Inquilab Logo

قرآن مجید کا تصور فلاح ونجات

Updated: February 26, 2021, 10:33 AM IST | Dr Sayed Farhat Hussain

قرآن مجید میں نجات اور فوز و فلاح کو بہت واضح اور دلنشیں انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ کہیں اس کو عذاب الیم سے نجات یا گھاٹے سے بچ جانا کہا گیا ہے تو کہیں فوز وفاح جنت کا حصول اور رضائے الہی کی حیثیت سے پیش کیا گیا ہے۔ a

Quran Reading - Pic : INN
قرآن شریف ۔ تصویر : آئی این این

نجات کے لغوی معنی چھٹکارا پانے یا بچ جانے کے ہیں یعنی کسی دکھ ، تکلیف یا نقصان اور خسارے سے بچ جائیں یا اس سے نجات مل جائے۔ مذہبی اصطلاح میں نجات کا مطلب اس روحانی کیفیت سے ہے جس میں پریشانی ، تکلیف اور عذاب سے چھٹکارا مل جائے۔ قرآن میں نجات کے معنی تکلیف، پریشانی ، خوف، ملال، عذاب اور خسارے سے بچ جانے کے ہیں۔ اسلام میں نجات اور فوز وفلاح کا بہت وسیع تصور ہے۔ اصلاً تو آخرت کی زندگی میں عذاب ، تکلیف، نار جہنم سے بچ جانے اور جنت مل جانے کا تصور ہے مگر ساتھ ہی دنیا کی زندگی کو بھی پر امن ، پر سکون ، مطمئن اور خوشحال بنانے کا مفہوم شامل ہے گو کہ اصل ہدف نجات اخروی ہی ہے۔قرآن مجید میں نجات اور فوز و فلاح کو بہت واضح اور دلنشیں انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ کہیں اس کو عذاب الیم سے نجات یا گھاٹے سے بچ جانا کہا گیا ہے۔ کہیں فوز وفلاح جنت کا حصول اور رضائے الہی کی حیثیت سے پیش کیا گیا ہے۔ خوف اور رنج سے عافیت بھی تصور نجات میں شامل ہے۔ ان عنوانات کے تحت اہم آیات پیش کی جا رہی ہیں:
(۱)  نجات
دردناک عذاب سے چھٹکارہ کے ضمن میں سورہ الصف کی آیات ۱۰؍ تا ۱۲؍ بہت اہم ہیں:
(ترجمہ )’’اے لوگو ! جو ایمان لائے ہو میں بتاؤں تمہیں وہ تجارت جو تمہیں دردناک عذاب سے نجات دے ؟ ایمان لاؤ اللہ اور اس کے رسول پر اور جہاد کرو اللہ کی راہ میں اپنے مالوں سے اور اپنی جانوں سے ۔ یہی تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم جانو۔ اللہ تمہارے گناہ معاف کر دے گا اور تم کو ایسے باغوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی اور ابدی قیام کی جنتوں میں بہترین گھر تمہیں عطا فرمائے گا۔ یہ ہے بڑی کامیابی۔‘‘ (الصف ۔ ۱۰۔۱۲)
یعنی اللہ اور رسول اللہ ﷺ پر مکمل ایمان اور اللہ کے راستہ میں مال وجان کا سرمایہ لگاکر جو تجارت کی جائے گی اس سے نہ صرف یہ ہے کہ عذاب الیم سے چھٹکارا مل جائے گا بلکہ ایک بڑی کامیابی یہ ہوگی کہ جنت میں ابدی قیام حاصل ہو جائے گا۔ اس سے اگلی آیت (۱۳) میں دنیامیں اللہ کی نصرت اور فتح کی بشارت بھی سنا دی گئی ہے۔یہی وہ نکتہ ہے جو اسلام کے کامیابی کے تصور کو دیگر ادیان سے ممتاز کرتا ہے کہ اوّلیت تو اخروی نجات اور فلاح کو حاصل ہے مگر دنیا کی کامیابی کو بھی فراموش نہیں کیا گیا ہے۔
(۲) گھاٹے سے بچاؤ
تصور نجات اور نقصان سے بچاؤ کے لئے سورہ العصر کی تعلیمات بہت جامع ہیں:
(ترجمہ) ’’زمانے کی قسم  ، انسان درحقیقت خسارے میں ہے، سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور جنہوں نے نیک اعمال کئے اور ایک دوسرے کو حق کی وصیت کی اور صبر کی تلقین کرتے رہے۔‘‘(العصر: ۱۔۳)
یعنی زمانہ شاہد ہے کہ نوع انسانی سراسر نقصان اور خسارے میں ہے ۔اس خسارے سے صرف وہی لوگ بچ سکتے ہیں اور دنیا اور آخرت میں نجات اور کامیابی حاصل کر سکتے ہیں جو ایمان ، عمل صالح اور حق و صبر کی تلقین پر کار بند ہوجائیں۔
سورہ الزمر آیت ۱۵؍ میں غیر اللہ کی بندگی کو خسران مبین کہا گیا ہے:
  (ترجمہ)’’ تم اس کے سوا جس کی بندگی اختیار کرنا چاہو کرتے رہوفرما دیجئے: بے شک نقصان اٹھانے والے وہی لوگ ہیں جنہوں نے قیامت کے دن اپنی جانوں کو اور اپنے گھر والوں کو خسارہ میں ڈالا۔ یاد رکھو یہی کھلا نقصان ہے۔‘‘
ظاہر ہے اللہ کی بندگی کے ذریعہ ہی اس دیوالئے پن سے نجات مل سکتی ہے ۔
نجات کے اوپر کے مدارج فلاح، فوز، رضائے الہی، خوف و غم سے عافیت ہیں۔ ان کا تذکرہ الگ الگ آرہا ہے۔
(۳)فلاح
کامیابی اور نجات کے لئے قرآن میں کئی مقامات پر لفظ فلاح آیا ہے جس کا اطلاق آخرت میں پائدار اور مستقل کامیابی اور دنیا میں آسودگی اور مطمئن زندگی سے ہوتا ہے۔ قرآن کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ایمان ، تقویٰ، ہدایات الہی کی پیروی ، تزکیہ نفس اور دین حق کے غلبہ کے لئے اجتماعی جد و جہد کرنے والے لوگ فلاح پائیں گے۔ خاص خاص آیات پیش ہیں:
l متقین اور مؤمنین کامیاب ہیں:
سورہ البقرہ کے شروع میں متقین کی صفات بیان کرنے کے بعد فرمایا گیا:
’’ ایسے لوگ اپنے رب کی طرف سے راہ راست پر ہیں اور وہی فلاح پانے والے ہیں۔‘‘ (البقرہ۔۵) یہی مضمون سورہ لقمان کی آیت نمبر ۵؍ میں بھی ہے۔ سورہ المومنون کےپہلی آیت میں ہے:’’یقینا ًفلاح پائی ہے مومنین نے ۔‘‘ اس کے بعد مومنین کی صفات بیان فرمائی گئی ہیں اور پھر فرمایا گیا ہے:
‘‘یہی لوگ (جنت کے) وارث ہیں، یہ لوگ جنت کے سب سے اعلیٰ باغات (جہاں تمام نعمتوں، راحتوں اور قربِ الٰہی کی لذتوں کی کثرت ہوگی ان) کی وراثت (بھی) پائیں گے، وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے۔‘‘ (المومنون۔۱۰۔۱۱)
lسود، جوا اور شراب سے بچنے والے:
’’اے ایمان والو! دو گنا اور چوگنا کر کے سود مت کھایا کرو، اور اللہ سے ڈرا کرو تاکہ تم فلاح پاؤ۔‘‘ (آل عمران:۱۳۰)
’’اے ایمان والو! بیشک شراب اور جُوا اور (عبادت کیلئے) نصب کئے گئے بُت اور (قسمت معلوم کرنے کیلئے) فال کے تیر (سب) ناپاک شیطانی کام ہیں۔ سو تم ان سے (کلیتاً) پرہیز کرو تاکہ تم فلاح پا جاؤ۔‘‘(المائدہ۔ ۹۰)  
lتزکیہ نفس کرنے والے:
’’ فلاح پا گیا وہ جس نے پاکیزگی اختیار کی۔(الاعلیٰ: ۱۴)
’’بیشک وہ شخص فلاح پا گیا جس نے اس (نفس) کو (رذائل سے) پاک کر لیا۔‘‘(الشمس: ۹)
l اللہ کی جماعت والے:
’’آپ اُن لوگوں کو جو اللہ پر اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتے ہیں کبھی اس شخص سے دوستی کرتے ہوئے نہ پائیں گے جو اللہ اور اُس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دشمنی رکھتا ہے خواہ وہ اُن کے باپ (اور دادا) ہوں یا بیٹے (اور پوتے) ہوں یا اُن کے بھائی ہوں یا اُن کے قریبی رشتہ دار ہوں۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کے دلوں میں اُس (اللہ) نے ایمان ثبت فرما دیا ہے اور انہیں اپنی روح (یعنی فیضِ خاص) سے تقویت بخشی ہے، اور انہیں (ایسی) جنتوں میں داخل فرمائے گا جن کے نیچے سے نہریں بہہ رہی ہیں، وہ اُن میں ہمیشہ رہنے والے ہیں، اللہ اُن سے راضی ہو گیا ہے اور وہ اللہ سے راضی ہو گئے ہیں، یہی اﷲ (والوں) کی جماعت ہے، یاد رکھو! بیشک اﷲ (والوں) کی جماعت ہی مراد پانے والی ہے۔‘‘(المجادلہ ۔ ۲ ۲ )
l نبی ؐامی کی پیروی کرنے والے:
’’(یہ وہ لوگ ہیں) جو اس رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پیروی کرتے ہیں جو اُمّی (لقب) نبی ہیں (یعنی دنیا میں کسی شخص سے پڑھے بغیر مِن جانبِ اللہ لوگوں کو اخبارِ غیب اورمعاش و معاد کے علوم و معارف بتاتے ہیں) جن (کے اوصاف و کمالات) کو وہ لوگ اپنے پاس تورات اور انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں، جو انہیں اچھی باتوں کا حکم دیتے ہیں اور بری باتوں سے منع فرماتے ہیں اور ان کے لئے پاکیزہ چیزوں کو حلال کرتے ہیں اور ان پر پلید چیزوں کو حرام کرتے ہیں اور ان سے ان کے بارِگراں اور طوقِ (قیود) جو ان پر (نافرمانیوں کے باعث مسلّط) تھے، ساقط فرماتے (اور انہیں نعمتِ آزادی سے بہرہ یاب کرتے) ہیں۔ پس جو لوگ اس (برگزیدہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لائیں گے اور ان کی تعظیم و توقیر کریں گے اور ان (کے دین) کی مدد و نصرت کریں گے اور اس نورِ (قرآن) کی  پیروی کریں گے جو ان کے ساتھ اتارا گیا ہے، وہی لوگ ہی فلاح پانے والے ہیں۔‘‘ 
(الاعراف: ۱۵۷)
lرسول اللہ ﷺکی سمع وطاعت:
’’ایمان والوں کی بات تو فقط یہ ہوتی ہے کہ جب انہیں اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف بلایا جاتا ہے تاکہ وہ ان کے درمیان فیصلہ فرمائے تو وہ یہی کچھ کہیں کہ ہم نے سن لیا، اور ہم (سراپا) اطاعت پیرا ہو گئے، اور ایسے ہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔‘‘  (النور:۵۱)
l فلاح پانے کیلئے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر
’’اور تم میں سے ایسے لوگوں کی ایک جماعت ضرور ہونی چاہئے جو لوگوں کو نیکی کی طرف بلائیں اور بھلائی کا حکم دیں اور برائی سے روکیں، اور وہی لوگ بامراد ہیں۔‘‘
l بندگی ٔ رب میں فلاح:
’’اے ایمان والو! تم رکوع کرتے رہو اور سجود کرتے رہو، اور اپنے رب کی عبادت کرتے رہو اور (دیگر) نیک کام کئے جاؤ تاکہ تم فلاح پا سکو۔‘‘ (الحج:۷۷)
l اللہ کی راہ میں جد وجہد:
’اے ایمان والو! اﷲ سے ڈرتے رہو اور اس (کے حضور) تک (تقرب اور رسائی کا) وسیلہ تلاش کرو اور اس کی راہ میں جہاد کرو تاکہ تم فلاح پاجاؤ۔‘‘ (المائدہ:۳۵)

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK