سارے محلےایک جیسے دکھائی دے رہے ہیں جبکہ ان کی خصوصیات الگ الگ ہیں۔ لاک ڈاؤن سب پر چھا گیا ہے۔ ہر طرف سناٹا ہے۔ پرسوں جب اطلاع آئی کہ چاند ہوگیا ہے تو خلق خدا لاک ڈاؤن کو بھول کر رمضان المبارک کے استقبال میں مصروف ہوگئی
EPAPER
Updated: April 26, 2020, 4:40 AM IST
سارے محلےایک جیسے دکھائی دے رہے ہیں جبکہ ان کی خصوصیات الگ الگ ہیں۔ لاک ڈاؤن سب پر چھا گیا ہے۔ ہر طرف سناٹا ہے۔ پرسوں جب اطلاع آئی کہ چاند ہوگیا ہے تو خلق خدا لاک ڈاؤن کو بھول کر رمضان المبارک کے استقبال میں مصروف ہوگئی
ہر طرف سے آواز آنے لگی ’’چاند مبارک، چاند مبارک!‘‘ چونکہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے کوئی اپنے گھر سے نکلتا نہیں ہے اس لئے ساری مبارکبادیوں کا ذریعہ موبائل فون بن گیا جو رابطہ کی اتنی مضبوط کڑی ہے کہ اس کی وجہ سے دوسری کڑیاں ٹوٹ رہی ہیں۔ بہرکیف، مبارکباد کا سلسلہ شروع ہوا تو دوسرے دن تک جاری رہا۔ موبائل فون کی گھنٹی ہی بار بار نہیں بجی، وہاٹس ایپ کی ٹیں ٹیں بھی جاری رہی۔ مبارکباد کے نت نئے پیغامات موصول ہوئے۔ کسی نے اتنی سادگی کا مظاہرہ کیا کہ صرف ’’چاند مبارک‘‘ لکھنے پر اکتفا کیا۔ ا تنا مختصر لکھنے والے سے کہا جانا چاہئے کہ حضور اس میں لفظ ’’چاند‘‘ بھی اسراف ہے۔ آپ صرف مبارک بھی لکھ دیتے تو ہم جان جاتے کہ چاند کی مبارکباد ہے۔ اس کے برخلاف، کسی نے خوبصورت کارڈ بھجوایا۔ کسی نے کلام پاک کی آیت ’’شہر رمضان الذی اُنزل فیہ القرآن.....‘‘ کے اعادہ کے ساتھ رمضان مبارک لکھا اور دُعا کی درخواست کی۔ جس کا جیسا ذوق اس کا ویسا پیغام مگر مخلصانہ۔ چند روز قبل ہمارے ایک شناسا فون پر کہہ رہے تھے کہ رمضان پر مبارکباد دینے میں وہ لوگ پیش پیش رہتے ہیں جو روزہ نہیں رکھتے۔ ہم چاہتے تھے کہ اُن کے کلام پر اصلاح دیتے ہوئے کہیں کہ صاحب، ایسے لوگ سحری اور افطا ر میں بھی پیش پیش رہتے ہیں، روزہ ہی تو نہیں رکھتے مگر ہم نے مذاق پر سنجیدگی کو فوقیت دی اور کہا کہ اس معاملے میں کچھ نہ کہا جائے تو بہتر ہے کیونکہ روزہ بندے اور خدا کا درمیانی معاملہ ہے، ہم کیا جانیں کہ کون روزہ دار ہے اور کون نہیں!
رحمتوں اور برکتوں کی نوید لانے والا یہ چاند ایک ماہ تک تسلسل کے ساتھ جاری رہنے والی آزمائش کا گویا نقطۂ آغاز ہوتا ہے اس کے باوجود بندگان خدا اِس کا استقبال کرتے ہیں کہ نجانے اس ماہ کا کون سا لمحہ اُن کیلئے فلاح دارین کا سبب بن جائے۔ بلاشبہ یہ بہی خواہی کا مہینہ ہے لہٰذا لوگ کوشش کرتے ہیں کہ دوسروں کے ساتھ حسن ظن رکھیں مگر کچھ لوگ نہ چاہتے ہوئے بھی بات بات پر برہم ہوتے ہیں جیسے اپنے روزہ دار ہونے کا بار بار اعلان کرنا چاہتے ہوں۔ گزشتہ ہفتے ہم چند احباب سوشل ڈسٹنسنگ کے احترام میں ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعہ فریضۂ ملاقات ادا کررہے تھے۔ رمضان کا موضوع نکل آیا تو ایک دوست نے کہا: ’’ آپ تو جانتے ہیں کہ مجھے غصہ نہیں آتا، مَیں دوسروں کو غصہ کرتا دیکھتا ہوں تب آپے سے باہر ہوتا ہوں!‘‘ اس پر سارے دوست ہنس پڑے۔ اُنہی صاحب کا یہ بھی کہنا تھا کہ جب اُن کی اہلیہ نے توجہ دلائی کہ روزہ میں آپ ڈانٹتے بہت ہیں تو اُن کا جواب تھا: بیگم، وہ اس لئے کہ گیارہ مہینے جو خدمت آپ کے ذمہ ہوتی ہے وہ ایک ماہ کیلئے مَیں اپنے ذمہ لے لیتا ہوں۔
بہرحال، بات اس بات سے شروع ہوئی تھی کہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے ہر طرف سناٹا ہے۔ ایسے میں ہمارے محلہ کے نکڑ پر جو صاحب ِ شاعر نما پراپرٹی ڈیلر کے دفتر کے باہر بچھی کرسیوں میں سے ایک پر تشریف فرما رہتے ہیں، کل لاک ڈاؤن کی چھوٹ کے درمیان مل گئے، کہنے لگے: ’’ایک قطعہ سنتے جائیے۔ ہم نے یہ سوچ کر گوارا کرلیا کہ قطعہ سننے کیلئے کہا ہے، تالی یا تھالی بجانے کیلئے کہتے تو ہم کیا کرتے، ابھی ۲۲؍ مارچ کو زوروشور سے بجا چکے ہیں۔ ہماری آمادگی دیکھ کر انہوں نے جھٹ ایک پرزہ اپنی جیب سے برآمد کیا اور یوں ارشاد فرمایا:
پہلے بھی بہت آئے تھے وائرس، نہ تھے شیطاں
شیطان کورونا سے ہے ہر شخص پریشاں
ہم دیر سے اس فکر و تردد میں ہیں غلطاں
رمضان میں لاک ڈاؤن کہ لاک ڈاؤن میں رمضاں
اس سے پہلے کہ ہم کچھ کہتے اُنہوں نے رازدارانہ لہجے میں کہا: ’’مَیں جانتا ہوں آپ کہاں گرفت کریں گے۔ حضورِ والا، تسلیم کہ ’غلطاں‘ اور ’رمضاں‘ دونوں کا دوسرا حرف متحرک ہے، ساکن نہیں ، مگر جب ساری دُنیا ساکن ہو گئی ہو، کیا آپ اتنا گوارا نہیں کرسکتے؟‘‘ہم نے کچھ نہیں کہا، اتنےمیں پولیس کی جیپ آتی دکھائی دی تو ہم نے ایک دوسرے کو خدا حافظ کہا۔ یہ نہ کرتے تو پولیس والوں کو کیسے سمجھاتے کہ لاک ڈاؤن کے تناظر میں رمضان اور رمضان کے تناظر میں لاک ڈاؤن کے موضوع پر یہ دُنیا کا پہلا قطعہ ہے۔ جب بھی لاک ڈاؤن کی تاریخ لکھی جائیگی، اس قطعہ کا حوالہ ضرور دیا جائیگا۔
(تحریر: شاہد لطیف)