Inquilab Logo

اسلام میں عورتوں کے حقوق کے تحفظ کااہتمام

Updated: January 17, 2023, 10:31 AM IST | Hasan Kamal | MUMBAI

آج عرب دنیا میں عرب دوشیزائوں میں ترقی کی جو دھوم ہے، وہ صرف عرب مردوں کی رواداری کی نہیں بلکہ عرب خواتین کی ہنر مندی کی دین بھی ہیں۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

سوشل میڈیا پر ہمیں ایک بہت دل خوش کن خبر سننے کو ملی۔ خبر یہ تھی کہ سعودی عربیہ میں سُپر فاسٹ ٹرینیں چلانے والی عرب لڑکیوں کے ایک باضابطہ جتھے کا انتظام ہو گیا ہے اور خیال یہ ہے کہ وہ بہت جلد اپنا کام کاج بھی کرنے لگیں گی۔ یہ وہی سعودی عرب ہے جہاں اب سے ایک دہائی قبل عورتوںکو کار ڈرائیو کرنے کی بھی اجازت نہیں تھی۔ موجودہ شاہ سے پہلے والے شاہ نے پہلی بار اپنی شروع کی گئی یونیورسٹی میںسعودی لڑکیوں کو اجازت دی تھی۔ بہرحال موجودہ ولی عہد محمد بن سلمان نے خواتین کے بارے میں کچھ اچھے فیصلے بھی کئے ہیں۔ عورتوں کا سیاسی میدان میں اترنا تو یوں بھی کفر جیسا سمجھا جاتا تھا لیکن اب سعودی عرب کی کارپوریشنوں میں بھی عورتوں کی سیٹیں مختص ہو چکی ہیں۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ انہیں مختلف دفتری عہدوں پر بھی رکھا جا رہا ہے۔
  جہاں تک مذہب اسلام کا تعلق ہے، اس میں بقول قرآن کریم مردوں اور عورتوں کے فرائض اور اختیارات کی کوئی تفریق نہیں کی گئی ہے۔ جنگوں میں بھی عورتوں کی ایک کارکردگی رہی ہے۔ عالم اسلام میں کئی بہت قابل احترام تعلیم یافتہ خواتین کا بھی ذکر رہا ہے۔ رابعہ بصری اس کی ایک مثال ہیں۔ اس کے علاہ بھی کئی اولیاء کرام کی مائیں بہت تعلیم یافتہ رہی ہیں۔ یہ بھی ایک تاریخی حقیقت ہے کہ دنیا میں تاریخی اعتبار سے ہندوستان کی رضیہ سلطان کا نام دکھائی دیتا ہے۔ یورپ میں صرف قلوپطرہ اور روس کی زارینہ حکمرانوں میں نام ضرورملتا ہے، لیکن تاریخی اعتبار سے یہ صرف داستانیں ہیں۔رضیہ سلطان نہ صرف ایک بہادر اور مردوں کے لئے بھی قابل احترام حاکم تھی، بلکہ اُس کا تعلق ایک غلام خاندان سے بھی تھا۔ تاریخ میں قطب الدین ا یبک، التمش اور پھر رضیہ سلطان کی حکومتوں کو سلطنت غلاماں بھی کہا جاتا ہے۔ یہ تو دنیا کےلئے دوہری مثال تھی کہ ایک غلام عورت تاریخ کے ابواب میں حاکم اعلیٰ بن گئی۔ مسلم ملکوں میں عورتوں کی تحقیر کا سبب تو کوئی مذہبی اور تاریخی ماہر ہی بتا سکتا ہے ، ہم اتفاق سے دونوں میں سے کوئی بھی نہیں۔
 ہماراخیال ہے کہ اسلامی دنیا میں عورتوں کے حقوق اور ان کے سماجی مراتب نہ صرف محفوظ رہے بلکہ اس میں دم بہ دم اضافہ ہی ہوتا رہا۔ خلافت راشدہ کے بعد اسلامی معاشرے میں کئی تبدیلیاں آئیں ۔ ویسے خلافت راشدہ کے بعد عرب ممالک اور ان کئی ملکوں میں جہاں اسلام پھیل چکا تھا،خلیفہ بنتے رہے لیکن یہ سب خلافت راشدہ کی پرچھائی بھی نہیں تھے۔ یہ خلیفہ رفتہ رفتہ شاہوں اور شہنشاہوں میں بدلتے گئے۔ پورا نظام شاہی اورجاگیر داری میں بدل چکا تھا۔ شاہی اور جاگیر داری عوام اور جمہور کے موافق نہیں ہوتے۔ ان کا تو ساراکام عوام اور جمہور  کے استحصال کے سبب ہی چلتا ہے ۔ شاہی اورجاگیر داری میں عورتوں کی سماجی مرتبت گھٹتے گھٹتے بالکل نچلی سطح پر چلی جاتی ہے۔ ویسے بھی خلافت راشدہ کے بعد سارا عرب یا ساری اسلامی دنیا کسی ایک حکمراں کے تحت نہیں ہوا کرتے تھے ۔جب عراق اور شام میں نام نہاد خلیفائی حکمرانی تھی تو دنیا کے کئی مسلم ممالک میں دوسرے شہنشاہ بھی ہوا کرتے تھے۔ کیا کسی کو معلوم ہے کہ مغل شاہوں نے کس خلیفہ کے ہاتھوںپر بیعت کی تھی؟ اس طرح مسلم معاشرہ بھی ہردور میں اپنی ہیئت بدلتا رہا۔ خیر ان ادوار کے بعد دنیا میں سامراج کا دستور چل پڑا۔ ہر مسلم ملک برطانوی، اطالوی یا فرانس کی جاگیر داری میں بدل گیا۔ سعودی عرب میں بھی برطانوی سامراج داخل ہو چکا تھا لیکن جب دوسری جنگ عظیم کے بعد سامراجیوں کا زوال شروع ہوا تو پھر سعودی عرب میں بھی ایک نیا عرب راج شروع ہوا لیکن اس راج میںا سلام کی اس سماجی یگانگت کا کوئی عنصر نہیں تھا جو اسلام کے ساتھ خصوصیت سے جڑا ہوا تھا۔ 
 اس کے بعد وہ زمانہ آیا جب ساری عرب دنیا میں تیل کے چشمے پھوٹے،غریب عرب ممالک میں دولت کی ریل پیل ہو گئی۔ ایک مدت سے غریب اور مفلوک الحال عرب دنیا میں اچانک ترقیوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ ہمارا ذاتی خیال ہے کہ یہی وہ زمانہ تھا جب عرب خواتین کو پہلی بار یہ احساس ہوا کہ تعلیم کے زیور سے زیادہ اہم وہ زیور ہے جو زرو سیم اور لعل و جواہر سے بنتا ہے ۔ عرب خواتین بھی تعلیم کو بھول گئیںاور ان کی زندگیاں ان دلچسپ شادمانیوں میں گم ہو گئیںجو دولت نے انہیں دی تھیں۔ یہ زمانہ عورتوں کے حقوق کی مزید پائمالی کا سبب بنا۔ عورتیں اپنی پر تعیش زندگی میں گم تھیں اور عرب مردوں کو بھی یہی راس آیالیکن رفتہ رفتہ موبائل نکلا، فیس بک اور ٹویٹر جیسے رابطہ عامہ کے سامان پیدا ہوئے تو عرب دوشیزائوں کی نئی نسل کو معلوم ہوا کہ وہ دنیا کی خواتین سے بہت پیچھے رہ گئی ہیں۔ انہیں یہ علم بھی ہوا کہ دنیا خصوصاًترقی یافتہ دنیا کی خواتین تعلیم کے زیورسے آراستہ ہو کر مردوں کے مقابل پہنچ چکی ہیں، بلکہ کچھ تو مردوں سے آگے بھی نکل گئی ہیں۔ ان باتوں کی وجہ سے عرب دوشیزاؤں میں تعلیم کی روشنی پھوٹنے لگی ۔آج عرب دنیا میں عرب دوشیزائوں میں ترقی کی جو دھوم ہے، وہ صرف عرب مردوں کی رواداری کی نہیں بلکہ عرب خواتین کی ہنر مندی کی دین بھی ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ چھوٹے موٹے اور نسبتاًغریب مسلم ممالک میں لڑکیوں میں یہ ہنر اور زیادہ دیکھا جا رہا ہے۔ مراقش، تیونس اور الجیریا کی عرب دوشیزائیں اس دور میں بہت آگے نکل چکی ہیں۔ہم سمجھتے ہیں کہ یہ بہت خوش آئند بات ہے۔ 
 لیکن یہ تصویر کا صرف ایک رخ ہے،تصویر کا ایک اور رخ بھی ہے جو بہت اچھا نہیں ہے۔ایک طرف اگر تمام مسلم خواتین تعلیم و ترقی کی دوڑ میں آگے ہیں تو دوسری طرف افغانستان بھی ہے۔ ہر روز یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہاں کی خواتین تعلیم کیلئے احتجاج کر رہی ہیں۔ انہیںاسکولو ں میں نہیں جانے دیا جا رہا ہے۔ ہم افغانوں کی بھی قدر کرتے ہیں۔ افغانوں نے دنیا کی دو سب سے بڑی فوجی طاقتوں کو شکست دی ہے۔کیا یہ افسوسناک نہیں ہوگا کہ ایسی شکستیں دینے والی قوم اپنے گھر کے اندر اپنی ہی عورتوں کے ہاتھوں پسپا ہوجائے؟ افغانستان میں عورتوں کی لڑائی میں ان کی فتح لازمی ہے۔ دوسری طرف ایران ہے۔ جب بنگلور میں ایک مسلم لڑکی مسکان نے حجاب پہننے کی ضدکی تھی تو ہم ان لوگوں میںسے تھے جنہوں نے کہا تھا کہ اگر کوئی لڑکی کسی جبر کے بغیر حجاب پہننا چاہئے تو اسے اس کا حق ملنا چاہئے۔ ہم یہ بھی کہتے تھے کہ اگر کوئی نہ پہننا چاہے تو اسے بھی اس کا حق ملنا چاہئے۔آج ایران میں اگر کوئی دوشیزہ حجاب نہ پہنے تو اس کو کیوں مجبور کیا جا رہا ہے؟ یاد رکھیے جب مذہب نے دین کو بھی اکراہ سے دور رکھا ہے،تواسے ماننے والے کسی دوسری چیز پر کیسے مجبور کئے جا سکتے ہیں۔ یہی حق کی پاسداری کا سب سے بڑا امتحان ہوتا ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK