Inquilab Logo

نئی تعلیمی پالیسی کے نفاذ کیلئے عملی اقدام

Updated: May 25, 2023, 10:31 AM IST | Dr Mushtaq Ahmed | Mumbai

اب جب کہ ہر ایک چھ ماہ پر امتحان ہوگا اور پابندی کے ساتھ تمام سمسٹر کے امتحانات مکمل کئے جائیں گے تاکہ سیشن میں تاخیرنہ ہو تو اس کے لئے یونیورسٹیوں کے شعبۂ امتحانات میں مزید بنیادی ڈھانچوں کو مستحکم کرنے کی ضرورت پڑے گی۔

photo;INN
تصویر :آئی این این

ہندوستان میں گزشتہ پانچ برسوں سے نئی تعلیمی پالیسی پر بحث و مباحثہ، سمینار ومذاکرہ اور اس کے نفاذ کے طریقۂ کار پر نظریاتی اختلافات کا دور چل رہا ہے اور اب تک پورے ملک میں نئی تعلیمی پالیسی ۲۰۲۰ء کا مکمل طورپر نفاذ نہیں ہو سکا ہے ۔جن ریاستوں میں موجودہ مرکزی حکمراں جماعت والی حکومت ہے وہاں تو مرکز کے ذریعہ اس نئی پالیسی کے اعلانیہ کے ساتھ ہی اس پر عمل شروع ہوگیا لیکن جن ریاستوں میں دیگر سیاسی جماعتوں کی حکومت ہے وہاں اب تک مکمل طورپر اس پالیسی کو نہیں اپنایا گیاہے۔ جہاں تک بہار کا سوال ہے تو یہاں بھی اب تک اس کا نفاذ نہیں ہوا تھا البتہ اس پالیسی کے خاکوں پر حکومت کی جانب سے اکیڈمک سمینار اور مذاکرے ضرور منعقد ہوئے تھے۔ مگر موجودہ گورنر راجندر وشوناتھ ارلیکرجو ریاستی یونیورسٹیوں کے چانسلر بھی ہوتے ہیں انہوں نے ریاست کی تمام یونیورسٹیوں میں گریجویٹ کورسوں کو نئی تعلیمی پالیسی کے مطابق چوائز بیس سسٹم( سی بی ایس) سمسٹر سسٹم کے نفاذ کے لئے راج بھون سے ریگولیشن جاری کردیا ہے اور رواں تعلیمی سیشن ۲۰۲۳ء سے ۲۰۲۷ء تک اس کے نفاذ کا حکم نامہ بھی جاری کردیا ہے۔
  واضح ہو کہ موجودہ گورنر راجندر وشوناتھ ارلیکر محض چار ماہ پہلے بہار کے گورنر کے عہدہ پر فائز ہوئے ہیں اور اپنا عہدہ جلیلہ سنبھالتے ہی بہار کے اعلیٰ تعلیمی نظام کی تبدیلی کے لئے کئی ٹھوس اقدام اٹھائے ہیں۔ بالخصوص چار سالہ گریجویٹ ڈگری کورس کے لئے انہوں نے راج بھون کے ذریعہ ایک کمیٹی تشکیل دے کر اس کورس کے نصاب کو آخری صورت دے کر تمام یونیورسٹیوں کو اس پر عمل کرنے کی ہدایت دی ہے ۔ نصاب میں بھی بڑی تبدیلی کی گئی ہے ۔ اس چار سالہ ڈگری کور س کے لئے انہوں نے جو کمیٹی تشکیل دی تھی اس کے چیئر مین پروفیسر سریندر پرتاپ سنگھ ، وائس چانسلر للت نرائن متھلا یونیورسٹی دربھنگہ بنائے گئے تھے اور ان کے ساتھ ریاست کی دیگر چار یونیورسٹیوں کے وائس چانسلر زاس کے ممبران تھے۔ چونکہ پروفیسر سریندر پرتاپ سنگھ متھلا یونیورسٹی، دربھنگہ کے وائس چانسلر ہونے سے قبل لکھنؤ یونیورسٹی، لکھنؤ ،اترپردیش کے وائس چانسلر شپ کی مدت پوری کرکے آئے تھے اوروہاں وہ چار سالہ گریجویٹ کورس کو عملی جامہ پہنا چکے تھے اس لئے انہوں نے جو چار سالہ سمسٹر سسٹم کورس تیار کیا ہے وہ بہار کی یونیورسٹیوں کے لئے نیا ضرور ہے لیکن ملک کی بیشتر یونیورسٹیوں میں اس طرح کا کورس ۲۰۲۲ء سے ہی نافذ ہے۔یہی وجہ ہے کہ اب تک بہار کی یونیورسٹیوں میں تین سالہ ڈگری کورس اور سالانہ امتحان کے ذریعہ پاس ہونے والے طلبا ء وطالبات کو دیگر ریاستوں کی یونیورسٹیوں میں اعلیٰ تعلیم کے لئے داخلہ لینے میں پریشانیاں ہو رہی تھیں۔
  گزشتہ سال بہار کی واحد پٹنہ یونیورسٹی ، پٹنہ نے تین سالہ کورس کو سمسٹر سسٹم میں تبدیل کیا تھا لیکن بقیہ تمام یونیورسٹیوں میں روایتی تین سالہ نصاب جاری تھا۔ اب جب کہ گورنر موصوف نے اپنے حکم نامے میں تمام یونیورسٹیوں کو یہ ہدایت دی ہے کہ ریاست میں اب صرف اور صرف چار سالہ سمسٹر سسٹم ڈگری کورس کی چلائے جائیں گے تو ایک بڑی مشکل یہ پیش آرہی ہے کہ ریاست کی یونیورسٹیوں میں جب سالانہ امتحان کا نظام چل رہا تھا تو بیشتر یونیورسٹیوں کے سیشن میں سال دو سال کی تاخیر واقع ہو گئی تھی ۔ اب جب کہ ہر ایک چھ ماہ پر امتحان ہوگا اور پابندی کے ساتھ تمام سمسٹر کے امتحانات مکمل کئے جائیں گے تاکہ سیشن میں تاخیرنہ ہو تو اس کے لئے یونیورسٹیوں کے شعبۂ امتحانات میں مزید بنیادی ڈھانچوں کو مستحکم کرنے کی ضرورت پڑے گی۔ 
 اب چوں کہ کریڈٹ سسٹم کا نفاذ ہوگا اور اسی کی بنیاد پر نتائج بھی جاری ہوں گے تو اچانک امتحان کے نظام میں تبدیلی باعثِ پریشانی تو ضرورہوگی۔ دراصل اب طلبہ کو یہ آزادی ہوگی کہ وہ اپنی پسند کے موضوعات لے کر اپنی ڈگری حاصل کریں۔ اب تک روایتی کورس میں آرٹس کے طلبہ صرف آرٹس کے سبجیکٹ ہی لے سکتے تھے اور سائنس وکامرس کے طلبہ اپنی فیکلٹی کے سبجیکٹ ہی منتخب کرسکتے تھے لیکن اس نئے کورس کے نفاذ سے سائنس کے طلبہ آرٹس کا کوئی سبجیکٹ بھی رکھ سکتے ہیں اور آرٹس کا طالب علم سائنس کا کوئی سبجیکٹ منتخب کر سکتا ہے۔ 
 دوسری اہم سہولت یہ ہوگی کہ پہلے تین سالہ ڈگری کورس میں داخلہ لینے والے طلبہ جب تک تینوں سال کے امتحان میں شامل نہیں ہوتے اس وقت تک انہیں فائنل ڈگری نہیں دی جاتی تھی جب کہ اس چار سالہ کورس میں اگر کوئی طالب علم صرف ایک سال مکمل کرکے یعنی دوسمسٹر کا امتحان دے کر اپنی پڑھائی چھوڑ دیتا ہے تو انہیں ایک سال کی سرٹیفکیٹ مل جائے گی اور اس نے دو سال پورا کرلیا تو اسے دوسری سرٹیفکیٹ مل جائے گی اور اگر تین سال یعنی چھ سمسٹر مکمل کرلیا تو اسے ڈگری مل جائے گی اور ایسے طلبہ جو چار سال تک اپنی پڑھائی جاری رکھیں گے اور کل آٹھ سمسٹر کے امتحانات دیں گے تو انہیں گریجویٹ کے ساتھ ساتھ ریسرچ کی بھی ڈگری مل جائے گی اور اسے ماسٹر ڈگری کے لئے محض ایک سال کا نصاب پورا کرنا ہوگا۔ دراصل حکومت کی منشا یہ ہے کہ اگر کوئی طالب علم کسی مجبوری کی وجہ سے ایک سال مکمل کرکے اپنی پڑھائی چھوڑ دیتا ہے تو اس کا وہ سال ضائع نہ ہو اور اسے ایک سند بھی مل جائے تاکہ وہ روزگار کے شعبے میں اپنی قسمت آزمائی کر سکے۔ اب دیکھنایہ ہے کہ یہ نیا نصاب سالِ رواں سے شروع کیا جا رہاہے اور گورنر موصوف جوبہار کی تمام یونیورسٹیوں کے چانسلر ہیں وہ اس کا مکمل نفاذچاہتے ہیں اور محکمہ اعلیٰ تعلیم ، حکومت بہار کے پرنسپل سیکریٹری بھی اس کمیٹی میں شامل رہے ہیں تو مستقبل میں یونیورسٹیوں کے سامنے جو مسائل درپیش ہوں گے اس کا حل کس طرح نکل پاتا ہے کیونکہ ریاست میں سیشن میں تاخیرکی وجہ سے ہی یہاں کے طلبہ دوسری ریاستوں کا رخ کرتے رہے ہیں ۔ اگر اس پر قابو پا لیا گیا تو واقعی اس نئے تعلیمی نظام سے اعلیٰ تعلیم میں ایک بڑاانقلاب پیدا ہو سکتا ہے اور ریاست میں ایک نئی تعلیمی فضا قائم ہو سکتی ہے جو ریاست کے عوام کے لئے مفید ثابت ہوگی۔
 اگرچہ حکومت بہار نے ریاست میں اب تک نئی پالیسی ۲۰۲۰ء کو مکمل طورپرنافذ نہیں کیا ہے اور اس کے نفاذ کو لے کر طرح طرح کی سیاسی بیان بازیاں بھی ہوتی رہی ہیں لیکن اب جب کہ ریاست کی یونیورسٹیوں میں گریجویٹ سطح پر نئی تعلیمی پالیسی کے مطابق نصاب داخل کئے جا رہے ہیں تو ایسا سمجھا جانا چاہئے کہ یہ نئی تعلیمی پالیسی کے نفاذ کا اشاریہ ہی ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK