Inquilab Logo

خیانت کا تدارک: اللہ رب العزت عالم الغیب والشہادۃ ہیں، اس یقین کومستحکم کیجئے

Updated: January 14, 2022, 1:40 PM IST | Prof. Zafarul Islam Islahi | Mumbai

گزشتہ جمعہ کو شائع ہونے والے مضمون ’’خیانت، اس کی اقسام اور خیانت کار‘‘ کا دوسرا اور آخری حصہ)

The Qur`an contains the best guidance for life.Picture:INN
قرآن مجید میں شعبہ ہائے حیات کے لئے بہترین رہنمائی موجود ہے ، ضرورت اس بات کی ہے کہ تلاوت قرآن کرتے وقت اس پر تدبر اور غور و فکر بھی کیا جائے۔ تصویر: آئی این این

خیانت سے پناہ طلب کرنا : ان سب کے علاوہ خیانت کے ایک چھپی ہوئی بری خصلت ہونے پر یہ امر بھی شاہد ہے کہ نبی کریمؐ اپنی دعائوں میں جن چیزوں سے اللہ کی پناہ طلب کرتے تھے ان میں خیانت بھی شامل تھی۔آپؐ کے یہ کلماتِ استعاذہ ملاحظہ ہوں: (ترجمہ) ’’اے اللہ ! میں بھوک سے تیری پناہ مانگتا ہوں، اس لئے کہ یہ بُرا ساتھی ہے اور میں خیانت سے تیری پناہ طلب کرتا ہوں، بے شک یہ بد ترین باطنی خصلت ہے۔‘‘ (سنن نسائی، کتاب ۱لاستعاذۃ ) اس حدیث پاک کا آخری لفظ البطانۃ گہری توجہ چاہتا ہے، جس سے یہ حقیقت بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ خیانت کا تعلق باطن یا انسان کے اندرون سے ہے۔ بلاشبہ یہ ایک ایسی اندرونی بیماری ہے کہ جس کو یہ لگ جاتی ہے ، نہ صرف اس کے لئے انتہائی مہلک ثابت ہوتی ہے، بلکہ جو بھی اس کا نشانہ بنتے ہیں اور خیانت کی زد میں آتے ہیں ، ان کے لئے بھی تکلیف دہ بنتی ہے۔ یہ واضح رہے کہ حدیث میں مذکور لفظ ’البطانۃ‘ کا اردو ترجمہ مختلف طور پر: بُری باطنی خصلت، بہت برا اندرونی ساتھی، بدترین چھپا ہوا ساتھی،اندرونی برائی یا چھپی ہوئی برائی کیا گیا ہے۔ ’خیانت ‘کے محرکات و نتائج کو محسوس کرکے اس کا توضیحی ترجمہ ’بدترین باطنی خصلت‘ یا ’ بدترین اندرونی بیماری‘ زیادہ موزوں معلوم ہوتا ہے۔ ایک باطنی بیماری کی حیثیت سے خیانت کا نفاق سے بہت گہرا تعلق ہے ۔
خیانت اور کذب : نفاق کی تین واضح نشانیوں میں کذب او ر خیانت ہیں ۔ اس سے یہ حقیقت واضح ہو تی ہے کہ خیانت اور کذب میں بہت گہرا تعلق ہے۔ جھوٹ، جھوٹی گواہی، غلط بیانی کا ایک اندرونی برائی ہونا بخوبی معلوم ہے۔ حضرت ابوامامۃؓ سے مروی اس ارشادِنبویؐ سے اسی موضوع پر مزید روشنی پڑتی ہے: ’’مومن کی طبیعت میں ہرچیز (خصلت) کے پائے جانے کا امکان ہے سوائے خیانت و کذب کے۔‘‘ (للبہیقی، کتاب الشہادت، باب من کان منکشف الکذب، حدیث: ۱۹۳۷۷)
 حقیقت ہے کہ جس برائی کو کذب ( جو موجب غضبِ الٰہی ہے) کی ہم نشینی حاصل ہو اس کا اللہ تعالیٰ کی ناراضی کا موجب، اس کے بندوں کے لئے باعث زحمت اور انجام کے اعتبار سے تباہ کُن ہونا یقینی ہے۔ حدیث سے یہ نکتہ نکھر کر سامنے آتا ہے کہ اس شخص کا ایمان کامل نہیں جس کے اندر امانت نہیں۔ یہ امر بدیہی ہے کہ جوشخص نہ تو امانت کا حق ادا کرتا ہے اور نہ اس کے تقاضے ہی پورے کر تا ہے ،یعنی خیانت کی راہ اپنا لیتا ہے، وہ کیسے کامل ایمان والا ہو سکتا ہے۔ایک دوسری حدیث میں مسلم کی شناخت اس طور پر بیان کی گئی ہے کہ وہ نہ اپنے مسلم بھائی کے ساتھ خیانت کا معاملہ کرتا ہے،نہ اس سے جھوٹ بولتا ہے اور نہ اسے ذلیل و رُسوا کرتا ہے ۔(جامع ترمذی، ابواب البر) اس پوری تفصیل سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ سچائی، دیانت داری اور عہد کی پاس داری اہلِ ایمان کا شیوہ ہے اور کذب، خیانت، اور عہد شکنی منافقین کا طریق کار ہوتا ہے۔
مسلم و غیرمسلم سے خیانت جائز نہیں: واقعہ ہے کہ خیانت ایسی بری حرکت اور مہلک خصلت ہے کہ اسلام میں کسی کے ساتھ بھی اس کا ارتکاب روا نہیں ہے۔ مسلم و غیر مسلم، حمایتی و مخالف، کسی کے ساتھ بھی معاملہ کرنے میں اسے روا نہیں رکھا گیا ہے ، حتیٰ کہ کسی کے ساتھ انتقاماً بھی خیانت کا معاملہ کرنا جائز نہیں ہے۔ اگر غیرمسلموں کے ساتھ کوئی عہد و پیمان ہوا ہے اور انہوں نے کوئی غلط طرزِ عمل اختیار کیا ہے تو ان کے خلاف کارروائی سے قبل عہد و پیمان کو باقاعدہ منسوخ کرنے کا اعلان کرنا ضروری ہے، ورنہ یہ کارروائی معاہدے کی خلاف ورزی ہوگی اور خیانت کے زمرے میں آئے گی ،جیسا کہ سورۃ الانفال کی آیت ۵۸؍ سے واضح ہوتا ہے۔ اسلام اپنے ماننے والوں کو اس کی بھی اجازت نہیں دیتا کہ وہ ان لوگوں کے ساتھ خیانت کا معاملہ کریں، جو ان کے ساتھ خیانت کا رویہ اختیار کرتے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشادِ گرامی ملا حظہ ہو : ’’امانت اس کے حوالے کردو جس نے تمہیں (کسی چیز کا) امین بنا یا ہے اور اس کے ساتھ( بھی) خیانت نہ کرو جو تمہارے ساتھ خیانت کا معاملہ کرے۔‘‘ (جامع ترمذی، ابواب البیوع) اس سے یہ واضح ہوا کہ اسلام میں امانت کی پاس داری کو کس قدر اہمیت حاصل ہے اور یہ کہ خیانت کتنی بُری حرکت ہے کہ مسلم و غیر مسلم، حمایتی و مخالف، کسی کے ساتھ بھی خیانت کا معاملہ کرنا جائز نہیں ہے۔
 خیانت کفرانِ نعمت ہـے: خیانت اس اعتبار سے بھی نہایت نا پسندیدہ اور اللہ رب العزت کو ناراض کرنے والی حرکت ہے کہ اس میں کفرانِ نعمت، یعنی اللہ کی عطا کردہ نعمتوں (جسمانی قوت ،ذہنی صلاحیت،سمجھ بوجھ، فہم و علمی استعداد اور مال و دولت وغیرہ) کی ناشکری ہے۔ قرآن کریم میں اللہ کی نگاہ میں خیانت کرنے والوں کے ناپسندیدہ ہونے کے ذکر کے فوراً بعد ’کفور‘ ( ناشکرا) کا لفظ آیا ہے: (الحج:۳۸ ) ۔ اس سے خود یہ بات واضح ہوتی ہے کہ خیانت میں کفرانِ نعمت بھی ہے۔اس آیت کی تشریح میں صاحبِ ِتفہیم القرآن تحریر فرماتے ہیں کہ اللہ کی ناپسندیدگی اس وجہ سے ہے کہ خائن ہر اس نعمت میں خیانت کررہا ہے، جو اللہ نے اس کے سپرد کی ہے اور ہر اس نعمت کا جواب ناشکری اور کفران ِنعمت اور نمک حرامی سے دے رہا ہے جو اللہ نے اس کو بخشی ہے۔
 ( تفہیم القرآن، ج۳، ص ۲۳۱)
 درحقیقت اللہ رب العزت نے جو نعمت بھی کسی کو عطا کی ہے وہ اس کی طرف سے ایک امانت ہے۔ اُس نعمت کا بے جا،بے فائدہ اور بری نیت یا غلط مقصد سے استعمال بلا شبہ اس کی ناشکری ہے جو منعمِ حقیقی کو انتہائی نا پسند ہے۔ اللہ کی نعمت کا بے جا استعمال فی نفسٖہ کفران یا ناشکری ہے اور اس میں بری نیت مل جائے تو یقینی طور پر اس گناہ کی سنگینی اور بڑھ جاتی ہے۔ یہاں یہ واضح رہے کہ سورۃ النساء کی آیت نمبر ۱۰۷؍ میں ’ خوَّان‘ (خائن کی جمع) کے ساتھ لفظ ’اثیم‘ (گنہ گار) بھی آیا ہے: ’’ یقیناً ً اللہ کسی ایسے شخص کو پسند نہیں کرتا جو خیانت کار ا ور معصیت کار ہو۔‘‘ اس سے یہ حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ خیانت اور گناہ کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔
خدا کی نصرت سے محرومی: خیانت یا خفیہ طور پر بد دیانتی کے ذریعے اپنے فائدہ کے لئے دوسروں کو نقصان پہنچانے یا ذہنی اذیت دینے والے کوآخرت میں جس سخت عذاب کاسامنا ہو گا (الانعام :۱۲۴، فاطر :۱۰) وہ اپنی جگہ ہے، ایسا کرنے والے دنیا میں اس کے وبال سے بچ نہیں سکتے، جیسا کہ قرآنی آیات سے واضح ہوتا ہے ۔ اول یہ کہ خیانت کے ارتکاب کے لئے خفیہ تدبیریں،سازشیں اور بری چالیں ( چھپانے کی طرح طرح کی حرکتوں کے باوجود) کسی نہ کسی طرح بے نقاب ہوکر رہتی ہیں جو ذلت و رسوائی اور دنیوی گرفت اور مختلف قسم کے نقصانات کا ذریعہ بنتی ہیں۔ (المائدہ : ۱۳؛ الانبیاء:۷۰) دوسرے بعض اوقات خیانت کار اور مکر و فریب کرنے والے خود اپنی ہی بری چالوں میں گھر جاتے ہیں اور اس سے نکل نہیں پاتے (فاطر: ۴۳)۔ تیسرے اللہ کی تدبیرِ متین کے آگے فریب دہی اور بُری چال کے ذریعے خیانت کی حرکتیں چل نہیں پاتیں، بالآخر وہ ناکام ہو کر رہتی ہیں۔ (آل عمران :۵۴، الاعراف :۹۹، ۱۸۳، یوسف:۳۴، النمل :۵۰، فاطر:۱۰، المومن: ۲۵، ۳۷، القلم :۴۵؛الفیل :۲)۔ اس ضمن میں ایک اور اہم بات یہ ہے کہ ان سب بیانات کے ثبوت میں قرآن نے واقعاتی شواہد بھی پیش کیے ہیں جو متعلقہ آیات کے سیاق و سباق پر گہری نظر ڈالنے سے سامنے آ جا تے ہیں ۔
 قرآن و حدیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ خیانت کرنے والے اللہ کی نصرت سے محروم ہوجاتے ہیں ۔قرآن میں ان لوگوں کی حمایت اور دفاع سے منع کیا گیا ہے، جو خیانت کے مرتکب ہوتے ہیں (النساء:۱۰۶-۱۰۷)۔ اور یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ اللہ کی نصرت و حمایت انہی لوگوں کو نصیب ہوتی ہے، جو ایمان کے تقاضے پورے کرتے ہیں اور اللہ کی عنایت کردہ صلاحیتوں کو صحیح طور پر استعمال کرتے ہیں۔ خیانت کار، دل ودماغ کی قوتوں کو غلط کام پر لگانے، یعنی ناشکرے اس سے محروم رہتے ہیں ۔(الحج :۳۸) پھر ایک حدیث میں یہ بیان کیا گیاہے کہ ذاتی منفعت کے حصول کیلئے اپنے شریکِ معاملہ کے ساتھ خیانت کا رویہ اپنانے والے اور اس کے اعتماد کو ٹھیس پہنچانے والے اللہ ربّ العزت کی نصرت و عنایت سے محروم ہوجاتے ہیں ۔
 حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے: ’’اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب تک کسی کاروبار کے دو شریک باہم خیانت کے مرتکب نہ ہوں، میں ان کے ساتھ رہتا ہوں،لیکن جب ایک شریک دوسرے کے ساتھ خیانت کرتا ہے تو میں بیچ سے نکل جاتا ہوں [ایک دوسری روایت کے مطابق ’’اور پھر شیطان آجاتا ہے]۔‘‘(سنن ابی داؤد، کتاب البیوع)
خیانت کا تدارک: رہا یہ مسئلہ کہ یہ اندرونی بیماری کیسے دُور ہوگی؟اس باطنی مرض سے نجات و حفاظت کیلئے ہمارے لئے کون سا نسخہ مفید یاکارگر ثابت ہوگا ؟ اس کا سیدھا سا جواب یہ ہے کہ خیانت کا تعلق،جیسا کہ واضح ہو گیا، انسان کے اندرون سے ہے، یعنی یہ ایک چھپی ہوئی بیماری ہے۔ اس لئے اللہ رب العزت کے عالم الغیب اور والشہادۃ ہونے میں یقین کو تازہ بہ تازہ رکھنا ا و ر اسے مستحکم بنانا اور ہمیشہ اس حقیقت کا استحضار بہت مفید و مؤثر ہو گا کہ اللہ تعالیٰ ظاہر و باطن ہر بات ،کھلے و چھپے ہر قول و فعل سے باخبر رہتا ہے۔ مولانا سید سلیمان ندویؒ کا تجویز کردہ ہے، انہی کے الفاظ میں ملا حظہ فرمائیں: ’’خیانت صرف دل ہی سے نہیں ہوتی ہے،بلکہ ایک ایک عضو سے ہو سکتی ہے،یہاں تک کہ چشم و ابرو کے اشاروں سے ہو سکتی ہے،لیکن اگر یہ یقین ہو کہ ایک ذات ہے جو چوری چھپے کی ہرحرکت سے ہر وقت با خبر رہتی ہے تو پھر انسان کو کسی قسم کی خیانت کاری کی جرأت نہ ہو۔اسلام اسی یقین کو پیدا کرکے خیانتوں کا خاتمہ کرتا ہے، فرمایا: ’’اللہ جانتا ہے آنکھوں کی خیانت کاری کو اور جو چھپا ہوا سینوں میں ہے۔‘‘ (المومن:۱۹) (سیرۃ النبیؐ،ج۶، ص ۳۹۸)  اللہ رب العزت سے یہی دعا ہے کہ وہ خیانت جیسی مہلک بیماری سے ہم سب کو محفوظ رکھے اور ہمیں نیکیوں کی راہ پر چلنے کی توفیق عنایت فرمائے۔آمین ثم آمین! (بحوالہ: ماہنامہ ترجمان القرآن) 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK