Inquilab Logo

قرآن مجید اور مسجد کا ادب : اپنے طرزِ عمل کا جائزہ لیں

Updated: February 21, 2020, 2:24 PM IST | Mudassir Ahmed Qasmi

اسلامی تعلیمات کے مطابق ادب کا دائرہ صرف ایک انسان کا دوسرے انسان کے ساتھ تعلق تک محدود نہیں ہے بلکہ کچھ اور بھی چیزیں ہیں جن کا ادب ملحوظِ خاطر رکھنا شریعتِ مطہرہ میں مطلوب ہی نہیں بلکہ مستحسن بھی ہے؛جیسے قرآنِ پاک، مساجد، ماہِ رمضان، کھانے پینے کی اشیاء اور آلاتِ علم و غیرہ۔

قرآن مجید اور مسجد کا ادب ۔ تصویر : آئی این این
قرآن مجید اور مسجد کا ادب ۔ تصویر : آئی این این

ایک عربی کہاوت ہے کہ یتیم وہ شخص نہیں ہے جس کے والدین نہ ہوں بلکہ یتیم وہ ہے جو علم و ادب سے محروم ہو۔ اِس عربی کہاوت سے انسانی زندگی میں ادب اور دوسروں کے لئے تعظیم کی اہمیت کا ہمیں بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔ مشاہدہ بھی ہے کہ جس کے اندر دوسروں کے لئے ادب و تعظیم کا جذبہ نہ ہو، وہ اِس حد تک اخلاقی گراوٹ کا شکار ہوجاتا ہے کہ ایک عام با ادب آدمی اس کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔  
جب ہم ادب و تعظیم کے حوالے سے اسلامی تعلیمات کا مطالعہ کرتے ہیں تو  اِس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ ادب کا دائرہ صرف ایک انسان کا دوسرے انسان کے ساتھ تعلق تک محدود نہیں ہے بلکہ کچھ اور بھی چیزیں ہیں جن کا  ملحوظِ خاطر رکھنا شریعتِ مطہرہ میں مطلوب ہی نہیں بلکہ مستحسن بھی ہے؛جیسے قرآنِ پاک، مساجد، ماہِ رمضان، کھانے پینے کی اشیاء اور آلاتِ علم و غیرہ۔
چونکہ ادب و تعظیم دین اسلام کا جزوِ لاینفک ہے، اس لئے تجربے سے جہاں ایک طرف یہ بات ثابت ہے کہ کسی بھی میدان میں وہی شخص درجۂ کمال تک پہنچتا ہے جو ادب و احترام کا حامل  ہوتا ہے وہیں دوسری طرف بارہا کے تجربے سے یہ بات بھی ثابت ہوچکی ہے کہ ادب و تعظیم کے جذبے سے محروم شخص تمام تر قابلیت اور صلاحیت کے باوجود بڑے پیمانے پر کہیں نہ کہیں ناکامی کا سامنا کرتا ہے۔
بڑوں کی عزت و تکریم کے حوالے سے ہم عموماً پڑھتے اور سنتے رہتے ہیں۔زیرِ نظر مضمون میں قرآنِ پاک اور مسجد کی تکریم کے حوالے سے  چند باتیں پیش کی جارہی ہیں:
قرآن کے حوالے سے ہمارا جذبۂ احترام
اللہ تبارک و تعالیٰ کی عظیم ترین نعمتوں میں سے ایک نعمت قرآنِ کریم ہے، لہٰذا یہ کتاب بہت زیادہ ادب و تکریم کی مستحق ہے۔قرآنِ کریم کے آداب میں سے یہ ہے کہ انسان اُس کو صحیح مخارج کے ساتھ پڑھنا سیکھے، اس کو سمجھے، اس میں مذکور احکامات پر عمل کرے اور مستقل بنیادوں پر اس کی تلاوت کرے۔اسی طرح ہمیشہ اسے پاک ہوکر با وضو چھوا جائے،ادب کے ساتھ ہاتھ میں اُٹھایا جائے اور پاکیزہ و اونچی جگہ میں اسے رکھا جائے۔ آج کے زمانے میں افسوس کی بات یہ ہے کہ جہاں دیگر تمام چیزوں کے حوالے سے ہم ادب و تعظیم کے باب میں تنزلی کے شکار ہیں، وہیں قرآن پاک کے حوالے سے بھی ہم کسی نہ کسی درجے میں بے ادبی کے مرتکب ہیں۔
 مثال کے طور پر ماضی پر اگر ہم طائرانہ نظر ڈالیں گے تو یہ منظر بآسانی ہماری نگاہوں میں گھوم جائے گا کہ پہلے لوگ انتہائی خوبصورت اور عمدہ کپڑوں کا  جُزدان بنواتے تھے اوراس کے اندر تعظیم کے ساتھ قرآن کو رکھنے کا اہتمام کرتے تھے؛ لیکن اِس حوالے سے آج کے زمانے کا جب ہم جائزہ لیتے ہیں تو  یہ پاتے  ہیں کہ چاہے ہمارا گھر ہو یا ہماری مسجد، خال خال ہی غلاف والے قرآن مجید کے نسخے نظر آتے ہیں؛ ستم بالائے ستم یہ کہ کبھی کبھار ہی قرآن پڑھنے کی وجہ سے اُس پر دھول بھی جمی نظر آتی ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ مسلمانوں کے دلوں میں قرآن پاک کی عزت نہیں ہے بلکہ یہ اُن کی کمالِ بے التفاتی ہے کہ انہوں نے قرآن کو یوں ہی چھوڑ دیا ہے۔ اِس صورتِ حال کو سامنے رکھتے ہوئے مسلمان خود ہی بتائیں کہ ایسے میں عظمتِ رفتہ کی بحالی کا خواب کیسے شرمندۂ تعبیر ہوسکتا ہے۔ یہاں آکر ہم اِس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ مسلمان اُس وقت تک کامیاب نہیں ہوسکتے جب تک کہ ہر اعتبار سے قرآن کا پاس و لحاظ نہ رکھیں ۔  
مسجد کے حوالے سے ہمارا جذبۂ احترام
مسجد کا ادب و احترام ہمارے ایمان کی علامت ہے۔ قرآن و حدیث سے مسجد کی عظمت روزِ روشن کی طرح عیاں ہے اور وہیں سے ہمیں یہ تعلیم بھی ملتی ہے کہ ہم کس حد تک مسجد کے تقدس کا خیال رکھیں۔ یہی وجہ ہے کہ ناپاک شخص کو جس پر غسل واجب ہے ،مسجد میں داخل ہونے کی اجازت نہیں ہے، اسی طرح مسجد کے اندر تمام دنیاوی باتیں کرنا منع ہے، بلند آواز میں بات کرنا منع ہے اور بدبو دار و ناپاک کپڑوں میں مسجد کے اندر آنا منع ہے۔ اس کے احترام کا اندازہ اس حدیث سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’جو شخص لہسن یا پیاز کھائے وہ مسجد سے الگ رہے اور اپنے گھر میں بیٹھ جائے کیونکہ فرشتے بھی اس چیز سے تکلیف محسوس کرتے ہیں جس سے انسان تکلیف محسوس کرتے ہیں۔‘‘ (مسلم) مسئلہ یہ ہے کہ اگر پیاز وغیرہ کھالیا ہے تو اس طرح منہ صاف کر کے مسجد جائے کہ منہ میں بدبو باقی نہ رہے۔غور کا مقام ہے کہ ایک طرف تاکیدی طور پر مسجد کے ادب و احترام کی تعلیم دی گئی ہے ،دوسری طرف ہم میں سے بہت سارے لوگوں کا حال یہ ہے کہ وہ سگریٹ وغیرہ پی کر بھی مسجد میں آنے سے نہیں کتراتے اورمسجد میں دنیاوی باتیں کرنے سے یا بآواز بلند بات کرنے سے بھی نہیں ہچکچاتے۔ اِس تناظر میں ہم میں سے ہر شخص نکاح کے بعد مسجد میں ہونے والے شورو ہنگامے سے اچھی طرح واقف ہے۔ 
 اگر ہم یہ چاہتے ہیں کہ مسجد کا احترام کر کےسعادتِ ابدی کے مستحق بنیں تو ہمیں سب سے پہلے یہ چاہئے کہ مسجد اچھے لباس کے ساتھ آئیں، فرمانِ باری تعالیٰ ہے:اے بنی آدم، ہر عبادت کے موقع پر اپنی زینت سے آراستہ رہو  ۔ 
(الاعراف:۳۱)  
دعا ء پڑھ کر مسجد میں داخل ہونے کے بعد بیٹھنے سے پہلے دو رکعت نماز نفل تحیۃ المسجد  بھی ادا کرنا چاہئے چنانچہ حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث مبارکہ میں ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا :
 ’’جو شخص مسجد میں داخل ہو تو اسے چاہئے کہ بیٹھنے سے پہلے دو رکعت نماز پڑھ لے۔‘‘ (بخاری) مسجد کے آداب میں یہ بھی شامل ہے کہ ہم مسجد میں آ کر سکون اور وقار  کے ساتھ رہیں  اور چلیں، آپ ﷺ کا فرمان ہے:
’’جب  جماعت کے لئے اقامت ہو جائے تو دوڑتے ہوئے مسجد نہ آؤ، بلکہ پر وقار انداز سے چلو، نماز کا جو حصہ مل جائے وہ پڑھ لو اور جو رہ جائے وہ پورا کر لو۔‘‘
 ( متفق علیہ)
خلاصہ یہ ہے کہ دینی تعلیم سے دوری اور مذہب پر عمل سے بیزاری نے ہمیں بے ادب بنا دیا ہے اور ہم نے خود اپنی عظمت کو گہن لگایا ہے، اس لئے اگر ہم اپنی زندگی میں عظمت کے خواہاں ہیں تو شرعی اعتبار سے جو لوگ اور جو چیزیں بھی ادب و احترام کی مستحق ہیں،اُن کے تعلق سے کما حقہ ادب و احترام کا معاملہ روا رکھیں۔ اِس حوالے سے سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہم اپنے بچوں کو بھی ایسی تعلیم و تربیت دیں کہ وہ با ادب بن جائیں، نہیں تو اُن کی بے ادبی کا خمیازہ ہمیں خود بھی بھگتنا ہوگا۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK