Inquilab Logo

راہل گاندھی کا غیر معمولی اعتماد مودی کیلئےسم ِ قاتل

Updated: June 07, 2023, 4:02 PM IST | Asim Jalal | Mumbai

’ بھارت جوڑو یاترا‘کے بعد کانگریس لیڈر کا جو روپ نکھر کر سامنے آیا ہے، وہ امریکہ میں بھی کھل کر نظر آیا، ان میں بلا کی خود اعتمادی دکھائی دی

Rahul Gandhi not only addressed Indian-Americans in San Francisco but also answered their questions
سان فرانسسکو میں ہندوستانی نژاد امریکیوں سےراہل گاندھی نے نہ صرف خطاب کیا بلکہ ان کے سوالوں کے جواب بھی دیئے

راہل گاندھی ان دنوں امریکہ کے دورہ پر ہیں۔  ایک طرف جہاں وہ شاید پہلی بار سفارتی پاسپورٹ کے بغیر ایک عام شہری کی طرح معمول کی سیکوریٹی  چیک سے گزرتے  ہوئے  ایئر پورٹ پر ۲؍ گھنٹے کا طویل وقت گزار نے کے بعد ملک میں داخل ہوئے ہیں وہیں دوسری جانب وزیراعظم نریندر مودی ۲۱؍ جون کو اپنے پہلے سرکاری دورہ  پر یعنی حکومت امریکہ کی دعوت پر امریکہ پہنچیں گے۔
  وزیراعظم بننے سے قبل گجرات فسادات کے حوالے سے کئی بار امریکہ کے ویزا سے محروم کئے گئے مودی  نے ۲۰۱۴ء میں وزارت عظمیٰ سنبھالتے ہی جن ممالک کے دورے کئے  ان میں  امریکہ سر فہرست  ہے۔  اس  کے بعد سے اب تک وہ ۷؍ بار امریکہ کا سفر کرچکے ہیں مگران کا ہر سفر یاتو  اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں شرکت کے مقصد سے رہا یاپھر کسی سمٹ میں شرکت کیلئے یا پھر ’ہاؤڈی مودی‘ جیسے کسی پروگرام کی خاطر۔  یہ پہلا موقع ہے جب وہ امریکی حکومت کی دعوت پر جارہے ہیں اور ۲۲؍ جون کو امریکی کانگریس کے دونوں ایوانوں  کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کا اعزاز بھی حاصل کریں  گے۔  ۲۰۰۹ء  (جب منموہن سنگھ اوبامہ حکومت کی  دعوت پر امریکہ گئے تھے ) کے بعد یہ پہلا موقع ہے جب ہندوستانی وزیراعظم امریکی حکومت کی دعوت پر امریکہ کا سفر کررہاہے۔اس لحاظ سے یہ دورہ غیرمعمولی اہمیت کا حامل ہے۔ ۲۱؍ سے ۲۴؍ جون کے اس دورےمیںدونوںکے درمیان کچھ  اہم  دفاعی سودے ہونے کی بھی امیدہے۔ 
 اس پس منظر میں وزیراعظم مودی کے اس دورے کی اہمیت کو سمجھا جاسکتاہے مگر اس سے قبل راہل گاندھی کا امریکی دورہ نیز  وہاں کی میڈیا اور عالمی شہرت کی حامل باوقار یونیورسٹیوں میں ان کا ہاتھوں ہاتھ لیا جانابجا طور پر بی جےپی  اوراس کے لیڈروں کیلئے مروڑ کا باعث  بنا ہواہے۔اس پر طرہ یہ کہ راہل گاندھی  امریکہ میں وزیراعظم مودی کی قلعی کھولنے  پر آمادہ  نظر آرہے ہیں۔ کہیں وہ یہ کہہ دیتے ہیں کہ ہندوستان میں ’’لوگوں کا ایک گروپ ہے جو یہ سمجھتا ہے کہ اسے سب کچھ معلوم ہے۔ وہ سائنسدانوں کو سائنس، مورخین کو تاریخ، فوج کو جنگ اور فضائیہ کو طیارہ اڑانا سکھانے کا دعویٰ رکھتا ہے۔ اس کی ایک مثال ہمارے وزیراعظم بھی ہیں۔‘‘  وہ یہیں نہیں رکتے اور  وزیراعظم پر طنز کستے ہوئے یہ تک کہہ دیتے ہیں کہ ’’انہیں اگر بھگوا ن کے ساتھ بٹھا دیا جائے تو وہ بھگوان کو بھی سمجھائیں کہ یہ دنیا کیسے چلتی ہے۔‘‘  واشنگٹن  میں نیشنل پریس کلب میں مدعو کئے جاتے ہیں تو ہر موضوع پر  پوری خود اعتمادی کے ساتھ، پُریقین لہجے میں سوالات کا سامنا کرنے اور تسلی بخش جواب دینے کےبعد وہ  انٹرویو کے اختتام پر  میزبان سے یہ سوال کرلیتے ہیں کہ ’’کیا آپ ہمارے وزیراعظم کو بھی یہاں  مدعوکریں گے؟ میں اس کامنتظر رہوں گا۔‘‘ 
  بھارت جوڑو یاتراکے بعد راہل گاندھی کا جو روپ نکھر کر سامنے آیا ہے وہ امریکہ میں بھی کھل کر نظر آیا۔ان کی بلا کی خود اعتمادی، نظریاتی  پختگی، ہر طرح کے سوالات کا اطمینان سے جواب دینا،  ہندوستانی مسلمانوں کے تعلق سے پوچھے گئے سوالات پر (اکثریتی فرقے کے ووٹروںکے روٹھ جانے کے خوف کو بالائے طاق رکھتے ہوئے) کسی طرح کی لاگ لپیٹ سے گریز،  سفارتی امور  پر کئے جانے والے سوالات پر ذہنی بالیدگی کا مظاہرہ    اور کھل کر یہ کہنا کہ اگر کانگریس کی حکومت ہوتی تب بھی یوکرین اور روس جنگ کےتعلق سے حکومت ہند کا طرز عمل کم وبیش وہی ہوتا جو ابھی ہے، راہل گاندھی کو نہ صرف واضح نظریہ کے حامل لیڈر کے طور پر پیش کرتا ہے بلکہ اس سوال کا جواب بھی پیش کرتا ہے جو ہندوستانی میڈیا نے ۲۰۱۴ء کے بعد سے گڑھ لیا ہے کہ ’’مودی نہیں تو کون؟‘‘
 راہل گاندھی  کے اس دورے کی وجہ گزشتہ ماہ انہیں ملنے والا اسٹین فورڈ یونیورسٹی کا دعوت نامہ بنا جس میں انہیں اس باوقار یونیورسٹی میں لیکچر کیلئے مدعو کیا گیا تھا۔ اس دعوت نامہ کو قبول کرتے ہوئے  کانگریس  نے راہل گاندھی کے ۱۰؍ روزہ امریکی دورے کا پروگرام تیار کیا جس کا  مقصد ’اصل جمہوری قدروں کا فروغ‘  بتایاگیاہے۔ یہ اس لحاظ سے اہم ہے کہ بیرون ملک آبادہندوستانی شہریوں کے ذہنوں کو  پراگندہ کرنے کیلئے جس طرح کام کیاگیا ہے،اسکے مقابلے کیلئے ویسی کوششیں نہیں ہوئیں۔  ایسے میں راہل گاندھی کا اسٹین فورڈ یونیورسٹی ہو کہ نیشنل پریس کلب، بلا کسی لاگ لپیٹ کے گفتگو کرنا، مسلمانوں پر سوال ہو کہ انڈین یونین مسلم لیگ پر ، یہ سوچے بغیر کہ بھگوا عناصر اس کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کرسکتے ہیں، حقیقت پر مبنی جواب دینا ،اس بات کامظہر ہے کہ اب کانگریس کی قیادت ’نرم ہندوتوا ‘کی بے وقوفانہ پالیسی  کے بجائے سیکولرزم  اور سب کو ساتھ لے کر چلنے کی پالیسی پر آگے بڑھنے کا ارادہ رکھتی ہے۔
 اس بات کو ملحوظ رکھا جانا چاہئے کہ ۲۰۱۴ء میں  بی جے پی  کے اقتدار میں آنے کے بعد سے ہی  ایک منصوبہ بند حکمت عملی کے تحت راہل گاندھی کو ’’پپو‘‘ بنا کر پیش کرنے کی کوشش کی گئی۔اس میں  ہمارے قومی میڈیا کا بڑا رول رہا ،۹؍سال کی اس کوشش کے بعد بھی اگر  راہل گاندھی  اپنی شخصیت کو منوانے میں کامیاب ہورہے ہیں تو بی جےپی اور اس کی تشہیری مشنری کی غیر معمولی ناکامی ہے۔ واشنگٹن   میں نیشنل پریس کلب میں گفتگو کے دوران  انہوں نے جب ہندوستان میں ’’زیر سطح‘‘ مودی سرکار اور بی جےپی کے خلاف پنپ رہی ناراضگی کا حوالہ دیا اور اپوزیشن کے اتحاد کےساتھ ۲۰۲۴ء میں ’حیران کن‘ نتائج کی پیش گوئی کے ساتھ  اس یقین کا اظہار کیا کہ اگلے پارلیمانی الیکشن میں بی جےپی کو ہرایا جا سکتا ہے تو  بین الاقوامی میڈیا نے ان کے اس بیان کو نہ صرف قابل توجہ سمجھا بلکہ  دنیا کے تمام بڑے میڈیا اداروں  نے اس کی رپورٹنگ کی۔   اس طرح   راہل گاندھی کی شبیہ کو خراب کرنے کی مہم  ہی  بے اثر نہیں  ہوئی بلکہ  وہ اندرون ملک اپوزیشن لیڈروں میں بھی سب سے قدآور شخصیت بن کر ابھر رہے ہیں۔ اب تک مودی کے مدمقابل کے طور پر راہل گاندھی کے ساتھ ،ممتا بنرجی، اروند کیجریوال، کے چندر شیکھر راؤ  اور نتیش کمار جیسے  لیڈروں کے نام پیش کئے جارہے تھے مگر اب راہل گاندھی نے سب کو پیچھے چھوڑ دیا ہے اور حالات  وہ رخ اختیار کررہے ہیں کہ اپوزیشن کوکانگریس کی قیادت کوتسلیم کرنا پڑےگا۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK