Inquilab Logo

فتنۂ ارتداد سے اپنے ایمان کی حفاظت کیجئے

Updated: January 20, 2023, 1:25 PM IST | Dr. Mufti Organization Alam Qasmi | MUMBAI

ایک مسلمان کے لئے ایمان و اسلام سب سےعظیم نعمت اوردنیا کا سب سے قیمتی اثاثہ ہے۔

The biggest problem for believers is to protect their faith and that of their generations; Photo: INN
اہل ایمان کے لئے سب سے بڑا مسئلہ اپنے اوراپنی نسلوں کے ایمان کے تحفظ کا ہے; تصویر:آئی این این

ایک مسلمان کے لئے ایمان و اسلام سب سے عظیم نعمت اور دنیا کا سب سے قیمتی اثاثہ ہے۔ اسی پر دنیا و آخرت میں کامیابی کا مدار ہے۔ دنیا میں عزت و افتخار ، عروج و بلندی ، شان و شوکت اسی ایمان سے وابستہ ہیں اور موت کے بعد کی دائمی زندگی میں راحت اور سکون اور وہاں کے ناقابل تصور عذاب سے نجات بھی اسی سے متعلق ہے۔ جس نے دنیا سے جاتے ہوئے اپنے ایمان کو بچا لیا اور کلمہ ٔ شہادت پر یقین رکھا اس کے بارے میں قرآن و حدیث میں صاف لفظوں میں بتا دیا گیا ہے کہ وہ کامیاب ہے ۔ اگر بعض گناہ کے سبب جہنم میں جانا بھی پڑا تو ایک متعین وقت کے بعد وہاں سے نکال لیا جائے گا اور جنت میں داخل کیا جائے گا جہاں وہ ہمیشہ ہمیش رہے گاجو ایک انسان کے لئے سب سے بڑی نعمت ہے ۔ اس لئے ایک شخص کو چاہئے کہ وہ ہمیشہ اپنے ایمان پر قائم رہے۔ حالات جیسے بھی ہوں ، موافق ہوں یا مخالف ، تنگ دستی ہو یا خوش حالی ، بیماری ہو یاتندرستی ،اپنے ایمان کی فکر کرے اور ہر حال میں اس پر استقامت اختیار کرے ۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو اس کی ہدایت دی ہے اور ایمان کے ساتھ رہنے اورایمان کی موت مرنے کی تعلیم دی ہے ۔ ارشاد باری ہے:’’ اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو جیسا کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے ، تم کو موت نہ آئے مگر اس حال میں کہ تم مسلم ہو۔‘‘ (آل عمران: ۱۰۲)زندگی اور موت، عز ت اور ذلت ،امیری اور غریبی سب کچھ  اللہ کے اختیار میں ہے ۔ اس عقیدہ پر زندہ رہیں اور موت آئے تو اسی پر آئے، یہ ایمان کی موت ہے جس کی ایک مسلمان کو بہر حال کوشش کرنی چاہئے۔
ہمارے پاس جب کوئی ادنیٰ نعمت ہوتی ہے تو ہم اس کی بھی حفاظت کرتے ہیں اور صبح وشام اس کی دیکھ بھال کرتے رہتے ہیں کہ کہیں ہمارے ہاتھ سے نہ چلی جائے۔ کہیں جاتے ہوئے اپنے گھر میں تالا لگاتے ہیں ، گاڑی کو لاک کرتے ہیں اور مسجد یا کسی جگہ جاتے ہوئے اپنے معمولی چپل کی فکر رہتی ہے جب کہ اس کی کوئی حیثیت اور قیمت نہیں ہے ۔ آپ اندازہ کیجئے کہ دنیا کی ایک معمولی چیز کی اتنی فکر ہے توایک مسلمان کو اپنے ایمان کی کس قدر فکر کرنے اور اس کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے ؟ 
رسول اکرم  ﷺ نے مختلف احادیث میں کچھ فتنوں کی خبر دی ہے اور مسلمانوں کو خبردار کیا ہے کہ اپنے ایمان کو ان سے بچائے رکھو، کہیں ایسا نہ ہو کہ ان فتنوں کے سبب تمہارا ایمان تمہارے سینے سے رخصت ہو جائے اور تمہیں اس کی خبر بھی نہ ہو ۔اس لئے کہ بعد میں ایسے فتنے پیدا ہوں گے اور ایسا ایمان سوز ماحول پیدا ہوگا کہ ایمان جاتے ہوئے دیر نہیں لگے گی۔حدیث کے الفاظ ہیں:’’ ان فتنوں کے آنے سے قبل اعمال صالحہ کی طرف سبقت کرو جو تاریک راتوں کی طرح پیدا ہوں گے ۔ آدمی صبح مؤمن ہوگا اور شام کافراور کبھی شام مؤمن ہوگا اور صبح کافر ، اپنے دین کو دنیا کے چند سامان اور پیسوں کے عوض بیچ ڈالے گا۔‘‘(صحیح  مسلم)  یعنی کچھ ایمان سوز ایسے فتنے پیدا ہوں گے جن سے ایک مسلمان کے لئے اپنے ایمان کی حفاظت دشوار ہو جائے گی ،تاریک رات کی طرح وہ فتنے کفر کے اندھیرے پھیلائیں گے ، یہاں تک کہ ایک آدمی کا ایمان و عقیدہ بالکل صحیح ہوگا لیکن جب گھر سے باہر نکلے گا،  ایمان کے لٹیروں سے ملاقات ہوگی ، وہ ایسا پاٹھ پڑھائیں گے کہ اس کی سوچ اور عقیدہ بدل جائے گا اور ایمان اس کے سینے سے رخصت ہو جائے گا۔ کچھ لوگ اپنی بیماریوں، رزق کی پریشانیوں اور مختلف الجھنوں کے سبب خدا کی شان میں ایسی گستاخی کر بیٹھیں گے کہ اس کی وجہ سے ان کا ایمان ختم ہوجائے گا ، کچھ اپنے سلسلہ وار مصائب کے سبب اپنے رب اور ایمان سے بیزار ہوجائیں گے۔ لوگ اپنے ایمان کو اتنا ہلکا سمجھ لیں گے کہ اس کی اہمیت دل سے ختم ہوجائے گی اور چند پیسوں اور عزو جاہ کے لالچ میں اپنے ایمان کاسودا کرلیں گے۔ گویا آپ ؐ نے اپنی امت کو ایسے نازک موڑ پر چوکنا اور بیدار مغز رہنے کی ہدایت دی ہے اور ہر حال میں ایمان پر جمے رہنے کی تلقین فرمائی ہے کہ دنیا کی تھوڑی پریشانی برداشت کرلی جائے اور آخرت کو پیش نظر رکھا جائے۔  یقیناً یہ سستا سودا ہے کہ پوری دنیا لٹ جائے لیکن ایمان باقی رہے اور اگر دنیا کی دولت قارون کے خزانے کے برابر بھی مل گئی لیکن ایمان نہیں رہا تو یہ انتہائی خسارے کی بات ہے ،اس سے زیادہ ذلت اورمحرومی کچھ بھی نہیں ہو سکتی۔
جن فتنوں اور حالات کی طرف رسول اکرم  ﷺ  نے اشارہ فرمایا ہے وہ آج سے پہلے بھی ہوں گے اور ممکن ہے آئندہ بھی ہوں لیکن موجودہ ملکی اور بین اقوامی حالات کے پیش نظر یقین سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ دور بھی اس کا حقیقی مصداق ہے اور یہ حدیث آج کے حالات پر مکمل صادق  آتی ہے ۔ اسلام اور مسلمان ساری باطل طاقتوں کی نظر میں کھٹک رہے ہیں ۔ ان کو مٹانے ، ان کو مغلوب کرنے ، ان کو بدنام کرنے اور اسلامی تعلیمات سے دنیا کو متنفر کرنے کی منصوبہ بند کوششیں جاری ہیں۔ باطل نظریات کے پرستار چاہتے ہیں کہ مسلمان اپنے ایمان اور اپنی شناخت کے ساتھ دنیا میں زندہ نہ رہنے پائیں ، ان کو اور ان کی نسلوں کو ایمان سے محروم کردیا جائے۔
مسلمانوں کو ایمان سے برگشتہ کرنے کے لئے یہی کیا کم تھا کہ اور بھی مختلف نئے نئے ایمان سوز فتنے آئے دن پیدا ہوتے جارہے ہیں ۔ فتنۂ فیاضیت ، فتنۂ شکیل بن حنیف ، فتنۂ گوہر شاہی اور نہ جانے کتنے فتنے ہیں جن کا سرا قادیانیت سے ملتا ہے اور وہ مسلمانوں کا لبادہ اوڑھ کر ایسے عقائد کی تبلیغ میں مصروف ہیں جن کو اختیار کرنے کے بعد ایک شخص مسلمان باقی نہیں رہ سکتا ۔ گویا اپنوں اور غیروں کی جانب سے اسلام اور مسلمانوں پر متواتر حملے کئے جارہیں اور ان کے ایمان کو چھیننے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ایسے وقت میں ایمان کا تحفظ مسلمانوں کے لئے سب سے بڑا چیلنج بن گیا ہے۔ اپنی شہریت ، تجارت ، ملازمت،معیشت ، مال و دولت اور عزت و آبرو کا تحفظ بھی مسلمانوں کے لئے مسئلہ ہے اس میں کوئی شبہ نہیں اور اس کے لئے حکمت عملی کے ساتھ اقدام کرنا چاہئے ۔
اہل ایمان کے لئے سب سے بڑا مسئلہ اپنے اور اپنی نسلوں کے ایمان کے تحفظ کا ہے ۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ ایمان لے کر دنیا سے جائیں اور مرنے کے بعد کی زندگی بہتر اور خوش گوار ہو ، اپنے رب اور اپنے پیارے آقا  ﷺ کو منہ دکھا سکیں تو طے کر لیجئے کہ ہر حال میں اپنے اور اپنی اولاد کے ایمان کی حفاظت کریں گے۔ جان و مال ، عزت و آبرو اور دنیا کی ہزار نعمتیں ایمان کے لئے ہم قربان کردیں گے مگر ایمان کا سودا  نہیں ہونے دیں گے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK