Inquilab Logo

رمضان ڈائری(۱۲):پنویل مسلم ناکے کے لذیذ کھانے مینارہ مسجد کی یاد دلاتے ہیں

Updated: April 03, 2023, 1:13 PM IST | wasim patel | Mumbai

پنویل کے مسلم محلے میں مقامی سماجی کارکن زبیر پٹو سے ملاقات ہوتی ہے، سلام علیک کے بعد میں نے ان سے کہا کہ رمضان تیزی سے گزر رہا ہے ان کا جواب تھا غلط ہم موت سے قریب ہوتے جا رہے

photo;INN
تصویر :آئی این این

پنویل کے مسلم محلے میں مقامی سماجی کارکن زبیر پٹو سے ملاقات ہوتی ہے، سلام علیک کے بعد میں نے ان سے کہا کہ رمضان تیزی سے گزر رہا ہے ان کا جواب تھا غلط ہم موت سے قریب ہوتے جا رہے ہیں کیونکہ وقت تیز رفتاری سے گزر رہا ہے ہم غفلت میں ہیں، کاش اُس دینی جذبے کو سال بھر قائم رکھیں جو  ہم میں رمضان کے مہینے میں موجزن رہتا ہے۔ ان کی بات میں واقعی دم تھا۔ ہم نے  اہلیہ سے کہا کہ  اس سال رمضان میں پھل بہت سستے ہیں،  اہلیہ نے جواب دیا اگر جیب میں رقم ہو تو ہر چیز سستی لگتی ہے اگر رقم موجود نہ ہو تو سستی چیز بھی مہنگی لگتی ہے،  ایسے غریب لوگ بھی ہیں جن کے لئے سحری اور افطار کا انتظام کرنا جوے شیر سے لانا کم نہیں،  اسی بات کو محسوس کرتے ہوئے ہمدرد قوم اقبال قاضی ہر سال رمضان کے دو تین دن پہلے چالیس ٹن سے زائد رمضان کی ضرورت کا سامان غریبوں اور ضرورت مندوں کو دیتے ہیں تاکہ رمضان کے مقدس مہینے کو وہ بے فکر ہوکر گزار سکیں۔  اب اس کارِ خیر سے ممبئی کے بعض علاقوں کے لوگ بھی مستفید ہورہے ہیں۔ ان میں  ایسے سفید پوش بھی ہیں جو کسی کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلاتے، اقبال قاضی خاموشی سے ان کے گھر رمضان کا سامان اور معقول رقم اس طرح پہنچا دیتے ہیں کہ ان کی غیرت کو ٹھیس نہ پہنچے۔ ایک بلڈنگ کے واچ مین سے ملاقات ہوتی ہے نام محمد حسین بتایا، ان کے مطابق وہ ایک غیر مسلم اکثریتی بلڈنگ میں کئی سال سے واچ مین ہیں، سوسائٹی کے ذمہ داران رمضان میں اِسے پارکنگ کی جگہ پر نماز کی اجازت  اور تراویح پڑھنے کے لئے دو گھنٹے کی چھٹی دیتے ہیں۔  اکثر کسی نہ کسی فلیٹ سے افطاری کا سامان آجاتا ہے البتہ سحری کا انتظام اُنہیں خود کرنا پڑتا ہے۔ شام کو پانچ بجے ممبئی سے آئے ایک دوست تنویر سے اچانک ملاقات ہوتی ہیں۔ کہنے لگا کسی کام سے پنویل آیا تھا سوچا مسلم ناکے سے افطاری کا سامان لیتا چلوں۔ اس نے باتوں باتوں میں کہا یار،  ایک بات بتاؤ مسلم ناکے کی ہر چیز مشہور ہے، یہاں کے لذیذ کھانے مجھے مینارہ مسجد کی یاد دلاتے ہیں، ساتھ میں مشہور ہے یہاں کے لوگوں کی زبان کی مٹھاس، ایسے اسٹال لگانے والے بھی مَیں  نے دیکھے ہیں جو افطار کے وقت غریبوں کو دینے کیلئے اشیائے خوردونوش الگ سے نکال کر رکھتے ہیں چاہے ان کا روزہ ہو یا نہ ہو۔ یہاں کے مسلمانوں کی سخاوت قابل تعریف ہے۔ پنویل کے اطراف کے لوگ جس میں برادران وطن بھی شامل ہیں،  رمضان کی رونق دیکھنے آتے ہیں اگر رمضان میں مسلم ناکہ نہیں دیکھا تو کیا دیکھا۔  اسی درمیان ایک ستر سالہ شخص سے ملاقات ہوتی ہے۔ وہ باتوں باتوں میں پرانی یادوں میں کھو گئے۔ ان کے مطابق ہمارے زمانے میں سحری کے وقت بیکری سے چیزیں لانے کا رواج بہت کم تھا۔ گھر کی عورتیں صبح تین بجے اٹھ جاتی تھیں، دو تین طرح کی سبزی اور روٹی سحری کیلئے بناتی تھیں، بعض لوگ مچھلی کا سالن چاول کے ساتھ کھاتے تھے۔ ایک اہم بات یہ ہے کہ ہر روز کسی ایک غریب کو سحری ضرور کرائی جاتی تھی۔ اس نمائندے کو یہاں کے مسلمانوں کی یہ ادا بہت بھاتی ہے کہ یہاں پر بہت کم لوگ بے روزہ  دار ملیں ۔گے چھوٹے بچے بھی رو رو کر اپنے والدین سے کہتے ہیں کہ انہیں بھی روزہ رکھنا ہے۔ عالم یہ ہے کہ چار پانچ سال کے  چھوٹے بچے سے لے کر پچہتر سال کے بزرگ تک، سب روزہ کا اہتمام کرتے ہیں۔  افطار کے وقت یہ منظر آپ کو ہر مسجد میں ملے گا جہاں پر لوگ رو رو کر اپنے مالک و مولا سے دُعا مانگتے ہیں۔
  ایسی ایک مسجد میں افطار کے لگ بھگ ایک گھنٹہ پہلے ایک پچاس سالہ شخص ہچکیاں لے لے کر دعا مانگ رہا ہے۔ دعا ختم ہونے کے بعد اس نے مجھے دیکھا اور کہنے لگا ان دو سالوں میں میرے بہت ہی قریبی دوست اور رشتہ دار اللہ کو پیارے ہوگئے،  آخر ہم اس بات کو محسوس کیوں نہیں کرتے کہ ایک دن ہمیں بھی مرنا ہے؟  دنیا میں ایک مچھر بھی کاٹے تو برداشت نہیں ہوتا، بجلی چلی جائے تو دم نکلا جاتا ہے، کیسے رہیں گے ہم قبر کے گڑھے  میں؟ اللہ ہماری حفاظت کرے۔  یہ کہہ کر وہ پھر رونے لگے۔ میری آنکھ بھی بھیگ گئی۔ 
  افطار کا وقت قریب تھا میں سوچ رہا تھا کہ کس طرح میں تلوجہ فیز ون میں اپنے مکان تک پہنچ پاؤں گا، میں نے فون کرکے اپنے ایک غیر مسلم دوست سے گزارش کی کہ اپنی اسکوٹر پر مجھے لفٹ دے دے۔ وہ فوراً  مان گیا، گھر پہنچ کر میں نے اسے پٹرول کیلئے رقم دینی چاہی  اس نے کہا کیوں شرمندہ کرتا ہے تیرا روزہ تھا، یہ میرا فرض تھا۔ 
  ایک روزہ دار کیلئے مدد کا یہ جذبہ دل کو چھو گیا۔  مجھے اکثر غیر مسلم صحافی دوستوں کے فون آتے ہیں کہ اس پوتر مہینے میں ہمارے لئے بھی دعا کرنا۔ میں سوچتا ہوں  جب برادران وطن اس مہینے کو اتنی اہمیت دیتے ہیں تب ہماری کیا ذمہ داری ہے؟ یہی نا کہ رمضان کی حقیقت اُ ن پر واضح کریں۔ کیا ہم ایسا کرتے ہیں؟

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK