Inquilab Logo

صدارتی انتخاب اور اپوزیشن کا اتحاد

Updated: June 23, 2022, 11:19 AM IST | Mumbai

 بھارتیہ جنتا پارٹی کی سیاسی طاقت اور الگ الگ پارٹیوں کی حمایت حاصل کرنے کی مہارت کسی سے چھپی ہوئی نہیں ہے، اس لئے یہ سوچنا بھی وقت ضائع کرنے جیسا ہوگا کہ صدارتی الیکشن میں این ڈی اے کی اُمیدوار دروپدی مرمو کامیاب نہیں ہوں گی، مگر، جتنی آسانی سے سابقہ الیکشن میں رام ناتھ کووند کو کامیابی ملی تھی، اُتنی آسانی سے دروپدی مرمو کو نہیں مل سکتی۔

Picture.Picture:INN
علامتی تصویر۔ تصویر: آئی این این

 بھارتیہ جنتا پارٹی کی سیاسی طاقت اور الگ الگ پارٹیوں کی حمایت حاصل کرنے کی مہارت کسی سے چھپی ہوئی نہیں ہے، اس لئے یہ سوچنا بھی وقت ضائع کرنے جیسا ہوگا کہ صدارتی الیکشن میں این ڈی اے کی اُمیدوار دروپدی مرمو کامیاب نہیں ہوں گی، مگر، جتنی آسانی سے سابقہ الیکشن میں رام ناتھ کووند کو کامیابی ملی تھی، اُتنی آسانی سے دروپدی مرمو کو نہیں مل سکتی۔ اس کیلئے بی جے پی کو سخت مراحل سے گزرنا ہوگا۔ یوپی اور اُتراکھنڈ کے حالیہ الیکشن میں اس کی سیٹیں کم ہوجانے کی وجہ سے اس کے پاس ۱ء۲؍ فیصد ووٹوں کی کمی ہے۔ وائی ایس آر کانگریس اور بیجو جنتا دل کے ساتھ آجانے سے اس کی مشکل یقیناً دور ہوجائیگی مگر یہ تب ہوگا جب این ڈی اے کی تمام پارٹیاں اور ان پارٹیوں کے تمام اراکین حسب اُمید ووٹ دیں۔ اگر اس میں کوئی دراڑ پڑی، مثلاً نتیش کمار نے الگ ذہن بنایا، تو مشکلات پیش آسکتی ہیں، ویسے نتیش کمار نے حمایت کا اعلان کردیا ہے۔  جہاں تک این ڈی اے اور یوپی اے کے اُمیدواروں کا تعلق ہے، اس بات کیلئے آخر الذکر کی ستائش کرنی ہوگی کہ اِس نے اپنے اُمیدوار کے نام کا اعلان این ڈی اے سے پہلے کیا۔ اس سے اعتماد ظاہر ہوتا ہے۔ دوسری قابل ذکر بات یہ ہوئی کہ اس نے کسی سرپھٹول کے بغیر سوفیصد اتفاق رائے سے اپنے اُمیدوار (یشونت سنہا) کا انتخاب کیا۔ تیسری قابل ذکر بات یہ رہی کہ یوپی اے کی پارٹیوں نے آپسی تنازعات اور من مٹاؤ کو بالائے طاق رکھ کر ثابت کردیا کہ اپوزیشن کی صفوں میں اتحاد پیدا ہوسکتا ہے۔ اتحاد ہی کے مقصد سے ترنمول اور لیفٹ پارٹیوں نے ایک دوسرے کی رائے قبول کی اور کانگریس نے یہ نہیں سوچا کہ ترنمول کیوں کوئی پیش رفت کرے یا اپنے ہی لیڈر کو کیوں صدارتی اُمیدوار بنائے۔ جب یہ شرط رکھی گئی کہ یشونت سنہا کو ترنمول سے استعفیٰ دینا چاہئے تو ممتا نے یہ شرط بآسانی مان لی، یشونت سنہا نے استعفیٰ دے دیا اور اب زیادہ پُروقار طریقے سے الیکشن لڑیں گے۔ آپ دیکھ رہے ہیں کہ کئی باتیں ہوئی ہیں جنہیں قومی میڈیا نہیں دکھانا چاہے گا۔ یہ اتحاد آئندہ بھی برقرار رہ سکتا ہے اگر یہ غیر بی جے پی پارٹیاں اتحاد میں برکت اور انتشار میں فضیحت کے قدیم نسخے کو اچھی طرح سمجھ لیں۔ ووٹ فیصد کے حساب سے ان کی طاقت آج بھی بی جے پی یا این ڈی اے سے زیادہ ہے مگر ان پارٹیوں نے خود کو منوانے کیلئے ایک دوسرے کا ہاتھ تھامنے کی فراخدلی کا مظاہرہ بہت کم موقعوں پر کیا ہے۔اکثر موقعوں پر ان کا اختلاف ہی منظر عام پر آیا ہے۔  یشونت سنہا کے نام کا انتخاب بھی یوپی اے یا غیر بی جے پی پارٹیوں کی بڑی حکمت عملی ہے۔ خود یشونت سنہا کا یہ کہنا بھی لائق ستائش ہے کہ وہ اپوزیشن کے اتحاد کیلئے کوشاں ہیں اور صدارتی اُمیدوار بننے کیلئے رضامند ہوجانا اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ چونکہ اُنہوں نے سول سروسیز میں رہتے ہوئے الگ الگ عہدوں پر کام کیا ہے، ہندوستانی سیاسی تاریخ کا طویل دور دیکھا ہے، چند شیکھر اور واجپئی کی حکومت میں شامل رہے ہیں اور وزیر مالیات نیز وزیر خارجہ کی حیثیت سے طویل عرصے تک ملک کی خدمت کی ہے اس لئے ان کا قد اونچا تو ہے ہی، دیگر پارٹیوں کے لیڈروں سے ان کے تعلقات کی نوعیت بھی بالکل مختلف ہے۔ اسی لئے یہ خارج از امکان نہیں کہ انہیں دیگر پارٹیوں کے اراکین کے ووٹ بھی مل جائیں کیونکہ صدارتی الیکشن میں پارٹی کی جانب سے وہپ جاری نہیں ہوتی۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK