Inquilab Logo

پریم چند کا لازوال کردار ’دَھنیا‘ وہ عورت ہے جو اپنے عورت ہونے پرنادِم نہیں

Updated: March 08, 2020, 6:00 PM IST | Ali Ahmed Fatmi

تحریک آزادی سے وابستہ ہونے اور گاندھی جی کے خیالات سے متاثر ہونے کے بعد پریم چند کو پہلے آدرش وادی توہونا ہی تھا۔ اسی لئے ان کی کہانیوں کا سفر دنیا کا سب سے انمول رتن اور بڑے گھر کی بیٹی جیسی کہانیوں اور اسرارِ معابد جیسے ناولوں سے شروع ہوتا ہے جو ’’کفن‘‘ اور ’’گئودان‘‘ تک پہنچتے پہنچتے فکر و خیال کا ایک تاریخی سفر بن جاتا ہے۔

Munshi Premchand - Pic : INN
منشی پریم چند ۔ تصویر : آئی این این

سال ۱۸۵۷ کا انقلاب نرم پڑچکا تھا لیکن عوام کے اندر ایک تڑپ، ایک چبھن ان کے ذہنوں کو کرید رہی تھی، پھر یہ چبھن رفتہ رفتہ ایک تحریک کی شکل اختیار کرتی گئی۔ تحریک آزادی سے وابستہ ہونے اور گاندھی جی کے خیالات سے متاثر ہونے کے بعد پریم چند کو پہلے آدرش وادی توہونا ہی تھا۔ اسی لئے ان کی کہانیوں کا سفر دنیا کا سب سے انمول رتن اور بڑے گھر کی بیٹی جیسی کہانیوں اور اسرارِ معابد جیسے ناولوں سے شروع ہوتا ہے جو ’’کفن‘‘  اور ’’گئودان‘‘ تک پہنچتے پہنچتے فکر و خیال کا ایک تاریخی سفر بن جاتا ہے۔ یہ تاریخ صرف پریم چند کے افسانوی ادب کی نہیں بلکہ ہندوستانی سماج و سیاست کی تاریخ بن جاتی ہے اور یہی پریم چند کا کمال ہے کہ ایک طرف وہ اپنی ذات کو لادتے نہیں، دوسری طرف لال پیلا جھنڈا نہیں اٹھاتے، نعرے نہیں بلند کرتے اس لئے کہ وہ ادیب تھے، تخلیق کار تھے، پروفیشنل سیاستداں یا سماجی کارکن نہیں اور انہیں اس بات کاعلم تھا کہ ادب کی اپنی حدیں ہوتی ہیں۔ ادب کا ایک مخصوص مقصد ہوتا ہے اور اس کا اپنا طور طریقہ۔ وہ جانتے تھے کہ بڑا ادب اوپر سے نعرہ بازی نہیں کرتا بلکہ بڑا ادب تو دردمندی، غم انگیزی اور کتھارسس سے پیدا ہوتا ہے یا یوں کہئے کہ کم از کم انہوں نے یہی راستہ چنا تھا۔ وہ دنیا کا ادب عام طور پر اور فارسی نیز اردو ادب خاص طور پر پڑھ کر آئے تھے جہاں عشق و محبت کے ساتھ ساتھ رنج و غم کو بے پناہ اہمیت دی گئی تھی۔ ایک شاعر نےتویہاں تک کہہ دیا تھا…
دل گیا رونقِ حیات گئی=غم گیا ساری کائنات گئی
 پریم چند سماج کے جس طبقہ سے آئے تھے وہاں غم ہی غم تھا۔ کچھ تو حالات  تھے، کچھ حادثات تھے اور کچھ اوڑھے ہوئے تصورات تھے۔ وہ سماج کی اس گتھی پر نظر رکھتے تھے اسی لئے ان کی نظریں انہیں حقائق پر تھیں۔ وہ انہیں حقائق پر فکر و فن کے حوالے سے حقیقت کی شمع روشن کرنا چاہتے تھے۔ اگر وہ کورے آدرش وادی ہوتے تو راشدالخیری اور نذیر احمد ہوکر رہ جاتے لیکن پریم چند کا عام رہن سہن، عام آدمی کی نفسیات اور سماج کے پیچ و خم کو سمجھنے کی کوشش بڑا کام کرگئی۔ اسی لئے ان کی کہانیاں یا ناول بڑے سیدھے سادے انداز میں پیش ہوتے ہیں لیکن ان میں سنجیدگی اور پیچیدگی پوشیدہ ہے جیسا کہ سماج میں ہے۔ اسی طرح وہ اپنے کرداروں کو بھی کورا آدرش اور مثالی نہیں بناتے، اس کے معمولی پن اور فطری پن کے ساتھ غیرمعمولی کہنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایک جگہ وہ خود لکھتے ہیں:  ’’کرداروں کو مثالی یا دلکش بنانے کے لئے یہ ضروری نہیں کہ وہ بے قصور ہوں۔ بڑے بڑے بزرگوں میں کچھ نہ کچھ کمزوریاں ہوتی ہیں۔ کرداروں کو زندہ  بنانے کیلئے  ان کمزوریو ںکی نمائش سے کچھ نقصان نہیں ہوتا بلکہ یہی کمزوریاں اس کردار کو انسان بناتی ہیں۔ ناول لکھنے کی کامیابی یہی نہیں ہے کہ کرداروں میں جان ڈال دی جائے،  ان کی زبان سے جو الفاظ نکلیں وہ خود بخود نکلیں نکالے نہ جائیں، جو کام کریں وہ خود کریں۔ اگر قاری کسی بات سے متفق نہیں ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ مصنف کردارنگاری میں ناکام ہے۔‘‘
  ایک ایسے معاشرہ میں جہاں مفلسی اور اندھیرا ہے، جہالت اور توہم ہے، دھنیا جیسا کردار خلق کردینا ہی اپنے آپ میں انقلابی قدم تھا۔ سچ بھی یہی ہے کہ پریم چند دھنیا کو کوئی انقلابی کردار کی شکل میں پیش نہیں کررہے تھے کیونکہ پریم چند جانتے تھے کہ ادب میں انقلاب اندر کی سچائیوں اور دردمندی سے پھوٹتا ہے۔ اسی لئے وہ ایک ایسے سماج کی منظرکشی کررہے تھے جہاں دھنیا جیسا کردار بے چینی و چھٹپٹاہٹ میں مبتلا ہے۔ اگر یہ بے چینی قاری کے سینے میں راست طور پر اتررہی ہے تو میرا خیال ہے کہ پریم چند اپنے مقصد میںکامیاب ہیں۔
 دھنیا غریب کسان کی بیوی ہے، ماں ہے۔ وہ ہر جگہ اپنے عورت ہونے کا ثبوت دیتی ہے لیکن اپنے شوہر کے سنسکاروں کے آگے مجبور ہے، پر موقع بہ موقع اپنے شوہر سے بھی الجھ جاتی ہے، لیکن جب وہ یہ کہتا ہے کہ …’’ساٹھ تک پہنچنے کی نوبت نہ آئے گی…‘‘ تو وہ لرز جاتی ہے۔ حالات کی سچائی اور اس کے کڑوے پن سے اس کے دل میں ہلچل پیدا ہوتی ہے۔ وہ باہر جاتے ہوئے ہوری کو کھڑے ہوکر دیکھتی رہتی ہے اور اپنے استری دھرم کے ذریعے اپنے کمزور اور غریب شوہر کو بلاؤں سے بچائے رکھنے کی کوشش کرتی ہے۔ اس کی غریبی اور مفلسی کے اتھاہ سمندر میں سہاگ وہ تنکا ہے جس کے سہارے وہ زندگی کی ناؤ پار کررہی ہے۔ وہ ایک نہیں کئی بار گھر کے باہر کے معاملات کے درمیان پڑ کر ناانصافی کا سامنا کرتی ہے۔ زمیندار کی خوشامد کو ناپسند کرتی ہے۔ وہ صاف کہتی ہے … ’’ہم نے زمیندار کے کھیت جوتے ہیں تو وہ لگان ہی تو لے گا۔ ہم اس کی خوشامد کیوں کریں؟‘‘ اسی طرح وہ گاؤں کے چودھری سے الجھ جاتی ہے، اپنے دیور سے جھگڑا کرتی ہے لیکن ان سب کی اپنی حدیں ہیں۔ اسے اپنے شوہر، گھر اور خاندان کو بھی دیکھنا ہے۔
 دوسری عورتیں یا آج کی عورتیں، عورت ہونے یا عورت کے وجود پر اظہار افسوس کرتی ہیں۔ ہندوستان کے صدیوں کے معاشرتی مذاق یا زوال کے پیش نظر شاید ایسا غلط بھی نہ ہو لیکن دھنیا بھی تو عورت ہے، وہ اپنے عورت ہونے پر ذرا بھی نادم نہیں۔ اس میں ندامت کیسی؟ جو ہے، جیسا ہے ، سب کے اپنے اپنے کام ہیں، فرائض ہیں اور اسی کام اور فرض کو اپنی اپنی صورت حال میں نبھاتے چلنا ایک بڑا کام ہے۔ ہندوستانی سماج کی غلطیوں اور پیچیدگیوں میں اس کام کو سلیقہ و ذمہ داری سے کرپانا اکثر ممکن نہیں ہوتا، اسی لئے دھنیا غم و غصہ میں مردوں کی طرح جھنجھلانے لگتی ہے۔ ’’گئودان‘‘ میں ایک مقام پر ڈاکٹر مہتا کہتے ہیں کہ مردوں میں ممتا آجائے تو وہ مہاتما بن جاتا ہے اور عورت میں مردوں کی خصوصیات آجائیں تو وہ کلٹا ہوجاتی  ہے… اگر یہ خیال سچ  ہے تو اس روشنی میں ہوری تو مہاتما بن جاتا لیکن دھنیا کے ساتھ ایسا ہوپانا ممکن نہیں۔ جس فطری انداز میں اس کے اندر ردّ عمل ہوتا ہے اور وہ غصہ کرتی ہے بلکہ  للکارتی ہے اس سے اس کا کردار بلند ہی ہوتا ہے، وہ مہاجن اور داروغہ دونوں کا منہ بند کرکے انسان اور انسانیت کا ایسا درس دے جاتی ہے جہاں سب کچھ بڑا فطری اور ضروری سا لگتا ہے، کیونکہ ہوری کے مقابلے اسے بہرحال ایک عام انسان کی طرح دکھ درد کے حوالے سے ردّعمل تو ظاہر کرنا ہی تھا۔ ہوری خواہ کسی طرح اپنے بھائی کو بچائے لیکن دھنیا منوا لیتی ہے کہ گائے کو زہر اس کے دیور ہیرا نے ہی دیا ہے۔ گاؤں والے ہوری کو تو ذات برادری کے باہر کردیتے ہیں لیکن دھنیا کو روکنے ٹوکنے کی ہمت کسی میں نہیں۔ گاؤں والوں نے جو جرمانہ لگایا ہوری تو برداشت کرلیتا ہے لیکن دھنیا غصہ میں کہتی ہے … ’’میں ایک دانہ اناج کا نہ دوں گی نہ ایک کوڑی جرمانہ، جس میں بو‘تا ہے چل کر مجھ سے لے، دھنیا کے جیتے جی یہ نہیں ہونے کا…‘‘
 جہاں وہ سماج کے آگے بپھرتی ہے وہیں اپنے شوہر کے آگے بے بس ہوجاتی ہے۔ دھنیا کے کردار کا یہ تضاد ہی اسے بڑا بناتا ہے۔ اگر یہ تضاد غلط ہے تو یہ دھنیا کا نہیں سماج کا ہے، اس میں پریم چند کا کوئی قصور نہیں۔ اسی لئے پریم چند کا سارا زور سماج پر  ہے۔ انسان کا انسان ہونا باعث افتخار ہے ، عورت کا عورت ہونا اس سے زیادہ مسرت، افتخار و احترام کا باعث، اس کے برعکس دنیا کی عورتوں کی جو بے حرمتی ہوئی اسے کسی طرح جائز نہیں قرار دیا جاسکتا۔ لیکن یہ پورا سچ ہو یعنی کہ عورت کی تذلیل کی مکمل ذمہ داری صرف اور صرف مرد پر ہو، اس پر بحث ہوسکتی ہے اور ہوتی رہی ہے۔ مردوں نے عورت کی عزت بھی کی ہے، اسے مناسب تعظیم و تحریم سے سرفراز بھی کیا ہے۔ گئودان کی دھنیا اس بیباکی کی وجہ سے مضبوط ہے۔
  اب اس کا کیا کیجئے کہ اپنی تمام تر مضبوطی کے باوجود دَھنیا  ہندوستانی گاؤں کے غریب کسان کی بیوی ہے  اور اس کی کچھ حدیں ہیں اور کچھ مریادائیں بھی۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK