Inquilab Logo

معاشرتی بقا اَور استحکام کیلئے اخلاقی اقدار کو فروغ دیجئے

Updated: May 26, 2023, 11:23 AM IST | Allama Ibtisam Elahi Zaheer | Mumbai

گھریلو ناچاقی، معاشی ، معاشرتی و نفسیاتی پیچیدگیاں اور صبروبرداشت کی کمی وغیرہ سے معاشرے میں مسائل پیدا ہوتے ہیں ۔ لیکن جب ہم قرآن پاک کی تعلیمات اور سیرت ِ نبویؐ کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں بہت سی ایسی باتیں ملتی ہیں جن سے انسان کشیدگی اور تنازعات پر قابو پانے کے قابل ہو سکتا ہے

A society whose foundation is based on the Book of Vasant, peace, tranquility and goodwill are always promoted in this society.
ایک ایسا معاشرہ جس کی بنیاد کتاب وسنت ہو، اس معاشرے میں ہمیشہ امن و سکون اور خیرخواہی کو فروغ حاصل ہوتا ہے

ہمارے معاشرے کے لوگ بڑی تعداد میں احساسِ محرومی اور نفسیاتی دباؤ کا شکار ہیں۔ اس نفسیاتی دباؤ اور احساسِ محرومی کی وجہ سے مختلف مقامات پر چھوٹی چھوٹی باتوں پر تنازعات دیکھنے کو ملتے ہیں۔ بہت سے لوگ معاشی ناہمواریوں کی وجہ سے بھی غصے اور اضطراب کا شکار ہو کر ایسے رویوں کا اظہار کرتے ہیں جو کسی بھی طور پر مناسب نہیں ہوتے۔ اسی طرح بہت سے لوگ گھریلو ناچاقیوں کی وجہ سے اُداس اور مضطرب رہتے ہیں جس کی وجہ سے معاشرے میں غم وغصہ، نفرت اور کشیدگی کی انتہا نظر آتی ہے۔ مذہبی اور سیاسی اعتبار سے بھی عدم برداشت پائی جاتی ہے اور لوگ اپنے نظریات نہ ماننے والوں کو اپنا دشمن خیال کرتے ہیں حالانکہ معاشرے کی صحت کے لئے بقائے باہمی کو فروغ دینا انتہائی ضروری ہے۔ جب ہم کتاب وسنت کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں بہت سی ایسی باتیں ملتی ہیں جس سے انسان کشیدگی اور تنازعات پر قابو پانے کے قابل ہو سکتا ہے۔
اللہ تبارک وتعالیٰ کی کتاب کے مطالعے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اللہ کے نزدیک پسندیدہ دین فقط اسلام ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورۂ آلِ عمران کی آیت نمبر ۱۹؍میں ارشاد فرماتے ہیں: ’’بے شک اللہ تعالیٰ کے نزدیک دین اسلام ہی ہے۔‘‘ اسی طرح سورۂ مائدہ کی آیت نمبر۳؍ میں فرماتے ہیں: ’’آج میں نے تمہارے لئے تمہارا دین مکمل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور تمہارے لئے اسلام کو (بطور) دین (یعنی مکمل نظامِ حیات کی حیثیت سے) پسند کر لیا۔  ‘‘ اس آیت مبارکہ سے یہ سمجھنا کچھ مشکل نہیں کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے بطور دین اسلام کو منتخب کیا ہے اس کے باوجود کلامِ حمید سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ دین میں جبر کا حکم نہیں دیتے۔ سورہ بقرہ کی آیت نمبر ۲۵۶؍ میں ارشاد ہوا:’’دین کے بارے میں کوئی زبردستی نہیں۔‘‘
جب ہم تاریخ انبیاء کرام علیہم السلام کا مطالعہ کرتے ہیں تو یہ بات بھی سمجھ میں آتی ہے کہ انبیاء کرام علیہم السلام نے دعوتِ دین کے دوران آنے والی تکالیف کو بڑی خندہ پیشانی اور بردباری کے ساتھ برداشت کیا۔ حضرت نوح علیہ السلام کی تکذیب کی گئی اور آپ کو اذیتوں کو نشانہ بنایا گیا، (نعوذ باللہ ) دیوانہ اور مجنوں کہا گیا اس کے باوجود آپ علیہ السلام کوہِ استقامت بن کر دین کی دعوت دیتے رہے۔ اسی طرح سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے بڑی صعوبتوں اور تلخیوں کامقابلہ کیا، آپؑ کو جلتی ہوئی آگ میں اُتارا گیا، آپؑ نے دین کے لئے اپنی آبائی سرزمین سے ہجرت کی، اپنی بیوی اور شیرخوار بیٹے کو وادیٔ بے آب وگیاہ میں چھوڑ دیا لیکن دین پر کسی قسم کا سمجھوتا نہیں کیا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بھی بڑی خندہ پیشانی سے اللہ تبارک وتعالیٰ کے دین کے راستے میں آنے والی صعوبتوں کا مقابلہ کیا۔ فرعون، قارون، ہامان اور شداد کے سامنے دعوتِ توحید کو پوری استقامت کے ساتھ پیش کرتے  رہے۔ نبی کریم ﷺکو بھی دعوت دین کے دوران بہت سی ابتلاؤں کا نشانہ بننا پڑا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ احقاف کی آیت نمبر ۳۵؍میں ارشاد فرمایا: ’’پس (اے پیغمبر ﷺ)تم ایسا صبر کرو جیسا عالی ہمت رسولوں نے صبر کیا۔‘‘
نبی کریمﷺ نے اس انداز میں صبر کیا کہ جس کی مثال تاریخ انسانیت میں نہیں ملتی۔ آپؐ خندہ پیشانی کیساتھ دعوتِ دین کے راستے میں آنیوالی تمام ابتلاؤ ـں کو برداشت کرتے رہے، آپﷺ کے راستے میں کانٹے بچھائے گئے،  حالت ِ نماز میں آپؐ کے وجود پر بوجھ ڈالا گیا، گردن مبارک میں چادر کو ڈال کر کھینچا گیا، طائف کی وادی میں آپﷺ پر اذیتوں اور مشکلات کے پہاڑ توڑے گئے۔
آپﷺ پر کفار نے مختلف جنگوں کو مسلط کیا لیکن نبی کریمؐ  ان جنگوں میں اللہ تبارک وتعالیٰ کی تائید اور نصرت سے برسرپیکار اور ثابت قدم رہے یہاں تک کہ فتح مکہ کے موقع پر اللہ تبارک وتعالیٰ نے پورے جزیرۃ العرب پر آپؐ کو غالب فرما دیا۔ اس موقع پر بہت سے لوگ آپؐ  کے پاس مجبوری، بے بسی اور بے کسی کی حالت میں پیش کئے گئے لیکن آپﷺ نے تمام لوگوں کو معاف فرما دیا اور اس موقع پر وہی الفاظ کہے جو حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنے بھائیوں کے حوالے سے کہے تھے؛ یعنی آج کے دن تم پر کوئی مواخذہ نہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ آپﷺ نے انہیں معاف کر دیا۔
نبی کریمﷺ نے ہمیشہ لوگوں کے ساتھ بردباری والا معاملہ کیا اور بڑوں کی تعظیم اور چھوٹوں سے پیار کی تلقین کی۔ اس حوالے سے مسند احمدکی ایک اہم حدیث درج ذیل ہے: سیدنا عبادہ بن صامتؓ سے مروی ہے کہ نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا: وہ آدمی میری اُمت میں سے نہیں ہے جو ہمارے بڑوں کی تعظیم نہیں کرتا، چھوٹوں پر رحم نہیں کرتا اور ہمارے اہلِ علم کا حق نہیں پہچانتا۔‘‘
نبی کریمﷺ نے جہاں بڑوں کے حوالے سے تعظیم اور چھوٹوں کے لیے شفقت کے احکامات جاری فرمائے وہیں آپﷺ نے اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ حسن سلوک کی تلقین کی اور فرمایا کہ تم میں سے بہتر وہ ہے جو اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ بہترین سلوک کرتا ہو۔
اسی طرح جب ہم کلام اللہ کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے کسی کی تحقیر سے مکمل طور پر منع کیا ہے۔ اس حوالے سے سورۂ حجرات میں بیان کردہ مضامین خصوصی توجہ کے حامل ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورۂ حجرات کی آیت نمبر۱۱؍میں ارشاد فرماتے ہیں: ’’اے ایمان والو! مرد دوسرے مردوں کا مذاق نہ اُڑائیں ممکن ہے کہ یہ ان سے بہترہوں اور نہ عورتیں عورتوں کا مذاق اُڑائیں ممکن ہے کہ یہ ان سے بہتر ہوں۔ اور آپس میں ایک دوسرے کے عیب نہ لگاؤ (ڈھونڈو) اور نہ کسی کو برے لقب دو‘ ایمان کے بعدفسق برا نام ہے۔ اور جو توبہ نہ کریں وہی لوگ ظالم ہیں۔‘‘
اس کے ساتھ ساتھ معاشرے میں خیر خواہی کے فروغ کے لئے غیبت کی بھرپور انداز میں مذمت کی گئی ہے اور حسد اور بغض سے بھی روکا گیا ہے۔ اگر ہم معاشرے میں ایک دوسرے کی قدر اور احترام کریں اور رواداری کے ساتھ معاملات کو حل کریں تو یقیناً معاشرہ امن وسکون کا گہوارا بن سکتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں بغض اور عناد کی بہت بڑی وجہ شخصیت پرستی، ہٹ دھرمی اور ضد ہے جس کی بہت سی وجوہات ہیں لیکن اس وقت معاشرے کو شعور، آگہی اور حکمت عملی کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔ ہمارے معاشرے میں جو لوگ ان چیزوں کو نظر اندازکرتے ہیں وہ درحقیقت کتاب وسنت کی تعلیمات کو نظر انداز کرتے ہیں۔ ایک ایسا معاشرہ جس کی بنیاد کتاب وسنت ہو، اس معاشرے میں ہمیشہ امن و سکون اور خیرخواہی کو فروغ حاصل ہوتا ہے، جبکہ اس کے مدمقابل کوئی بھی ایسا معاشرہ جس میں نفسا نفسی اور خود غرضی پورے عروج پر ہو اس معاشرے کو ہمیشہ خلفشار اور انتشار کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
 اللہ تعالیٰ ہمیں معاشرتی بقا اور استحکام کیلئے اعلیٰ اخلاقی اقدار کو فروغ دینے کی توفیق دے اور معاشرے کو حسد اور بغض سے محفوظ رکھے، آمین

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK