Inquilab Logo

ابتدائی دورِ اسلام میں آپؐ مسلمانوں کی ذہنی و فکری تربیت فرماتے تھے

Updated: February 14, 2020, 12:01 PM IST | Maulana Nadeem Al Wajidi

گزشتہ ۲؍ ہفتوں سے ان کالموں میں اسلام قبول کرنے والے سابقون الاوّلون کا تذکرہ جاری ہے۔ آج چند صحابہ کے قبول اسلام کے ساتھ اسلام کے اوّلین مرکز دارارقم کا بھی ذکر ہے جسے تاریخ اسلام میں غیرمعمولی حیثیت حاصل ہے

صفا کی ایک تنگ گلی میں دارارقم تھا۔ تصویر : آئی این این
صفا کی ایک تنگ گلی میں دارارقم تھا۔ تصویر : آئی این این

 حضرت عفیف کندیؓ کا قبول اسلام
ان کا ذکر ہم پہلے بھی کرچکے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا حضرت عباسؓ کے دوست تھے، عطر کی تجارت کیا کرتے تھے، یمن کی طرف آتے جاتے ہوئے مکہ مکرمہ میں اپنے دوست حضرت عباسؓ کے گھر میں قیام کیا کرتے تھے، ایسے ہی کسی موقع پر عفیف کندی مکہ مکرمہ میں تھے۔ اُس وقت سرورِ کائناتؐپر نزول وحی کا سلسلہ شروع ہوچکا تھا، مگر ابھی یہ بات صرف گھر کے چند افراد تک محدود تھی، ہوسکتا ہے قرابت داری کی وجہ سے حضرت عباسؓ کو بھی اپنے بھتیجے کے متعلق کچھ معلوم ہوا ہو، دونوں دوست صحن کعبہ کے قریب موجود تھے، عفیف کندی اس روز کا واقعہ بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ میں نے ایک شخص کو دیکھا، وہ آیا، پہلے اس نے اچھے طریقے پر وضو کیا، پھر نماز کے لئے کھڑا ہوگیا، اس کے بعد ایک خاتون آئی اس نے بھی پہلے وضو کیا، پھر نماز کے لئے کھڑی ہوگئی، پھر ایک لڑکا آیا اس نے بھی وضو کیا اور آپؐ کے برابر نماز کے لئے کھڑا ہوگیا۔ میں نے عباسؓ سے پوچھا یہ کون سا دین ہے؟ انہوں نے کہا کہ یہ میرے بھتیجے محمدؐ ہیں، جو یہ کہتے ہیں کہ اللہ نے ان کو رسولؐ بنا کر بھیجا ہے، یہ لڑکا بھی میرا بھتیجا علی ؓبن ابی طالب ہے، اور یہ خاتون محمدؐ کی بیوی ہیں، عفیف بعد میں مسلمان ہوگئے، کہا کرتے تھے کہ کاش میں چوتھا مسلمان ہوتا۔ (الاصابہ فی تمییز الصحابہ: ۲/۴۸۷)
حضرت ابوذر غفاریؓ کا قبول اسلام
حضرت ابوذر غفاریؓ کے قبول اسلام کا واقعہ حضرت عمرو بن عَبَسہْ کے واقعے سے ملتا جلتا ہے، جو لوگ بھی اسلام قبول کررہے تھے وہ نہایت مخفی طور پر قبول کررہے تھے، بسا اوقات گھر والوں تک کو اس کی خبر نہیں ہوتی تھی کہ ان کے بیٹے، بھائی یا شوہر وغیرہ نے کوئی نیا دین اختیار کیا ہے اور وہ اب بتوں کی پوجا چھوڑ کر اللہ کی عبادت کررہے ہیں، جن لوگوں نے چھپ چھپاکر یہ نیا دین قبول کیا ان کی تعداد بھی پچاس سے متجاوز تھی۔  آہستہ آہستہ یہ بات پھیلنے لگی کہ محمدؐ نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے، جب یہ خبر مکہ مکرمہ میں پھیلی تو حرم محترم کی زیارت کے لئے  آنے جانے والوں کے ذریعے دوسری بستیوں تک بھی یہ خبر چلی گئی۔ حضرت ابوذرغفاریؓ کا اصل نام جندب بن جنادہ ہے، قبیلۂ غفار کے ایک فرد تھے، مکہ مکرمہ سے جب یہ خبر ان تک پہنچی کہ وہاں کسی شخص نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے تو انھوں نے اپنے بھائی انیس سے کہا کہ تم مکہ جاؤ اور وہاں جاکر میرے لئے معلومات اکٹھی کرکے لاؤ، میں نے سنا ہے کہ وہاں ایک شخص یہ کہتا ہے کہ میں اللہ کا نبی ہوں اور میرے پاس وحی آتی ہے، تم اس سے ملنا اور اس کی بات بھی سن کر آنا۔ بھائی کی ہدایت پر انیس مکہ گئے اور آپؐ سے مل کر واپس ہوئے۔ انہوں نے ابوذرؓ سے کہا کہ میںنے انہیں خیر کا حکم دیتے ہوئے اور شر سے منع کرتے ہوئے دیکھا ہے، وہ مکارم اخلاق کی تلقین کرتے ہیں، اور ایسا کلام سناتے ہیں جس کا شعر وشاعری سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ حضرت ابوذرؓ نے یہ باتیں سنیں مگر انہیں پوری طرح تشفی نہیں ہوئی، چنانچہ رخت ِ سفر باندھا اور عازم مکہ ہوئے، مکہ مکرمہ پہنچ کر انھوں نے حرم کعبہ کا رُخ کیا، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تلاش کرنے لگے، انھوں نے یہ مناسب نہیں سمجھا کہ آپؐ کے سلسلے میں کسی سے کچھ پوچھا جائے، پورا دن گزر گیا، رات آگئی، اتفاق سے حضرت علیؓ وہاں آگئے، دیکھا کہ ایک مسافر بیٹھا ہوا ہے، انھوں نے مسافر کو اپنے ساتھ آنے کا اشارہ کیا، ابوذرؓ ان کے پیچھے ہولئے، رات کو ان کے پاس رہے، مگر مقصدِ سفر سے متعلق انھوں نے حضرت علیؓ سے کوئی بات نہیں کی، صبح ہوئی تو پھر صحن حرم میں جاکر بیٹھ گئے، اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو تلاش کرنے لگے، اس دن بھی ناکام رہے، رات آئی تو پھر حضرت علیؓ وہاں موجود تھے، گزشتہ رات کی طرح یہ رات بھی ان کے ساتھ گزاری، آج بھی دونوں میں کوئی خاص بات نہیں ہوئی، تیسرے روز بھی ایسا ہی ہوا، رات ہوئی،حضرت علیؓ کے ساتھ آرام کے لئے چلے تو انہوں نے پوچھ ہی لیا کہ کیا آپ کسی خاص مقصد کے تحت یہاں آئے ہیں، اگر مناسب ہو تو مجھے بتلادیں۔ ابوذرؓ نے کہا: اگر تم مجھ سے یہ وعدہ کرو کہ میری رہنمائی کروگے تو میں تمہیں بتلاؤں گا، حضرت علیؓ نے وعدہ کیا تب ابوذرؓ نے انہیں بتلایا کہ میں نے سنا ہے کہ کسی نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے اور وہ یہ کہتا ہے کہ مجھ پر اللہ کی طرف سے وحی آتی ہے، کیا یہ بات سچ ہے؟ حضرت علیؓ نے جواب دیا، تم نے صحیح سنا ہے، محمدؐ اللہ کے رسول ہیں، اگر تمہیں ان سے ملنا ہے تو صبح کو میرے پیچھے پیچھے چلنا میں تمہاری ملاقات ان سے کرادوں گا۔ صبح ہوئی تو حضرت علیؓ نے وعدے کے مطابق ابوذرؓ کو وہاں تک پہنچا دیا جہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف رکھتے تھے، حضرت ابوذرؓ دربار رسالت میں حاضرہوئے، آپ کا کلام سنا اور اسی وقت مسلمان ہوگئے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ تم اپنی قوم کی طرف واپس چلے جاؤ، اور انہیں بھی اسلام کی دعوت دو، اور وہیں ٹھہرے رہو، جب تمہیں یہ خبر ملے کہ اسلام کی دعوت عام ہوچکی ہے تب میرے پاس چلے آنا، مگر حضرت ابوذرؓ نے عرض کیا کہ اللہ کی قسم! میں مشرکین کے سامنے چیخ چیخ کر یہ اعلان کروں گا کہ میں نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دین قبول کرلیا ہے، چنانچہ وہ صحن کعبہ میں آئے، وہاں اس وقت حسبِ معمول مشرکین کی بڑی تعداد موجود تھی، حضرت ابوذرؓ نے بلند آواز سے کہا، أشہد أن لا إلہ إلا اللّٰہ وأشہد أن محمدا رسول اللّٰہ۔ یہ سنتے ہی لوگ ان پر ٹوٹ پڑے، اور مار مار کر ان کو حال سے بے حال کردیا۔ حضرت عباسؓ ادھر سے گزرے، دیکھا کہ لوگ ایک اجنبی مسافر کو پیٹ پیٹ کر ہلاک کردینا چاہتے ہیں تو ان پر جھک گئے اور لوگوں سے کہنے لگے کہ شاید تم نہیں جانتے کہ یہ قبیلۂ غفار کا آدمی ہے، تم یمن آتے جاتے اُدھر سے ہوکر گزرتے ہو، اگر یہ شخص ہلاک ہوگیا تو تمہارے لئے  وہاں سے گزرنا آسان نہ ہوگا، اس وقت تو لوگ باز آگئے، اگلے دن پھر ابوذرؓ چیخ چیخ کر کلمۂ شہادت پڑھنے لگے، لوگوں نے ان کو پھر مارا، حضرت عباسؓ دوبارہ ان کو بچانے کے لئے  آگئے، اس واقعے کے بعد حضرت ابوذرؓ اپنے قبیلے کی طرف لوٹ آئے، (صحیح البخاری: ۵/۴۷، رقم الحدیث: ۳۸۶۱، صحیح مسلم: ۴/۱۹۲۳، رقم الحدیث:۲۴۷۴) حضرت ابوذرؓ نے واپس پہنچ کر اپنی والدہ کو دعوت دی، وہ بھی مسلمان ہوگئیں، بھائی انیس بھی مسلمان ہوگئے، دونوں بھائیوں کی محنت سے قبیلۂ غفار کے آدھے سے زیادہ لوگ مشرف بہ اسلام ہوگئے، (الاصابۃ فی تمییز الصحابہ: ۲/۶۲) امام ذہبیؒ فرماتے ہیں کہ وہ پانچویں آدمی تھے جنھوں نے اسلام قبول کیا۔ (سیر اعلام النبلاء:۳/۳۶۸)  حافظ ابن کثیرؒ فرماتے ہیں کہ اسلام قبول کرنے کے بعد وہ اپنے قبیلے میں جاکر مقیم ہوگئے، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ ہجرت فرمائی تو حضرت ابوذرؓ بھی وہاں پہنچ گئے ۔ ان سے بہت سی احادیث بھی روایت کی گئی ہیں۔ (البدایہ والنہایہ: ۱۰/۲۵۶)
الارقم بن ابی الارقم 
سابقین اولین میں سے سب کا ذکر نہیں کیا جاسکتا، جن حضرات صحابۂ کرامؓ کا ذکر کیا گیا ہے، محض اس لئے کیا گیا ہے تاکہ سیرت طیبہ کا مطالعہ کرنے والوں کے سامنے دعوت اسلامی کے ابتدائی دور کے کچھ احوال بھی آجائیں۔حضرت الارقم بن ابی الارقمؓ کا ذکر خیر اس لئے  ضروری ہے کہ حکومت اسلامی کے ابتدائی دور میں ان کا گھر رسولؐ اللہ اور مسلمان ہونے والے صحابۂ کرامؓ کے لئے  ایک پناہ گاہ کی حیثیت رکھتا تھا، اس گھر کا ذکر ہم بعد میں کریں گے، پہلے ہم مختصر طور پر حضرت الارقم بن ابی الارقم کا ذکر خیر کرتے ہیں۔
ان کا پورا نام الارقم بن ابی الارقم عبد مناف بن أسد المخزومی ہے، ابو عبد اللہ کنیت ہے، اسلام قبول کرنے والوں میں ان کا نمبر ساتواں ، بعض حضرات نے دسواں اور بعض نے بارہواں بھی کہا ہے۔ والدہ کا نام تماضر بنت حذیم السہمیہ تھا، ان کا گھر جبل صفا پر واقع تھا۔ حضرت ارقمؓ بھی ان لوگوں میں شامل ہیں جنھوں نے حضرت ابوبکرؓ کی دعوت پر لبیک کہتے ہوئے اسلام قبول کیا تھا، حضرت الارقمؓ کے اسلام لانے سے قبل مسلمانوں کے پاس کوئی ایسی جگہ نہیں تھی جہاں سب لوگ جمع ہوجاتے، یوں تو حضرت خدیجہؓ کا مکان بھی تھا، اور حضرت ابوبکرؓ کا گھر بھی تھا، اور بالکل ابتدا میں یہی گھر مرکزِ اسلام بھی تھا، حضرت ابوبکرؓ نے اس گھر میں ایک چھوٹی سی مسجد بنا لی تھی جہاں وہ کھلے بندوں نماز پڑھا کرتے تھے، اور قرآن کریم کی تلاوت بھی بلند آواز سے کیا کرتے تھے، قریشِ مکہ کو یہ بات پسند نہیں تھی، کئی مرتبہ جھگڑے کی نوبت بھی آئی، بالآخر حضرت ابوبکرؓ کو یہ سلسلہ ختم کرنا پڑا، چنانچہ حضرت ابوبکرؓ اور دوسرے صحابۂ کرامؓ کے گھر سب کی نگاہ میں تھے، ان گھروں میں آمد ورفت سے مشرکین کے کان کھڑے ہوسکتے تھے، کیوں کہ ابھی مصلحت کا تقاضا یہ تھا کہ دعوت کا کام خفیہ طور پر کیا جائے اور کسی دشمن کو اس کی بھنک نہ لگے۔ حضرت ارقمؓ کے قبول اسلام کے بعد مسلمانوں کو لوگوں کی نگاہوں سے چھپ کر جمع ہونے کے لئے  ایک محفوظ ٹھکانہ مل گیا، یہاں مسلمان جمع ہوتے اور نماز سیکھتے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز بھی ادا کرتے، نئے اسلام لانے والوں کو بھی اسی جگہ لایا جاتا، قرآن کریم کی جو آیات نازل ہوتیں ان کی تلاوت بھی اسی مکان میں ہوتی اور اسی جگہ ان آیات کو حفظ بھی کیا جاتا، اس سے پہلے مسلمان کسی پہاڑ کی کھوہ میں یا کسی پہاڑ کی چوٹی پر یا کسی ویران وسنسان جگہ جاکر نماز  پڑھا کرتے تھے۔
دار ارقم پہلا دارا لاسلام
 اس مکان کو تاریخ اسلام میں غیر معمولی شہرت حاصل ہوئی ہے، ویسے تو اسے دار ارقم کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، مگر بعض مؤرخین نے اسے دار الاسلام بھی لکھا ہے، کیوں کہ درحقیقت یہ وہ جگہ ہے جہاں تمام نو مسلموں کی ذہنی اور فکری تربیت کی جاتی تھی، اس سے پہلے تمام صحابۂ کرامؓ متفرق طور پر چھپ چھپاکر نماز پڑھا کرتے تھے، اس مکان میں مسلمانوں کو رسولؐ اللہ کے ساتھ زیادہ سے زیادہ وقت گزارنے کا اور ساتھ رہنے کا موقع ملا، ابتدائی چند سال اس حالت میں گزرے کہ مسلمانوں میں اجتماعیت کی کوئی شکل نظر نہ آتی تھی، ایک مرتبہ کچھ مسلمان کسی گھاٹی میں نماز پڑھ رہے تھے، کچھ مشرکین نے انہیں نماز پڑھتے ہوئے دیکھ لیا اور برا بھلا کہنے لگے، بات اتنی بڑھی کہ لڑائی کی نوبت آگئی۔ ان حالات میں رسولؐ اللہ نے دعوت کا کام پرسکون طریقے پر انجام دینے کیلئے  یہی مناسب سمجھا کہ کسی ایسی جگہ کا انتخاب کرلیا جائے جہاں سب لوگ جمع ہوکر نماز پڑھیں اور دین سیکھیں۔ حضرت ارقمؓ کا مکان اس کام کے لئے  نہایت موزوں تھا،  یہ کوہ صفا کی ایک تنگ گلی میں واقع تھا جہاں لوگوں کی آمد ورفت بہت کم تھی۔  رات کا اندھیرا پھیلتے ہی تمام مسلمان ایک ایک کرکے یہاں آجاتے اور رات بھر یہاں رہ کر صبح ہونے سے پہلے اپنے اپنے گھروں کو رخصت ہوجاتے، بعض وہ صحابہ جن کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا یا ان کا اسلام لوگوں پر آشکار ہوچکا تھا اور انہیں اپنے گھر والوں کی طرف سے ظلم وتشدد کا خطرہ تھا دن میں بھی یہیں رہا کرتے تھے، اس طرح یہ مکان مسلمانوں کی تربیت گاہ بھی تھا اور پناہ گاہ بھی، حضرت ارقمؓ نہایت کم عمر نوجوان تھے، کسی کو ان پر یہ شبہ نہیں ہوسکتا تھا کہ انھوں نے اسلام قبول کرلیا ہوگا یا اسلام قبول کرنے کے بعد انھوں نے اپنا مکان اشاعت اسلام کے لئے  وقف کردیا ہوگا، اس لئے  ایک عرصے تک اسلام کی دعوت کا کام پُرسکون طریقے پر اس مکان میں چلتا رہا۔  اس مکان میں مسلمانوں کی مدت قیام کتنی رہی اس کا صحیح اندازہ لگانا مشکل ہے، بعض نے ایک ماہ، بعض نے چھ ماہ اور بعض نے ایک سال لکھا ہے، البتہ اس پر سب کا اتفاق ہے کہ جب تک حضرت عمر بن الخطابؓ نے اسلام قبول نہیں کیا اس وقت تک مسلمان اسی مکان میں جمع ہوا کرتے تھے، اور یہ اجتماع قریش مکہ سے چھپ کر ہوا کرتا تھا۔ (طبقات ابن سعد: ۳/۲۶۳، اسد الغابہ: ۱/۹۰، تاریخ الطبری: ۳/۲۳۰، سیرۃ ابن ہشام: ۱/۲۷۵، البدایہ والنہایہ: ۳/۳۷)۔  (جاری

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK