Inquilab Logo

وہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے! (۱)

Updated: April 03, 2024, 1:25 PM IST | Ali bin Umar Baddah | Mumbai

 سجدے کے بارے میں جب انسان غور کرتا ہے تو پوری کائنات اپنی تواضع، انکساری اور نیازمندی کے ساتھ اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ کے حضور سجدہ ریز نظر آتی ہے۔

Photo: INN
تصویر : آئی این این

 سجدے کے بارے میں جب انسان غور کرتا ہے تو پوری کائنات اپنی تواضع، انکساری اور نیازمندی کے ساتھ اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ کے حضور سجدہ ریز نظر آتی ہے۔ اس کی ہیئت اور اس کی خود سپردگی اللہ کے حکم کے مواقف ہے اور اس میں اللہ کا حکم جاری و ساری ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
 ’’کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ اللہ کے آگے سربسجود ہیں وہ سب جو آسمانوں میں ہیں اور جو زمین میں ہیں، سورج اور چاند اور تارے اور پہاڑ اور درخت اور جانور اور بہت سے انسان اور بہت سے وہ لوگ بھی جو عذاب کے مستحق ہو چکے ہیں ؟ ‘‘ (سورۂ الحج: ۱۸)
  پس غور کرو کہ پوری کائنات کی کوئی شئے اللہ تعالیٰ کے حضور سجدہ کرنےسے سرتابی کرنے والی نہیں ہے سوائے اس انسان کے کہ اس کی ایک نوع سجدے کرنے والی اور ایک سے انکار کرنے والی اور باقی کائنات سے ہٹ کر سجدہ کرنے سے سرتابی کرنے والی ہے۔ مگر وہ انسان جو اللہ کا نافرمان اور ناشکرا ہے، وہ پوری کائنات میں مختلف اور منفرد ہوتا ہے اور اس کی یہ انفرادیت اللہ تعالیٰ کی عبادت سے بُعد اور تکبر ہے۔ 
  لہٰذا بندے کو غور کرنا چاہئے کہ جب وہ اللہ تعالیٰ کے لئے سجدہ کرتا ہے تو وہ اللہ کی تسبیح و تحمید بیان کرنے والی اور اس کے آگے سجدہ ریز اس کائنات کا ایک جزو بن جاتا ہے۔ جیسا کہ اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ نے سورہ یٰسں ٓ میں فرمایا: ’’اور سورج، وہ اپنے ٹھکانے کی طرف چلا جا رہا ہے یہ زبردست علیم ہستی کا باندھا ہوا حساب ہے۔ ‘‘  (آیت: ۳۸) اس آیت کے معنی میں ابن کثیرؒ نے کہا ہے کہ غروب کے وقت اور اپنے ہر غروب میں آفتاب اللہ تعالیٰ کے عرش کے آگے سجدہ کرتا ہے۔ 
  بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ سجدہ کیسے ہوتا ہے؟ میں کہتا ہوں کہ وہ سجدہ زبان حال سے بھی ہے اور زبان قال سے بھی، یعنی علامتاً بھی اور فعلاً بھی۔ اور اس میں کوئی تعجب ہے نہ تحیر، کیونکہ جو سجدہ بھی اللہ تعالیٰ کو کیا جاتا ہے وہ اس کی ہیئت کو جانتا ہے، جب کہ ہم نہیں جانتے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد ہے : ’’اور تارے اور درخت سب سجدہ ریز ہیں۔ ‘‘ (سورہ الرحمٰن : ۶) اسی طرح اللہ تعالیٰ سرتابی کرنے اور نافرمانوں کو اپنی ہدایت کی طرف توجہ دلاتا ہے اور ان پر حجت قائم فرماتا ہے جیسا کہ باری تعالیٰ کا ارشاد ہے : ’’وہ تو اللہ ہی ہے جس کو زمین و آسمان کی ہر چیز طوعاً و کرہاً سجدہ کر رہی ہے اور سب چیزوں کے سائے صبح و شام اُس کے آگے جھکتے ہیں۔ ‘‘ (سورہ الرعد: ۱۵)
  اس آیت کے معنی یہ ہیں کہ اپنے اختیار سے سجدہ کرنے سے پہلوتہی کرنے والا شخص بھی اپنے سائے کے ساتھ اللہ کی قدرت کے سامنے اپنی خلقت اور اپنی جبلت کے تحت بے اختیار اللہ کی جناب میں سجدہ ریز ہوتا ہے۔ گویا پوری کی پوری کائنات اللہ کے آگے سجدہ ریز ہے۔ چنانچہ دانشمندی کا تقاضا یہی ہے کہ انسان بھی اپنے دل اور ہیئت کے ساتھ سجدہ کرنے والا ہو۔ 
  یہی وجہ ہے کہ ایک مسلمان جب سجدے کے بارے میں غور کرتا ہے تو وہ اسے ایک نعمت عظمیٰ پاتا ہے۔ اس پر مستزاد آیات ِ قرآنی، احادیث نبویؐ اور ارشادات اسلاف ہیں۔ سجدے کی یہی وہ اہمیت ہے جو اسے تدبر اور سنجیدگی سے غور و فکر کی دعوت دیتی ہے کہ وہ اس کی حقیقت کو پانے کی کوشش کرے، نیز اس کا ایمانی و قلبی فہم کتنا ضروری ہے اور اس کی ادائیگی پر عمل کرنے کا کیا حکم ہے ؟
  حضرت سعید بن جبیرؓ جب حضرت مسروقؓ سے ملے تو انہو ں نے ان سے کہا: ’’اے ابوسعید ! اپنے چہروں کو خاک آلود کرنے (سجدے) کے سوا کسی چیز سے ہمیں رغبت نہیں ہونی چاہئے۔ ‘‘ اس سے واضح ہوتا ہے کہ دنیا میں ان کی سب سے بڑی خواہش اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کے حضور میں سجدہ ریز ہونے، اور اگر ان کے ان کے لئے کوئی حلاوت و لذت تھی تو وہ اس کی جناب میں عاجزی و انکساری کے ساتھ اپنی جبینوں کو خاک آلود کرنے میں تھی۔ 
  حضرت مسروقؓ نے غایت دلچسپی کا اظہار کرتے ہوئے عرض کیا: ’’واقعتاً اللہ تعالیٰ کے حضور سجدہ ریز ہونے کے سوا کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس کی اس دنیا میں ذکر کی جائے۔ ‘‘ اسلاف امت کی یہ گفتگو واضح کرتی ہے کہ سجدہ کوئی معمولی عمل نہیں ہے۔ سجدہ محض انسانی اعضاء کی حرکت اور زبانی دہرائے جانے والے بے اثر کلمات کا نام نہیں ہے بلکہ یہ جسم و روح پر اثرانداز ہونے والے اس عمل کا نام ہے جس کی تکمیل حضوریٔ قلب، عجز و انکسار اور عقل و شعور کے گہرے ادراک و فہم کے ساتھ ہوتی ہے۔ لہٰذا سجدے کا مسئلہ بہت وسیع اور عمیق ہے اور ہمارے لئے اس کا بطریق احسن فہم ناگزیر ہے۔ 
  صحیح بخاری میں وارد ہے کہ نبی کریمؐ نے ارشاد فرمایا : ’’اس ذات کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے، ابن مریمؑ تمہارے درمیان حاکم عادل بن کر ضرور نازل ہوں گے، وہ صلیب کو توڑیں گے، خنزیر کو قتل کریں گے، جنگ کا خاتمہ کریں گے اور مال پانی کی طرح بہے گا حتیٰ کہ اسے کوئی قبول نہ کرے گا۔ (اس وقت) ایک سجدہ دنیا و مافیہا سے بہتر ہوگا۔ ‘‘ (کتاب احادیث الانبیاء)
  حافظ ابن حجرؓ نے اس حدیث سے متعلق فرمایا ہے: ’’مال کی کثرت، برکات کے نزول، خیرات کی بارش، عدل گستری اور ظلم کے فقدان کی وجہ سے ہوگی۔ اس وقت زمین اپنے خزانے اگل دے گی، لوگوں میں قرب قیامت کے احساس سے مال کے حصول کی رغبت گھٹ جائے گی۔ ‘‘یعنی لوگ اس وقت اللہ کا قرب عبادت کے ساتھ حاصل کریں گے نہ کہ مال کے صدقے کے ساتھ۔ اور کہا جاتا ہے کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ لوگ دنیا سے اپنی نظریں ہٹا لیں گے اور انہیں ایک سجدہ دنیا و مافیہا سے محبوب تر ہو گا۔ پھر قرطبیؒ کا قول نقل کیا ہے : ’’حدیث کا مطلب یہ ہے کہ اس وقت نماز صدقے سے افضل ہوگی، اس لئے کہ اس وقت مال کی کثرت ہوگی حتیٰ کہ اسے قبول کرنے والا کوئی نہ ہوگا۔ ‘‘ (فتح الباری ۶ / ۵۶۶) 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK