Inquilab Logo

رسولؐ اللہ ہرموسمِ حج میں اسلام کی اشاعت اورتبلیغ کیلئےپہلےسےزیادہ متحرک ہوجاتے

Updated: November 20, 2020, 11:56 AM IST | Maolana Nadeem ul Wajidi

سیرت نبی ٔ کریم ؐ کی اس خصوصی سیریز میں معراج کے اسرار و حکم کا تذکرہ جاری ہے۔ آج ملاحظہ کیجئے واقعہ ٔ معراج کے معارف و فوائد۔ معراج کے سفر میں پیش آنے والا ہر واقعہ ، آپؐ کی حیات ِ طیبہ میں پیش آنے والے واقعات کی کس طرح جھلک پیش کرتا ہے۔ یہ بھی پڑھئے کہ مکہ مکرمہ کیلئے موسم حج کی بڑی اہمیت تھی، دور دور سے لوگ حج کا فریضہ ادا کرنے کے لئے آیا کرتے تھے، ایسے میں آپؐ کس طرح تبلیغ کا فریضہ انجام دیتے

Makkah Sharif
نبی کریمؐ کا معمول تھا کہ آپؐ حج کے موقع پر مکہ مکرمہ پہنچنے والے قبائل اور وفود سے ملاقات کرتے اور دین کی دعوت دیتے

 واقعۂ معراج میں علماء نے کچھ اور معارف و فوائد بھی ڈھونڈ ڈھونڈ کر نکالے ہیں، ان میں سے بعض یہاں لکھے جاتے ہیں۔ 
 lاس واقعے میں یہ بھی ہے کہ بیت المقدس پہنچ کر براق کو ایک حلقۂ زنجیر سے باندھ دیا گیا، اس سے پتہ چلتا ہے کہ معاملات میں احتیاط کا پہلو اختیار کرنا صحیح ہے اور ظاہری اسباب سے کام لینا توکل کے خلاف نہیں ہے، مگر اصل اعتماد حق تعالیٰ پر ہونا چاہئے۔
 lآسمان کے دروازے پر جب وہاں متعین فرشتوں نے یہ پوچھا کہ کون ہے تو حضرت جبریلؑ نے جواب میں اپنا نام بتلایا کہ میں جبریلؑ ہوں، یہ نہیں کہا کہ میںہوں۔ اس سے معلوم ہوا کہ ایسے موقعوں پر ادب کا تقاضا یہ ہے کہ اپنا نام بتلانا چاہئے محض ’’میں‘‘ کہنے سے بعض اوقات آنے والے کی شناخت نہیں ہوتی۔ 
 lاس سے یہ بھی ثابت ہوتاہے کہ کسی کے گھر میں خواہ وہ مردانہ ہو، بلا اجازت داخل ہونا صحیح نہیں ہے۔
 lواقعہ ٔ معراج میں یہ بھی ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام دائیں جانب کی روحوںکو دیکھ کر تبسم فرماتے اور خوش ہوتے تھے اور بائیں طرف کی ارواحِ خبیثہ کو دیکھ کر روتے تھے اور غم زدہ ہوجاتے تھے، اس سے اولاد کے تئیں والد کی شفقت اور محبت ثابت ہوتی ہے کہ وہ اپنے بچوں کی خوش حالی اور نیکی دیکھ کر مسرور ہوتا ہے اور بدحالی دیکھ کر مغموم۔
 lحضرت موسیٰ علیہ السلام یہ کہہ کر رونے لگے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کی تعداد میری امت سے بڑھ جائے گی اور ان کی امت کے لوگ میری امت کے لوگوں کے مقابلے میں زیادہ جنت میں جائیں گے۔ یہ رونا بہ طور غبطہ تھا، نہ کہ بوجہ حسد۔ غبطہ امر خیر میں محمود اور پسندیدہ ہے۔ غبطہ کا مطلب یہ ہے کہ انسان دوسرے کی نعمت دیکھ کر یہ تمنا کرے کہ کاش میرے پاس بھی یہ نعمت ہوتی، اس کے پاس سے زوالِ نعمت کی تمنا نہ کرے کیوںکہ یہ حسد ہے اور کسی سے حسد کرناحرام ہے۔
 lبراق کی رکاب حضرت جبریل علیہ السلام نے پکڑی اور لگام حضرت میکائیل علیہ السلام نے تھامی، اس سے ثابت ہوا کہ اگر کوئی شخص اپنی سواری پر بیٹھنے کے لئے یا بیٹھنے کے بعد اپنے خدام سے یا اپنے چھوٹوں سے کوئی خدمت لے یاکوئی دوسرابہ طور اکرام ایسا کرے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے، ہاں بہ طور کبر ایسا نہ ہونا چاہئے۔
 lسفر کے دوران آپ بہت سے مقامات سے گزرے، کئی جگہ آپ ٹھہرے اور آپؐ نے وہاں نماز پڑھی، یہ متبرک مقامات تھے، اس سے ثابت ہوتا ہے کہ متبرک مقامات میں حصولِ برکت و فضیلت کی نیت سے نماز پڑھنا موجبِ نجات ہے، شرط یہ ہے کہ اس طرح کی کسی جگہ کا تعلق کسی مخلوق کی بندگی سے نہ ہو اور نہ اس نماز کے ذریعے غیراللہ سے حاجت روائی مقصود ہو۔
  lراستے میں حضرت ابراہیم، حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے آپؐ  کو سلام پیش کیا۔ اس سے معلوم ہوا ہے کہ اگر کوئی شخص سواری پر بیٹھا ہوا ہو اور اس کی نظر پیدل چلنے والے پر یا بیٹھنے والے پر نہ پڑی ہو تو افضل یہ ہے کہ پیدل چلنے والا یا بیٹھنے والا خود ہی سلام کرلے۔
 lرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ بعض اعمال پر سزا اور بعض پر جزا دی جارہی ہے، اس سے ثابت ہوا کہ خیر کے اعمال کرنے چاہئیں اور شر کے اعمال سے اجتناب کرنا چاہئے، کیوںکہ قیامت کے دن ہر شخص کو اس کے اعمال کے مطابق بدلہ دیا جائے گا۔
 lمسجد اقصیٰ میں داخل ہونے کے بعد آپؐ نے نماز پڑھی، حالاںکہ آپؐ مکہ میں نماز عشاء پڑھ چکے تھے اور فجر واپس مکہ پہنچ کر پڑھی تھی۔ معلوم ہوا کہ یہ فرض نماز نہیں تھی بلکہ نفل نماز تھی۔ اس سے تحیۃ المسجد کا مسنون ہونا ثابت ہوا۔
 l بیت المقدس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ملائکہ اور انبیاء کا امام بنایا گیا۔ اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ حاضرین میں جو سب سے افضل ہو اس کو امام بنانا چاہئے۔ نماز کے بعد تمام انبیاء کرام نے آپؐ کے مناقب و فضائل بیان کئے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ بزرگوں کے مناقب ان کے سامنے بیان کئے جاسکتے ہیں۔ 
 lتمام انبیاء علیہم السلام نے بیت المقدس میں اپنے فضائل کا خطبہ پڑھا۔ اس سے ثابت ہوا کہ تحدیثِ نعمت کے طور پر اپنے فضائل و کمالات بھی بیان کئے جاسکتے ہیں۔
 lرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کئی طرح کے مشروب پیش کئے گئے، اس سے پتہ چلتاہے کہ کھانے پینے کی چیزوں میں فراخی کرنا خصوصاً مہمانوں کے لئے کھانے میں تنوع کرنا جائز ہے۔
 lاگر مشروبات پیش کرنے کا مقصد امتحان لینا تھا یعنی یہ دیکھنا تھا کہ آپ کون سا مشروب پیتے ہیں تو اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ دین میں امتحان لینا جائز ہے۔
 lجب حضور اکرم ؐ  آسمانوں پر تشریف لے گئے تو فرشتوں نے آپ کو مرحبا کہا، اس کا مطلب یہ ہوا کہ مہمان کی آمد پر اظہارِ خوشی اور بیان انبساط کے لئے اس طرح کے کلمات کہنے چاہئیں۔
 lآپ ﷺ نے بہ وقت ملاقات حضرات انبیاء علیہم السلام کو سلام کیا، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کھڑا ہوا شخص یا چلنے والا شخص بیٹھے ہوئے شخص کو سلام کر ے اگرچہ وہ درجے میں ان سے افضل ہی کیوںنہ ہو جن کو سلام کیا گیا ہے۔
 lمعراج کے واقعات میں یہ بھی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسرے انبیاء علیہم السلام کے فضائل و مناقب بیان فرمائے، پھر ان کے حوالے سے اپنے لئے دعا فرمائی۔ اس سے معلوم ہوا کہ بزرگوں کی نسبت کے حوالے سے دعا کی جاسکتی ہے اور یہ بھی معلوم ہوا کہ انسان کتنا ہی مقرب اور برگزیدہ کیوں نہ ہو اسے رفع درجات اور حصولِ فضیلت کے لئے دعا مانگنی چاہئے۔
 lپچاس نمازوں کی فرضیت کے بعد واپسی پر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے تعداد میں تخفیف کی درخواست کرنے کا مشورہ دیا اور بار بار یہ تقاضہ کرتے رہے کہ اور تخفیف کرائیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ خیرخواہی کے طور پر ازخود مشورہ دینا جائز ہے، اگرچہ جس کو مشورہ دیا جائے وہ شخص مشورہ دینے والے سے افضل و اعلیٰ ہی کیوں نہ ہو۔
 lآپؐ نے حضرت موسیٰ ؑ کے مشورے پر نمازوں کی تعداد میں تخفیف کی درخواست کی اور نو بار یہ درخواست لے کر واپس گئے۔ اس سے معلوم ہوا کہ مشورہ ماننا پسندیدہ عمل ہے۔ 
 lحضرت ام ہانیؓ نے جو آپ ؐ کی پھوپھی ہیں یہ عرض کیا کہ آپ اس واقعے کا ذکر کسی سے نہ کریں۔ اس سے معلوم ہوا کہ اگر کسی حق بات کے اظہار سے فتنہ پھیلنے کا یا ضرر پہنچنے کا اندیشہ ہو تو اس کو ظاہر نہ کرنے کا مشورہ دینا درست ہے۔
lآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ مشورہ قبول نہیں فرمایا۔ اس سے معلوم ہوا کہ اگر مشورہ قبول کرنا خلافِ مصلحت ہو تو آدمی کو اپنی رائے پر عمل کرنا چاہئے۔ رہی بات فتنہ پھیلنے کی تو اگر وہ معاملہ دنیوی امور سے متعلق ہو تو اس کو ظاہر نہ کرنا ہی بہتر ہے، لیکن اگر دین سے تعلق رکھتا ہو تو پھر کسی بات کی پروا نہ کرنی چاہئے۔ (نشر الطیب فی ذکر النبی الحبیب، مؤلفہ حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی، ص:۷۶-۷۹)
قبائل عرب میں دعوتِ اسلام
 طائف کے سفر سے قبل آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول مبارک یہ تھا کہ حج کے ایام میں جو لوگ عرب کے مختلف قبیلوں سے وفود کی صورت میں مکہ مکرمہ آتے، آپ ان سے ان کے خیموں اور قیام گاہوں پر جا کر ملاقات کیا کرتے تھے اور ان کے سامنے اسلام کی دعوت پیش فرماتے تھے۔ یہ نبوت کے دسویں سال کا واقعہ ہے کہ آپؐ طائف تشریف لے گئے، وہاں کافی دنوں تک قیام فرمایا، طائف کے سرکردہ لوگوں سے ملاقات کی اور ان کو اسلام کی دعوت دی، لیکن انہوں نے انتہائی کبر و نخوت کے ساتھ آپؐ کی دعوت ٹھکرادی، آپؐ کو اذیت بھی پہنچائی، آپؐ کبیدہ خاطر ہو کر وہاں سے واپس ہوئے۔ ذی قعدہ شروع ہونے والا تھا، اس مہینے میں لوگ حج کے لئے آنا شروع ہوجاتے تھے اور ذی الحجہ کے آخر یا محرم الحرام کے ابتدائی ایام تک مکہ مکرمہ میں قیام کیا کرتے تھے، اس لئے آپؐ نے طائف کا سفر مختصر کرکے مکہ مکرمہ کی راہ لی، اس کی تفصیل گزشتہ کالموں  میں گزر چکی ہے۔
 مکہ مکرمہ کے لئے موسم حج کی بڑی اہمیت تھی، یہ ایک روحانی سفر ہوتا تھا مگر اس میں تجارتی اور ثقافتی سرگرمیاں بھی اپنے شباب پر ہوتی تھیں، قریش مکہ بھی حج کے انتظام میں سرگرم ہوجاتے، دور دور سے لوگ حج کا فریضہ ادا کرنے کے لئے آیا کرتے تھے، خانہ کعبہ کے اطراف میں خالی جگہوں پر ان کے خیمے کھڑے ہوجاتے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر موسم حج میں اسلام کی اشاعت اور تبلیغ کے لئے پہلے سے زیادہ متحرک ہوجاتے۔ قبائل عرب کے وفود سے ملاقات سے قبل ان کے متعلق معلومات حاصل کی جاتیں، پھر ان معلومات کی روشنی میںحجاج سے رابطہ قائم کیا جاتا اور ان تک اللہ کا پیغام پہنچایا جاتا، معلومات حاصل کرنے کی ذمہ داری حضرت ابوبکر الصدیقؓ کی تھی، وہ ایک ایک خیمے کے پاس جا کر وفود کے سربراہان کے بارے میں پوچھتے، پھر یہ معلوم کرتے کہ آپؐ  لوگ کتنی تعداد میں یہاں ہیں، ان کے قبیلے کے متعلق بھی سوالات کرتے کہ آپ کا قبیلہ کتنا بڑا ہے، کس کا حلیف اور کس کا حریف ہے۔ یہ تمام معلومات رسولؐ اللہ کی خدمت میں پیش کی جاتیں، پھر آپؐ اس وفد کے سربراہ سے ملاقات فرماتے اور اسے اسلام کی دعوت دیتے۔ (الانساب للسمعانی ۱؍۳۶؍الطبرانی فی تاریخہ ۱؍۵۵۵، الکامل فی التاریخ ۲؍۹۳)
 ربیعہ ابن عباد اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ میں ایک نوجوان لڑکا تھا، اپنے والد کے ساتھ حج کے لئے گیا، منیٰ میں قیام کے دوران میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو عرب قبیلوں کی قیام گاہوں پر دیکھا کرتا تھا، آپؐ ان سے فرمایا کرتے تھے: اے فلاں قبیلے کے لوگو! میں تمہاری طرف اللہ کا رسول بنا کر بھیجا گیا ہوں، اللہ تمہیں یہ حکم دیتا ہے کہ تم اللہ کی عبادت کرو، اس کے ساتھ کسی کو شریک مت ٹھہرائو، جن معبودانِ باطلہ کی تم پرستش کرتے ہو ان سے کنارہ کش ہوجائو، مجھ پر ایمان لائو اور میری رسالت کی تصدیق کرو۔ راوی کہتے کہ آپ کے پیچھے پیچھے ایک سرخ چہرے والا بھینگا شخص پھرا کرتا تھا، اس کے سر پر دو چوٹیاں ہوتیں اور بدن پر عدنی عبا ہوا کرتی تھی، جب آپؐ اپنی بات کہہ کر فارغ ہوجاتے تو وہ شخص آگے بڑھ کر کہتا، اے لوگو! یہ شخص تمہیں لات و عزیٰ کی عبادت سے روکتا ہے، اس کی بات مت سنو اور نہ اس کا کہنا مانو۔  ایک دن میں نے اپنے والد سے پوچھا: ابا جان یہ کون ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے پیچھے پھرتا ہے اور اس طرح کی باتیں کرتا ہے؟ میرے والد نے جواب دیا یہ محمدؐ  کا چچا ابولہب ہے۔ (مسند احمد بن حنبل ۳؍۴۹۲، مستدرک حاکم، ۱؍۱۵)
ابولہب اور اس کے حواری صرف زبان سے ہی تکلیف نہیں پہنچاتے تھے بلکہ بعض اوقات جسمانی اذیت پہنچانے سے بھی دریغ نہیں کرتے تھے۔ مُدرِک بن مُنیب اپنے باپ سے اور وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے دورِ جاہلیت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: اے لوگو! لا الٰہ الا اللہ کہہ دو، فلاح یاب ہوجائوگے۔ سننے والوں میں سے بعض لوگ آپ کی طرف مٹی پھینکتے اور بعض برا بھلا کہتے۔ دوپہر کا وقت تھا، ایک لڑکی پانی سے بھرا ہوا ایک برتن لے کر آئی، اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دستِ مبارک اور چہرۂ مبارک کو دھویا۔ رسولؐ اللہ  نے فرمایا اے بیٹی! تجھے یہ خوف نہ ہونا چاہئے کہ کوئی تیرے باپ کو ذلیل کردے گا اور اس پر غالب آجائے گا۔ میں نے اپنے دادا سے پوچھا یہ لڑکی کون ہے؟ انہوں نے کہا کہ یہ رسول اللہ ﷺ کی بیٹی زینبؓ ہیں۔ اس وقت وہ نوعمر لڑکی تھیں۔ 

islam Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK