Inquilab Logo Happiest Places to Work

راہل: مقبولیت اور معرکے (۱)

Updated: June 13, 2024, 4:05 PM IST | Mumbai

مقبولیت میں اضافہ کا سفر تب شروع ہوا جب ۷؍ ستمبر ۲۰۲۲ء کو راہل کم وبیش چار ہزار کلومیٹر کی ’’بھارت جوڑو یاترا‘‘ پر کنیا کماری سے کشمیر کیلئے روانہ ہوئے۔

Rahul Gandhi Photo: INN.
راہل گاندھی۔ تصویر: آئی این این۔

کیا راہل گاندھی کی مقبولیت میں اضافہ ہوا ہے؟ یہ سوال کسی سے بھی اور کہیں بھی پوچھ لیا جائے، جواب اثبات ہی میں ملے گا۔ راہل کے مخالفین بھی اس سے انکار نہیں کرسکتے۔ گزشتہ ماہ این ڈی ٹی وی کیلئے لوک نیتی اور اسٹڈی آف ڈیولپنگ سوسائٹیز (سی ایس ڈی ایس) کے ایک سروے کی رپورٹ منظر عام پر آئی تھی جس سے اس حقیقت کی توثیق ہوئی۔ سروے میں پایا گیا تھا کہ مقبول ترین لیڈر کا سہرا وزیر اعظم مودی کے سر ہی بندھتا ہے مگر راہل گاندھی کی مقبولیت میں اضافہ ہوا ہے۔ ۲۰۱۹ء میں سروے میں حصہ لینے والے ۴۴؍ فیصد لوگ مودی کے حق میں اور ۲۴؍ فیصد راہل کے حق میں تھے مگر ۲۰۲۴ء میں ۴۳؍ فیصد لوگ مودی کے اور ۲۷؍ فیصد راہل کے حق میں تھے۔ بہ الفاظ دیگر مودی کی مقبولیت (ایک فیصد ہی سہی) کم ہوئی اور راہل کی مقبولیت ۳؍ فیصد بڑھی۔ ایسے ادارے جن پر کسی خاص مقصد کے تحت کام کرنے کا الزام ہو، وہ بھی راہل کو پسند کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ کی توثیق کررہے ہیں، اس کا مطلب واضح ہے کہ کانگریس کے سابق صدر اور وائناڈ کے رُکن پارلیمان خو دکو منوانے کی کوشش میں کامیاب ہے۔ 
حقیقت یہ ہے کہ ۲۰۰۴ء اور ۲۰۰۹ء میں بآسانی وزیر یا وزیر اعظم بن سکنے والے راہل گاندھی نے اپنے لئے آسان راستہ منتخب نہیں کیا بلکہ مشکل راستے پر چلنے اور منزل تک پہنچنے کو ترجیح دی۔ وہ نہیں جانتے تھے کہ جس مشکل راستے کا اُنہوں نے انتخاب کیا وہ غیر معمولی طور پر مشکل بنا دیا جائیگا، نہایت مضر پروپیگنڈہ پر کروڑوں روپے صرف کئے جائینگے اور اس طرح اُن کی شبیہ خراب کرنے کی دن رات کوشش ہوگی۔ بی جے پی کے اُن لیڈروں کو آپ بھی بھولے نہیں ہونگے جنہوں نے راہل کو غیر سنجیدہ اور راہِ فرار اختیا رکرنے والا باور کرانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ ان لوگوں نے اُنہیں تضحیک و تمسخر کا نشانہ بنایا اور کوشش کی کہ وہ عوام کی نگاہوں میں بے قیمت ہوکر رہ جائیں۔ راہل اس منصوبہ بند کوشش سے ٹکرائے نہ اس کا جواب دیا بلکہ اپنے حسن اخلاق اور حسن عمل سے اُنہیں زیر کرنے کی کوشش کی۔ اتنا ہی نہیں، مرکز ِ اقتدار سے جرأتمندانہ سوالات کے ذریعہ اُنہوں نے ایک نڈر سیاستداں کے طور پر اپنی شناخت بنائی مگر اُن کے خلاف جاری پروپیگنڈہ اتنا شدید تھا کہ اُن کی یہ کوششیں بھی کارگر ثابت نہیں ہورہی تھیں۔ یہ وہ وقت تھا جب اُن کے خلاف اقدامات کا سلسلہ شروع ہوا۔ نیشنل ہیرالڈ کیس میں ای ڈی کی ۵۵؍ گھنٹے کی پوچھ تاچھ سے لے کراُن کی پارلیمانی رُکنیت چھین لینے تک بہت کچھ ہوا اور راہل گاندھی ہر بار پہلے سے زیادہ کامیاب ہوکر اُبھرے۔ مگر اُن کے کریئر کا اہم موڑ اب بھی نہیں آیا تھا۔
مقبولیت میں اضافہ کا سفر تب شروع ہوا جب ۷؍ ستمبر ۲۰۲۲ء کو راہل کم وبیش چار ہزار کلومیٹر کی ’’بھارت جوڑو یاترا‘‘ پر کنیا کماری سے کشمیر کیلئے روانہ ہوئے۔ عوام میں جانے اور اُن کے مسائل اُنہی کی زبانی سننے کا یہ عمل دلوں کو جیتنے کی طاقت رکھتا تھا جس میں ’’نفرت کے بازار میں محبت کی دکان‘‘ کا نظریہ اتنا کارگر ثابت ہوا اور یاترا کو ایسی حمایت ملی کہ مخالفین ششدر رہ گئے۔ کہہ سکتے ہیں کہ یاترا نے راہل مخالف غلط فہمیوں کی بیخ کنی کی اور غلط فہمیاں پیدا کرنے والوں کو شدید ہزیمت سے دوچار کیا۔ حالیہ انتخابی نتائج نے راہل کی شبیہ کو پہلے سے کہیں زیادہ مستحکم کردیا مگر یہ کامیابی اُن کے شایان شان نہیں۔ ابھی انہیں مزید معرکے سر کرنے ہیں ۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK