح کچھ ذمے داروں کی جانب سے ایک غلط سوچ یہ سامنے آتی ہے کہ انہیں کام سے زیادہ اپنے آپ کو صدر اور سکریٹری کہلوانے میں دلچسپی ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بعض جگہوں پر جب دینی کام کے لئےبھی اس طرح کے کسی عہدے کا انتخاب ہوتا ہے تو عہدے کی چاہت میں لوگ سیاست کا بازار گرم کر دیتے ہیں اور کبھی تو نوبت مار پیٹ تک پہنچ جاتی ہے۔ 
خلاصہ یہ ہے کہ اگر اللہ رب العزت نے ہمیں ذمہ دار بنایا ہے تو ہمیں حلم، بردباری، رواداری، ایثار اور دانشمندی سے کام لینا چاہئے اور اپنے عہدے کا غلط استعمال نہیں کرنا چاہئے!

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK