Inquilab Logo

رمضان ڈائری(۲۷): ممبرا جامع مسجد کی نئی عمارت میں اس رمضان سےکلام الٰہی گونجنے لگا

Updated: April 19, 2023, 10:39 AM IST | Iqbal Ansari | Mumbai

ابھی رات کے تقریباً ساڑھے ۱۰؍ بج رہے تھے۔ مَیں ممبرا ریلوے اسٹیشن کے ایم گیٹ سے نکل رہا تھا کہ آٹو رکشا والوں کا شور سنائی دیا۔

photo;INN
تصویر :آئی این این

ابھی رات کے تقریباً ساڑھے ۱۰؍ بج رہے تھے۔ مَیں ممبرا ریلوے اسٹیشن کے ایم گیٹ سے نکل  رہا تھا کہ آٹو رکشا والوں کا شور سنائی دیا۔  وہ آواز دے رہے تھےکہ شیل پھاٹا،  دہیسر موری،  دوستی، امرت نگر کوسہ بھائی! یہ وہ رکشا والے ہیں جنہیں رکشا اسٹینڈ میں کھڑے ہونے سے الرجی ہے اور وہ   ایم گیٹ کو اس طرح گھیر لیتے ہیں کہ راہگیروں کاوہاں سے گزرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ حالانکہ بعض اوقات اسٹینڈ خالی رہتا ہے اس کے باوجود یہ رکشا والے وہاں سے مسافروں کو نہیں بٹھاتے بلکہ اسی طرح آواز لگاتے رہتے ہیں اور چار سیٹ مکمل ہوجانے کے بعد رکشا آگے بڑھاتے ہیں۔ ابھی مَیں  ان رکشوں سے بچتے بچاتے شہر میں داخل ہوہی  رہا تھاکہ رنگ برنگے برقی قمقموں سے سجی ممبرا جامع مسجد کی نئی جگمگاتی عمارت نگاہوں کو خیرہ کئے دے رہی تھی۔ 
 تاریخی ممبرا سنی جامع مسجد کی نئی عمارت زیر تعمیر ہے  اور تعمیر میں عطیہ جمع کرنے کیلئے مسجد کے مین گیٹ پر ہی ٹیبل بھی لگا ہوا تھا۔ یہاں کچھ لوگ موجود تھے۔ قریب جانے پر مسجد سے  تراویح  پڑھنے کی آواز سنائی دی۔ ٹیبل پر موجود حافظ شاکر(جو مسجد کے انتظامات میں پیش پیش رہتے ہیں) سے ملاقات پر معلوم ہوا کہ ’’مسجد میں دوسری تراویح ادا کی جارہی ہے۔ عشاء کی پہلی جماعت ۸؍ بجکر ۵۰؍ منٹ پر جبکہ دوسری جماعت ساڑھے ۱۰؍بجے شروع  ہوتی ہے۔کئی ملازمت  پیشہ افراد کو تاخیر ہو جاتی ہے اسی لئے ہر سال دوسری تراویح کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ دونوں تراویح میں ستائیسویں شب میں قرآن مجید مکمل کیا جائیگا۔ دوسری تراویح  میںحافظ آفتاب عالم اور حافظ احمد رضا کلام الہٰی سنا رہے ہیں۔‘‘حافظ شاکر مزید بتاتے ہیں کہ ’’جامع مسجد میں ابھی حمام اور طہارت خانہ وغیرہ کا کام مکمل نہیں ہوا ہے اسی لئے امسال پانچ  مصلیان ہی اعتکاف میں بیٹھے  ہیں  اور ہر آخری عشرے میں جو شبینہ ہوتی تھی وہ امسال مؤخر کی گئی ہے۔ البتہ کئی نمازی دیر رات بھی نماز ادا کرنے مسجد آتے ہیں اسی لئے مسجد رات بھر کھلی رہتی ہے۔ یہاں  ایک سیکوریٹی گارڈ مامور کیاگیا ہے۔‘‘اب اس ڈائری نگار نے مسجد کا جائزہ لیا تو دوسری تراویح میں گراؤنڈ فلور مصلیان سے پُر نظر آیا۔ اس وقت تقریباً  ۳۵۰؍  نمازی رہے ہونگے۔ مسجد کے اطراف زکوٰۃ اور فطرہ  ادا کرنے کیلئے مختلف مدارس کے ٹیبل لگنے شروع ہو گئے ہیں۔
 جامع مسجد کی نئی عمارت کی تعمیر کے تعلق سے پوچھنے پر حافظ شاکر نے بتایا کہ ’’جامع مسجد کی چار منزلہ نئی عالیشان عمارت تعمیر تو ہو گئی ہے لیکن ابھی ۵۰؍ فیصد کام اس طرح باقی ہے کہ ان میں کھڑکی ، دروازے، فلورنگ ،ٹائلس،بالائی منزلوں پر وضو خانہ ، طہارت خانہ اور تزئین کاری  اور اسی کے ساتھ مسجد کا عالیشان گنبد اور مینار کا کام ابھی ہونا  ہے۔ البتہ یہ خوشی کا مقام ہے کہ نئی عمارت میں پہلی مرتبہ تراویح ادا کی جارہی ہے اورکلام الٰہی گونجنے لگا ہے۔‘‘
 جامع مسجد کی پرانی اور نئی عمارت کے فرق کے تعلق سے دریافت کرنے پر حافظ جی بتاتے ہیں کہ پرانی عمارت گراؤنڈ، یک منزلہ اور ٹیرس پر مشتمل تھی جس میں بیک وقت تقریباً ڈیڑھ ہزار مصلیان کی گنجائش تھی جبکہ نئی عمارت چار منزلہ ، بالکونی اور ٹیرس پر مشتمل ہے جس میں بیک وقت تین تا ساڑھے تین ہزارمصلیان نماز ادا کرسکیں گے۔ نئی عمارت میں ہر منزلہ پروضو خانہ، طہارت خانہ، اس کےعلاوہ لفٹ اور بالائی منزلوں پر اترنے چڑھنے کیلئے ۲؍ سیڑھیاں بھی تعمیر کی  جارہی ہیں جو پرانی عمارت میںنہیں تھیں۔  اس ڈائری نگار کے مشاہدہ میں آیا کہ پرانی عمارت میں  بالکل درمیان میں ایک موٹا ستون تھا، جس سے ایک صف میں خلل پڑتا تھا۔  وہ  نئی عمارت میں نہیں ہے۔
’بلاک کرنٹ فیرنی‘
   جامع مسجد کے اطراف مٹھائی کی دکانیں بھی سجی ہوئی تھیں۔ چند قدم آگے بڑھا  تو  حلوہ پراٹھے والا اپنی تھال سجائے ہوئے تھا۔ اسی کے بازو میں النورسوئیٹس کے مینو نے مجھے چونکا دیا۔ مینو میں ایک فیرنی کا نام ’بلاک کرنٹ فیرنی ‘لکھا ہوا تھا جس کی قیمت ۴۵؍ روپے درج تھی۔  دکاندار سے تعجب خیز انداز میں اس فیرنی کے تعلق سے دریافت کیا تو دکاندار  نے مسکراتے ہوئے جواب دیا کہ ’’یہ جامن کے فلیور والی فیرنی ہے، جس طرح آم والی مینگو فیرنی ہوتی ہے اسی  طرح جامن کے فلیور والی فیرنی کو ’بلاک کرنٹ فیرنی‘ نام دیاگیا ہے۔ جب مَیں نے اس فیرنی کو دیکھنے کی خواہش ظاہر کی تو اس نے بتایاکہ ’’آج وہ فیرنی نہیں ہے البتہ وہ جامن کے رنگ کی ہوتی ہے۔‘‘ اس دکان پر رمضان کا اسپیشل مالپوا خریدنے والے کھڑے تھے۔  مالپوا اور فیرنی وغیرہ النور کے بازو میں ساگر اور ممبرا ریلوے اسٹیشن کے سامنے مٹھائی کی دکان ال اجوا اور اسی کے ساتھ ممبرا ریسٹورنٹ میں بھی دستیاب ہے۔ 
 رمضان کی یہ رونق النور سے دو تین  دکان بعد ملٹی فون موبائل شاپ پر ماند پڑرہی تھی جہاں پہلے کبھی کیفے شاہ ہوٹل ہوتا تھا۔ ممبرا بازار میں کپڑوں کی دکانیں دیر رات تک کھلی رہتی ہیں۔ خلاصۂ کلام یہ کہ ممبرا اسٹیشن سے شیل پھاٹا تک اتنے مقامات ہیں کہ ڈائری نگار ایک ایک جگہ رُک کر ڈائری لکھے تب بھی ممبرا کے رمضان کا حق ادا نہ ہو ۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK