Inquilab Logo

راجستھان: گتھی سلجھی نہیں ہے ابھی

Updated: September 29, 2022, 2:10 PM IST | Mumbai

ایسا لگتا ہے کہ کانگریس ہائی کمان نے ’’بوجوہ‘‘ گہلوت کو معاف کردیا ہے لہٰذا اب ایک بار پھر یہ امکان قوی ہوگیا ہے کہ گہلوت پارٹی کے صدارتی الیکشن کیلئے پرچۂ نامزدگی داخل کرینگے۔ مگر گہلوت کے معاف کئے جانے سے مسئلہ حل نہیں ہوا ہے۔

Picture .Picture:INN
علامتی تصویر ۔ تصویر:آئی این این

 ایسا لگتا ہے کہ کانگریس ہائی کمان نے ’’بوجوہ‘‘ گہلوت کو معاف کردیا ہے لہٰذا اب ایک بار پھر یہ امکان قوی ہوگیا ہے کہ گہلوت پارٹی کے صدارتی الیکشن کیلئے پرچۂ نامزدگی داخل کرینگے۔ مگر گہلوت کے معاف کئے جانے سے مسئلہ حل نہیں ہوا ہے۔ اگر گہلوت صدارتی الیکشن میں ہونگے تو اعلیٰ کمان کی حمایت اُنہیں کو حاصل ہوگی۔ تب نتیجہ بھی اُنہی کے حق میں آئیگا مگر اُس صورت میں راجستھان کی قیادت کون سنبھالے گا؟ سب جانتے ہیں کہ گہلوت پارٹی کی صدارت قبول کرنے کیلئے تیار نہیں تھے۔ اُنہیں سمجھایا گیا اور اُنہوں نے اس لئے سمجھ لیا کہ وہ اعلیٰ کمان کی بات ماننے والوں میں سے ہیں اور وفادار کی حیثیت ہی سے کانگریس سے وابستگی کا طویل دور گزارا ہے۔ اُن کی دو تجاویز تھیں۔ ایک یہ کہ اُنہیں صدر بننے کے بعد بھی ریاست کی وزارت اعلیٰ پر قائم رہنے دیا جائے۔ اگر یہ تجویز قابل قبول نہ ہوئی تو پھر وہ چاہیں گے کہ ایسا رُکن اسمبلی اس عہدہ کا حلف لے جو اُن کے اعتماد کا ہو، تاکہ وہ قومی سطح پر پارٹی کے انتظام و انصرام پر بھی توجہ دیں اور راجستھان کی بھی نگرانی رکھیں جہاں آئندہ سال اسمبلی انتخاب ہونا ہے۔  ہمارے خیال میں گہلوت کی دونوں تجاویز اس قابل تھیں کہ اُن میں سے کسی ایک کو شرف قبولیت بخشا جاتا مگر اِن اُمور کا گہرائی سے مشاہدہ کرنے والوں کا کہنا ہے کہ راہل اور پرینکا، بالخصوص پرینکا کی کوشش تھی (اور شاید اب بھی ہے) کہ سچن پائلٹ کو راجستھان کی کمان سونپی جائے جنہوں نے ۲۰۱۷ء کے اسمبلی الیکشن سے پہلے پارٹی کی ساکھ کو مضبوط کرنے کیلئے انتظامی سطح پر کافی کام کیا تھا۔ اتنا ہی نہیں، جب اُن میں باغیانہ تیور دکھائی دینے لگے تھے تب پرینکا ہی نہیں اُنہیں منایا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ اُن سے وزارت اعلیٰ کا وعدہ کیا گیا تھا۔  جب گہلوت صدارتی الیکشن کا اُمیدوار بننے کیلئے تیار ہوگئے تو ایسا لگا کہ وہ وقت آگیا ہے جب سچن پائلٹ کی تاجپوشی ہوجائے گی مگر راجستھان کے ۸۰؍ سے زائد اراکین اسمبلی نے اپنا استعفےٰ سونپ کر یہ واضح کردیا کہ اگر سچن کو وزیر اعلیٰ بنایا گیا تو بڑے پیمانے پر ٹوٹ پھوٹ ہوگی۔ اراکین اسمبلی جو پیغام دینا چاہتے تھے وہ ایک جست میں منظر عام پر آگیا۔ دیکھا جائے تو یہ اراکین بھی غلط نہیں ہیں اور ان کا یہ کہنا بھی غلط نہیں کہ جو لیڈر انحرافی سرگرمیوں کا قائد رہا اُسے وزیر اعلیٰ کے طور پر قبول کیسے کیا جاسکتا ہے۔  اب صورت حال یہ ہے کہ گرہ کھلتی ہوئی دکھائی تو دے رہی ہے مگر ہنوز اُلجھی ہوئی ہے۔ گہلوت صدارتی اُمیدوار تو ہوجائینگے مگر کیا اعلیٰ کمان سچن کو یہ سمجھانے میں کامیاب ہوگا کہ اُن کا وقت آتے آتے رہ گیا اور ابھی اُنہیں مزید انتظار کرنا ہے؟ اگر سچن نہ مانے تو کیا ہوگا؟کانگریس کو یہ دیکھنا ہوگا کہ کہیں وہ اُسی متبادل کو نہ آزمائیں جو ماضی میں آزمایا تھا اور بڑی مشکل سے منائے گئے تھے۔ بی جے پی اِن حالات کا بغور مشاہدہ کررہی ہوگی۔ اگر اسے کمزور گیند ملی تو چھکہ ّ لگانے میں تاخیر اس کا مزاج نہیں ہے۔ اب سے پہلے اس نے متعدد مرتبہ ایسی بازی جیتی جسے مکمل طور پر ہار چکی تھی۔ ویسے راجستھان نہ تو مدھیہ پردیش ہے نہ ہی گوا اور اُتراکھنڈ۔ راجستھان کے حالات مختلف ہیں۔ یہاں گہلوت کا قد بھی کافی بلند ہے۔ اراکین پر ان کی گرفت بھی اتنی مضبوط ہے کہ پانسہ پلٹنا آسان نہیں۔ اس کے باوجود خطرہ تو لگا رہے گا۔ اور اب یہ اعلیٰ کمان سے زیادہ گہلوت کی ذمہ داری ہے کہ راجستھان کو بچا کر رکھیں چاہے وزیر اعلیٰ سچن پائلٹ ہی کیوں نہ ہوں ۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK