Inquilab Logo Happiest Places to Work

وہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے! (۳)

Updated: April 05, 2024, 2:17 PM IST | Ali bin Umar Baddah | Mumbai

غرور و سرکشی کی نفی: معنوی علامات کا دوسرا نکتہ یہ ہے کہ زمین کے ساتھ اتصال بندے کو اپنی ابتداء و انتہا یاد دلاتا ہے کیونکہ انسان اپنی جبین کو خاک آلود کرتا ہے تو اسے یاد آتا ہے کہ یہ اس کی پیدائش کی اصل خاک ہے اور وہ اسی خاک میں لوٹنے والا ہے۔

Photo: INN
تصویر : آئی این این

غرور و سرکشی کی نفی: معنوی علامات کا دوسرا نکتہ یہ ہے کہ زمین کے ساتھ اتصال بندے کو اپنی ابتداء و انتہا یاد دلاتا ہے کیونکہ انسان اپنی جبین کو خاک آلود کرتا ہے تو اسے یاد آتا ہے کہ یہ اس کی پیدائش کی اصل خاک ہے اور وہ اسی خاک میں لوٹنے والا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسے ابتداء ً مٹی سے پیدا فرمایا اور قیامت کے دن اسے جزا و سزا کے لئے اسی مٹی سے اٹھائے گا۔ یہ معنی بلیغ ترین صورت میں سجدے کی حالت میں اجاگر ہوتے ہیں۔ یہ کیفیت ایمان میں اضافے کا باعث بنتی ہے اور بندے کو آخرت اور اللہ تعالیٰ کے حضور کھڑا ہونے اور اپنے عاجز ہونے کی یاد دلاتی رہتی جس سے وہ اللہ تعالیٰ کے مقامِ قرب سے زیادہ قریب ہوجاتا ہے۔ خاک، جو بندے کی پیدائش کی اصل ہے، کے ذریعے تذکیر اس کے لئے تواضع اور انکساری کا باعث بنتی ہے۔ 
حقیقت دنیا سے آگہی: تیسرا نکتہ یہ کہ سجدہ اپنی ہیئت کے ساتھ دنیا اور اس کے فتنوں سے نظروں کو ہٹانے والا ہے۔ انسان جب سجدے میں ہوتا ہے تو اس کی نظر سجدے میں اس چھوٹے سے زمین کے ٹکڑے کی طرف ہوتی ہے۔ وہ اس کے سوا دنیا کی کسی چیز کو نہیں دیکھتا اور اس کا ذہن آخرت کے مقابلے میں دنیا کی مقدار کی طرف پھر جاتا ہےتو اسے نبی کریمؐ کے اس ارشاد کا مفہوم سمجھ میں آتا ہے: اگر اللہ کی نظر میں دنیا مچھر کے ایک پر کے برابر بھی ہوتی تو کسی کافر کو ایک گھونٹ پانی نہ دیتا۔ (سنن ترمذی)
 سجدے کی ہیئت انسان کو یہ شعور دلاتی ہے کہ دنیا وہ نہیں ہے جس طرح کہ وہ چاہتا ہے اور نہ اُس طرح ہی ہے جس طرح شیطان اسے مزین کر کے دکھاتا ہے کہ اس میں ایسا اور ایسا سامان زیست، عمدہ چیزیں، لذتیں اور مرغوبات ہیں جو اس بات کا مستحق ہیں کہ انسان ان کے اپنا وقت اور اپنی مساعی صرف کرے اور ان کی فکر میں گھلتا رہے۔ سجدہ اس زعم باطل کا ازالہ کر دیتا ہے اور جو کچھ اللہ تعالیٰ کے پاس اعلیٰ علیّین میں سے ہےمسلمان کو اس کے ساتھ مربوط کر دیتا ہے۔ نتیجتاً وہ دنیاپرستی کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور اس سے اپنی نظروں کو ہٹا لیتا ہے۔ جب بندۂ مومن اس حقیقت کو اپنے ذہن میں تازہ کرتا ہے تو وہ اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کے زیادہ قریب ہوجاتا ہے۔ 
یکسوئی: چوتھا نکتہ مسلمان کا سجدے کی حالت میں غیراللہ کی جانب سے عدم التفات ہے جب کہ نماز میں قیام کے دوران اس کی نظر دنیا کی کسی چیز، کسی شخصیت، کسی قابل ذکر فرد کی طرف پھر جاتی ہے اور اسی طرح رکوع میں بھی کوئی ایسی صورت پیش آجاتی ہے۔ لیکن سجدے میں وہ کوئی ایسی چیز نہیں پاتا اور نہ وہ دنیا ہی کی کسی چیز کو دیکھتا ہے۔ گویا ہر چیز کو اس نے ترک کردیا، ہر بشر سے بے نیاز ہوگیا، ہر نفع و نقصان کو تج دیا اور گردوپیش سے لاتعلق ہوکر اس کی توجہ صرف اللہ کی طرف مختص ہوکر رہ گئی۔ اس طرح وہ مکمل طور پر اللہ کی طرف یکسو ہو جاتا ہے۔ 
عاجزی و فقیری: پانچواں نکتہ یہ کہ سجدے میں انسانی جسم کے بڑے بڑے اعضاء شریک ہوتے ہیں۔ انسان جب وقف یا رکوع میں ہوتا ہے تو اپنے بعض اعضاء سے کام لیتا ہے لیکن جب وہ سجدہ میں ہوتا ہے تو اپنے دونوں ہاتھوں، دونوں پاؤں، دونوں گھٹنوں، ناک اور پیشانی کے ساتھ زمین پر ہوتا ہے۔ یہ سب کچھ اس بات کی دلیل ہے کہ وہ پورے کا پورا اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کے لئے ہے۔ 
  پس اس کی آنکھیں، اس کے ہاتھ، اس کے پاؤں اور اس کی ہر چیز اسے یاد دلاتی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کا عاجز اور فقیر بندہ ہے، لہٰذا مناسب نہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کو سجدہ کرے اور پھر آنکھوں اور ہاتھوں سے اللہ کی نافرمانی کرے یا قدموں کے ساتھ منکرات کی طرف چل کر جائے۔ یہ معنی ہیں سجدے کے، اس شخص کے لئے جو اسے سمجھنے کے لئے اس پر غور و فکر کرتا ہے اور یہ کہ وہ اللہ تعالیٰ کی بندگی و فرمانبرداری کا زیادہ سے زیادہ حریص ہو اور اس کی نارمانی سے زیادہ سے زیادہ بچنے والا ہو۔ یہ بندے کے لئے اس کے رب اور مولا سے قرب کے اسباب ہیں۔ 
معراج بندگی: چھٹا نکتہ یہ ہے کہ سجدہ انسان اور شیطان کے درمیان تفریق کرتا ہے۔ وہ شیطان کے لئے محرومی اور دوری کا سبب ہے، اس لئے کہ اس کو سجدے کا حکم دیا گیا مگر اس نے انکار کر دیا۔ چنانچہ وہ انکار اس پر تاقیام قیامت لعنت کا سبب بن گیا۔ پھر آخرت میں اس کے لئے عذاب ہے۔ لیکن جو جھکتا ہے اور اللہ کے حکم کی تعمیل میں سجدہ کرتا ہے وہ اپنی عبودیت کا ثبوت دیتا ہے اور شیطان سے دشمنی کا اعلان کرتا ہے۔ شیطان کو سجدے سے انکار پر دھتکارا گیا اور اللہ کی رحمت سے دور کردیا گیا۔ لیکن فرمانبردار بندے کا معاملہ اس کے برعکس ہے، وہ سجدہ کرتا ہے تو اللہ کے قرب اور اس کی رحمت کے سائے میں ہوتا ہے۔ 
آخرت کی یاد : ساتواں نکتہ دنیا اور آخرت کے سجدے کی یاد دہانی ہے اور وہ سجدے کرنے والے مومن اور انکار کرنے والے کافر کے درمیان فرق ہے۔ بندۂ مومن کو دنیا میں سجدے کے لئے بلایا گیا تو اس نے سجدہ کیا اور کافروں کو بلایا گیا تو انہوں نے سجدہ کرنے سے انکار کردیا۔ چنانچہ وہ قیامت کے دن سجدہ کرنے کی تمنا کریں گے مگر اس سے روک دیئے جائیں گے، سجدہ کرنے کے ارادے اور اس کی رغبت کے باوجود ایسا نہ کر سکیں گے۔ ان کی پیٹھیں تختہ ہو جائیں گی اور ان میں سے ایک بھی اس قابل نہ ہوگا کہ اپنی کمر کو خم کرکے سجدہ کرلے۔ مفسرین نے اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد سے یہی معنی لئے ہیں : ’’جس روز سخت وقت آ پڑے گا اور لوگوں کو سجدہ کرنے کیلئے بلایا جائے گا تو یہ لوگ سجدہ نہ کرسکیں گے‘‘ (سورہ القلم: ۴۲) 
ذکر اور دعا: سجدے میں دعا کی کثرت مستحب ہے جیسا کہ ہم نے قبر کی حقیقت بیان کرتے ہوئے اس کا ذکر کیا ہے اور یہ کہ نبی کریمؐ کی نماز میں دعا زیادہ تر سجدے کی حالت میں بیان ہوئی ہے۔ ابن قیمؒ نے کہا ہے : ’’نماز میں دعا کے سات مواقع ہیں اور ان میں سے اہم ترین سجدے کا مقام ہے اور نبی ؐ کی دعاؤں کی کثرت سجدے میں ہوتی۔ ‘‘  (زاد المعاد ۱ / ۲۵۶)

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK