Inquilab Logo

بنیادی اور ثانوی تعلیم کا منظرنامہ

Updated: March 19, 2023, 10:42 AM IST | Faizan Mustafa | Mumbai

دو روز قبل ایک معاصر انگریزی اخبار نے گجرات کے وزیر تعلیم کُبیر دندور کے اسمبلی میں دیئے گئے بیان کو نقل کیا ہے۔

education
تعلیم

دو روز قبل ایک معاصر انگریزی اخبار نے گجرات کے وزیر تعلیم کُبیر دندور کے اسمبلی میں دیئے گئے بیان کو نقل کیا ہے۔ وزیر موصوف نے اس بیان کے ذریعہ اطلاع دی کہ احمد آباد میں ۲۰۸۲؍ اساتذہ کی اسامیاں خالی ہیں جبکہ گاندھی نگر میں ۳۷۴؍ اسامیاں۔ کُبیر نے اسامیوں کے خالی ہونے کا سبب یہ بتایا کہ بعض اساتذہ کا تبادلہ ہوا ہے اور کچھ کی سبکدوشی۔ ہم نے اس سلسلے کی مزید خبروں تک رسائی کی کوشش کی تاکہ یہ معلوم کیا جاسکے کہ یہ اسامیاں کب سے خالی ہیں اور عموماً کسی اسامی کے پُر کئے جانے میں کتنا وقت لگتا ہے۔ مگر کامیابی نہیں مل سکی۔ اس سوال کا جواب چاہے جو ہو، اسامیوں کے خالی ہونے کا مطلب یہ ہے کہ تدریسی عمل یا تو رُکا ہوا ہے یا جیسے تیسے پورا کیا جارہا ہے۔کیا یہ  صورت حال ایک ایسی ریاست کے شایان شان ہے جسے ڈیولپمنٹ کے عظیم الشان ماڈل کے طور پر پیش کیا گیا تھا اور اب بھی ایسا کرنے میں کوئی تردد نہیں کیا جاتا؟
 بات صرف گجرات کی نہیں ہے۔ ملک کی دیگر ریاستوں میں بھی اساتذہ کی قلت اور کمی طلبہ کی پڑھائی پر اثرانداز ہوتی ہے۔ چونکہ ہم نے پاس یا فیل کو معیار بنالیا ہے، طلبہ کی اہلیت کو معیار نہیں بنایا اس لئے طلبہ پڑھیں نہ پڑھیں، ایک خاص اہلیت کے حامل ہوپائیں یا نہ ہوپائیں، پاس ہوجانا کافی سمجھا جاتا ہے اس لئے کبھی اساتذہ کی غیر حاضری یا کمی موضوع بحث نہیں بنتی اور تعلیم کی گاڑی گھسٹتے ہوئے چلتی رہتی ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارہ یونیسکو کا کہنا ہے کہ پورے ملک میں ۱۱؍ لاکھ ۱۶؍ ہزار ۸۴۶؍ اسامیاں خالی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایسے اسکولوں کی تعداد بھی کافی ہے جو صرف ایک معلم یا معلمہ کے دم خم پر جاری ہیں۔ یونیسکو ہی کے مطابق ایسے اسکولوں کی تعداد ایک لاکھ گیارہ ہزار ہے۔ جب یہ صورت حال ہو تو کس برتے پر ہم یہ توقع کرتے ہیں کہ سب کو تعلیم مل سکے گی، اعلیٰ تعلیم کے مراکز قابل رشک طلبہ پیدا کریں گے، ترقیاتی راہوں پر ہماری پیش قدمی سے دُنیا حیران رہ جائے گی اور ہم ’’وشو گرو‘‘ کہلائیں گے؟ 
 اس میں شک نہیں کہ حکومت نے نئی تعلیمی پالیسی جاری کردی ہے۔ اس میں بھی شک نہیں کہ اپنے نقائص کے باوجود اِس پالیسی کے جو فوائد نظام تعلیم کو حاصل ہونے ہیں وہ ہوں گے مگر کس بنیاد پر اُمید کی جائے کہ سب کچھ ویسا ہی ہوگا جیسا کہ کاغذ پر دکھائی دے رہا ہے؟ اگر پرانی پالیسی کے تحت جاری نظام ہی میں اساتذہ کی ۱۱؍ لاکھ اسامیاں خالی ہوں تو کون اس بات کی ضمانت دے گا کہ نئی پالیسی کے تحت ایسا نہیں ہوگا؟ ارباب حکومت کو اس سوال کا جواب دینا چاہئے مگر اُمید نہیں کہ جواب ملے گا کیونکہ ملک کے سیاسی حالات اس حد تک خراب ہیں کہ ہر جگہ سوال ہی سوال ہیں اور جواب کہیں نہیں ہے۔
 جن اسکولوں کی بات ہورہی ہے وہ بنیادی اور ثانوی مدارس ہیں۔ اعلیٰ تعلیمی اداروں کی کیفیت کا اندازہ کرنا مشکل ہے مگر یہ بات تو بہرحال کہی جاسکتی ہے کہ اعلیٰ اور پیشہ جاتی تعلیمی ادارے حکومت کی توجہ کا مرکز ہیں مگر بنیادی اور ثانوی ادارے نہیں۔ جب بنیاد کمزورہو تو پختہ عمارت کو یقینی کیسے بنایا جاسکتا ہے۔ ہمارے ملک میں بھی بنیادی تعلیم پر توجہ نہیں ہے۔ کہیں انفرا نہیں ہے تو کہیں اساتذہ نہیں۔ کھیل کے میدان اور سائنسی تجربہ گاہ کا سوال تو بعد میں آتا ہے۔ سب سے اہم ہے اساتذہ۔ جب اساتذہ نہ ہوں تو بنیادی تعلیم ناپختہ ہی رہے گی۔ جیسے تیسے پاس ہونے والے طلبہ اعلیٰ تعلیم گاہ میں کیا گل کھلا سکتے ہیں؟n

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK