Inquilab Logo

انفرادی اور معاشرتی صحت کیلئے ماحولیات کی صحت کا تحفظ ناگزیر

Updated: January 29, 2022, 1:50 PM IST | Asim Jalal | Mumbai

ہماری صحت اس بات پربھی منحصر ہے کہ ہم کیسی ہوا میں سانس لے رہے ہیں ،کیسا پانی پی رہے ہیں اور غذاکیسی استعمال کررہے ہیں۔ بہ الفاظ دیگر بہتر صحت کیلئے ماحولیات کی بہتری پر بھی توجہ دینا ضروری ہے۔

Not only prevent trees from being cut down but also plant trees so that they can help increase the rate of oxygen in the atmosphere..Picture:INN
درختوں کو کٹنے سے نہ صرف بچائیں بلکہ درخت لگائیں تاکہ یہ فضا میں آکسیجن کی شرح میں اضافے میں معاون ثابت ہوں۔ ۔ تصویر: آئی این این

 اتر پردیش کے بلیا ضلع میں واقع تیواری ٹولہ کے بارے میں  حال ہی میں  ایک رپورٹ نظروں سے گزری کہ یہاں کا کوئی گھر ایسانہیں جو بیماری سےمحفوظ ہو۔اتر پردیش اور بہار کی سرحد پر واقع اس گاؤں کی پریشانی اور یہاں  رہنے والوں کی بیماری کی وجہ وہ پانی ہے جو وہ پیتے ہیں۔ زیر زمین پانی ہی اس گاؤں  میں  حصول آب کا سب سے بڑا ذریعہ ہے مگر یہ پانی آرسینک سے آلودہ ہے جو انہیں گردے، جگر، پِتہ اور دیگر اعضاء کی بیماریوں میں مبتلا کررہا ہے۔ یہ صرف یوپی کے ایک گاؤں کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ شمالی ہند کے کئی علاقے جن میں بہار اور جھارکھنڈ بطور خاص شامل ہیں، ایسے مسائل سے جوجھ رہے ہیں۔ آلودہ پانی سے انسانی صحت کو لاحق خطرہ کو بس اس ایک جملے سے سمجھا جا سکتا ہے کہ ماہرین ماحولیات کے مطابق دنیا میں زیادہ تر بیماریاں آلودہ پانی کے استعمال کی وجہ سے ہی ہوتی ہیں۔
ماحولیات کا انسانی صحت سے براہ راست تعلق
 انسانی صحت کا ماحولیات اور آب و ہوا میں آنے والی تبدیلیوں سے براہ راست تعلق ہے۔ یا یوں کہیں  کہ اگر ہم ماحولیات کے تحفظ کی جانب توجہ نہیں دیتے تو نت نئی بیماریوں  کے ’’خیر مقدم‘‘ کیلئے اسی طرح تیار رہے ہیں جس طرح گزشتہ چند برسوں میں ہم نے کئی نئی بیماریوں کا سامنا کیا ہے۔ گزشتہ کچھ دہائیوں میں کئی نئی بیماریاں معرض وجود میں آئیں اور متعدد پرانی بیماریوں نے پہلے سے زیادہ شدید اور طاقتور ہوکر معاشرے پر حملہ کیا۔ اس کیلئے بڑی حد تک ماحولیات کے ساتھ ہونے والی چھیڑچھاڑ ہی ذمہ دار ہے۔ درختوں کو کاٹنے اور فطرت کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کے نتیجے میں موسموں کا اعتدال ہی متاثر نہیں ہورہا ہے بلکہ یہ کئی طرح کی بیماریوں کا بھی سبب بن رہی ہے۔ موسموں  میں آنے والی شدت، موسم گرما میں گرمی میں  غیر معمولی اضافہ ہو یا سردی کے موسم میں انتہا کو پہنچنے والی ٹھنڈ یا پھر بارش کی بے اعتدالی، طوفانوں، سائیکلون   اور سیلابوں کی شرح میں اضافہ، یہ سب ماحولیات میں  بے اعتدالی کا ہی نتیجہ ہیں۔ ان سارے عوامل کے ہماری صحت پر واضح طور پر براہ راست اور بالواسطہ اثرات مرتب ہورہے ہیں۔ 
 فضائی آلودگی خاموش قاتل
  فضائی آلودگی ملک میں خاموش قاتل کی طرح  کام کررہی ہے۔ ۲۰۱۹ء کے ایک مطالعہ کے مطابق  ہندوستان میں ۲۰۱۹ء میں  ۱ء۷؍ ملین (۱۷؍ لاکھ) اموات آلودہ ہوا کی وجہ سے ہوئی ہیں۔ یہ تعداد اس سال ہونے والی تمام اموات کا ۱۸؍ فیصد ہے۔ عالمی سطح  پر معتبر سمجھی جانے والی میڈیکل جنرل ’لینسیٹ‘ میں  شائع ہونے والی اس رپورٹ کے مطابق ملک میں فضائی آلودگی پھیپھڑوں کےکینسر، امراض قلب، اسٹروک، ذیابیطس اور تنفس سے متعلق امراض میں  اضافے کا سبب بن رہی ہے۔فضائی آلودگی ہی دمہ ، الرجی اور کینسر جیسے امراض  میں  اضافے کا بھی اہم ذریعہ ہے۔ اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ ہندوستان میں  فضائی آلودگی کے سبب ہونے والی اموات میں مسلسل اضافہ ہورہاہے۔ ۲۰۱۷ء میں یہ تعداد ۱ء۲۴؍ ملین تھی جو ۲۰۱۹ء میں بڑھ کر ۱ء۶۷؍ ملین ہوگئی۔ قومی راجدھانی سے فضا کے بہت زیادہ آلودہ ہو جانے کی خبریں ہم اکثر اخبارات میں  پڑھتے اور نیوز چینلوں پر دیکھتے رہتے ہیں۔اس آلوگی سے بچنے کیلئے پیٹرول اور ڈیزل کے بجائے بجلی سے چلنے والے ذرائع آمدورفت کو فروغ دینے کی کوششیں ہورہی ہیں۔ 
 غذا پر بھی ماحولیاتی آلودگی کا اثر
  ماحولیات کے آلودہ ہونے کا اثر ہوا اور پانی اور دیگر عوامل تک محدود نہیں ہےبلکہ ہماری اس غذا کو بھی متاثرکرتا ہے جس کا بنیادی مقصد جسم کو توانائی پہنچانا اور اس میں بیماریوں سے لڑنےکیلئے قوت مدافعت کو فروغ دیناہے۔ ایک تازہ ریسرچ کے مطابق ملک کے مختلف علاقوں میں  پانی میں آرسینک کی موجودگی تو باعث تشویش تھی ہی،ا ب یہ آرسینک ہماری غذا میں  بھی راہ پانےلگا ہے۔ 
 محققین کے مطابق چاول، گیہوں اور آلو میں بھی آرسینک کی خطرناک حدتک موجودگی پائی گئی ہے جو صحت عامہ کیلئے نئے چیلنجز کھڑے کررہی ہے۔ ماہرین یہ دیکھ کر خود بھی حیران رہ گئے کہ چاول وغیرہ میں  آرسینک کی مقدار پانی میں اس کی مقدار سے بھی کہیں زیادہ ہے۔اتنا ہی نہیں تشویشناک بات یہ ہے کہ پکائے ہوئے چاول میں آرسینک کی مقدار کچے چاول کے مقابلے میں زیادہ ہے۔ 
 ماہرین کے مطابق اس سے بچنے کیلئے جس طرح  پینے کے پانی میں آرسینک کے مقدار پر نظر رکھنے کیلئے تحقیق اور اقدامات ہورہے ہیں، ویسے ہی اقدامات اور تحقیق کی ضرورت آبپاشی میں استعمال ہونے والے پانی کیلئےبھی ضروری ہے۔
  ان دیہی علاقوں میں جہاں  ندیاں نہیں  ہیں وہاں نہ صرف پینے کیلئے بلکہ آب پاشی کیلئے بھی زیر زمین پانی کا استعمال ہوتاہے۔ آرسینک سےمتاثرہ یہ پانی یقیناً ہماری غذا کو بھی متاثر کررہاہے اور مسئلہ یہ ہے کہ اس کے ذریعہ وہ علاقے بھی متاثر ہو رہے ہیں  جو متاثرہ علاقوں سے دور ہیں کیوں کہ ہم چاول خریدتے وقت یہ تو معلوم نہیں کرسکتے کہ ان کی زراعت ملک کے کس حصے میں ہوئی ہے۔ 
 ماحولیات پر پلاسٹک کا حملہ
 پچھلی ایک دہائی میں پلاسٹک نے ماحول پر جیسی یلغار کی ہے اس کی مثال نہیں ملتی۔یہ یلغار انتہائی خوفناک ہے۔ جس طرح ہم زیر زمین پانی کا بے تحاشا استعمال کرکے ایک طرح سے اپنی آنے والی نسلوں  کے حصے کا پانی بھی استعمال کئے جا رہے ہیں اسی طرح بغیر سوچھے سمجھے پلاسٹک پر انحصار اور اس کا ’’یوز اینڈ تھرو‘‘ کا رجحان جس تیزی سے بڑھ رہا ہے وہ آنے والی نسلوں کیلئے مسائل کا انبار لگانے کے مترادف ہے۔ شہروں میں پلاسٹک کے استعمال کی وبا اب دیہاتوں  میں بھی پہنچ چکی ہے جو وہاں کی زرخیز زمین کو آلودہ کر رہی ہے۔ پلاسٹک بہت تیزی سے ہمارے روز مرہ کے معمول میں یوں دخیل ہوگیا کہ اب اس کے بغیر زندگی کا تصور تک محال نظر آتا ہے مگر ماحولیات کے تحفظ اور آنے والی نسلوں کے حقوق کو ملحوظ رکھتے ہوئے ہمیں  اس جانب توجہ دینی ہوگی۔ 
انفرادی طور پر ہم کیاکریں
 آب و ہوا میں تبدیلی کی قیمت اگر سب سے زیادہ کسی کو چکانی پڑتی ہے تووہ ملک کا غریب اور کمزور طبقہ ہے۔ یہ وہ طبقہ ہے جو آلودہ پانی یا آلودہ فضا سے ہونے والی بیماری کا علاج کرانے کا متحمل بھی نہیں ہو پاتا۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ وقت کے ساتھ ہم پہلے سے زیادہ خود غرض ہوتے جارہے ہیں اسلئے ان اقدامات کی طرف توجہ دینے کو تیار نہیں ہیں جو ماحولیات کے تحفظ کیلئے ضروری ہیں حالانکہ عالمی اور قومی سطح پر ماحولیات کے تحفظ اور اس کے ذریعہ انسانی صحت کے تحفظ کو اس وقت تک یقینی نہیں بنایا جاسکتا جب تک کہ شہری سماج اس میں معاون نہ ہوجائے۔ ہم میں سے کون نہیں جانتا کہ ہمیں بجلی کے غیر ضروری استعمال یا پھر ایسے استعمال سےبچنا چاہئے جس کے بغیر کام چل سکتاہے۔  اپنی گاڑی کےذریعہ سفر کرکے فضائی آلودگی کو بڑھانے کے بجائے ہم عوامی ذرائع آمدورفت کا استعمال کرسکتے ہیں۔ درختوں کو کٹنے سے نہ صرف بچائیں بلکہ درخت لگائیں تاکہ یہ فضا میں آکسیجن کی شرح میں اضافے میں معاون ثابت ہوں۔ سب سے اہم بات یہ کہ پلاسٹک کے استعمال کو ہر ممکن محدود یا کم کرنے کی کوشش کریں کیونکہ یہ دور جدید میں  ماحولیات کا سب بڑا دشمن ہے ۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK